بے نظیر کی شہادت ۔۔پس آئینہ کوئی اور ہے ۔۔؟

پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوکی صاحبزادی بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت کو 7برس کا طویل عرصہ بیت گیا ،27نومبر 2007ء کو پیش آنے والا یہ اندوہناک سانحہ قوم آج تک بھُلا نہ سکی ، لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ بی بی بے نظیر بھٹوکو شہیدکرانے والے سازشی عناصر آج تک اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکے ۔ وہ لوگ جنہوں نے 5سال بی بی بے نظیر بھٹوشہید کے نام پر اس ملک میں حکومت کی ، اس دوران ''گڈ گورنس'' اور ''مفاہمتی سیاست '' کے نام پر اپنی مفاد پرستانہ سیاست کو پروان چڑھایا ۔وہ بھی بی بی بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو بے نقاب کر سکے اور نہ ہی انہیں سزا دلوا سکے ۔ محض 2نوجوانوں کو بی بی بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے کے الزام میں پکڑ ا گیا ۔اور کسی بااثر شخص کو ہاتھ ہی نہ ڈالا گیا ۔گزشتہ 7سالوں میں پی پی کے قائدین ،حکومت کے ذمہ داران سمیت کوئی شخص بھی اس بات کا جواب نہ دے سکا کہ بی بی بے نظیر بھٹو کو شہید کرنے کے واقعہ میں کون کون سا ہاتھ ملوث تھا ، وہ کون شخص تھا کہ جس نے بی بی بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ کے مین گیٹ سے نکلتے وقت فائرنگ کی ، وہ کون لوگ تھے جنہوں نے بی بی کا راستہ روک کر ''جئے بھٹو'' کے نعرے لگائے اور اسی لمحہ فائرنگ کی گئی اور بی بی کو شہید کردیا گیا ۔۔دنیا میں کسی بھی واقعہ میں ملوث شخص کو پکڑنے کیلئے ''موبائل فون'' کو بہت اہمیت حاصل ہے ،اس ڈیوائس میں موجود ''ڈیٹا''کی مدد سے پولیس اور ''خفیہ اداروں'' نے اب تک بیسویں مجرموں کو پکڑا اور انہیں سزائیں ہو گئیں ، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اس موبائل کے چکر میں بہت سے بے گناہوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے ،جبکہ بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کے بلیک بیری موبائل (جس میں ہرقسم کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے ) کی مدد سے بھی قاتلوں تک رسائی کی ادنیٰ کی کوشش بھی نہ کی گئی ۔۔اس کیس میں سابق صدر پرویزمشرف، سابق ڈی جی آئی بی اعجاز اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کا نام بھی لیا جاتا رہا لیکن انہیںاس کیس میں شامل کرنے کی جرا ت کسی کو نہ ہو سکی۔ سابق صدر اور بی بی بے نظیر بھٹو کے شوہرنامدار آصف علی زرداری نے تو اس حد تک کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ بی بی بے نظیر بھٹو کو کس نے قتل کرایا ، لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ وہی لوگ یعنی وہی ''خفیہ ہاتھ'' ان کی جان بھی لے لے گا ، سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی بارہا اس بات کا اعلان کیا کہ ہم نے قاتلوں کو پہچان لیا ہے ،جلد انہیں بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں گے ، مگر ڈھاک کے تین پات کے مصداق۔۔۔۔ معاملے جوں کا توں رہا اور پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ختم ہو گئی ۔۔اسکارٹ لینڈ یارڈ سے آنے والی تحقیقاتی ٹیم بھی اپنی رپورٹ دے کر چلی گئی ، اس تحقیقات پر کروڑوں روپے ضائع کر دئیے گئے لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا ۔

بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کو ہوا کیونکہ پارٹی کے مرد آہن آصف علی زرداری نے بی بی بے نظیر بھٹو کے حقیقی جانثاروں ،خصوصاً ''بھٹو فہم '' کے حامل رہنماؤں اور کارکنوں کو ''کھڈے لائن '' لگا کر رکھ دیا ۔ بی بی بے نظیر بھٹو کے مخالفین نے سابق صدر کی سرپرستی میں پیپلز پارٹی پر قبضہ کر لیا ۔ جیالے پیدا شدہ صوتحال سے دلبراشتہ ہو کر دوسری جماعتوں میں شامل ہو گئے ۔ بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہونے والے الیکشن میں بھی راولپنڈی جسے پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جاتا تھا کو بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ کیونکہ پیپلز پارٹی والوں نے الیکشن مہم میں مکمل تساہل پسندی سے کام لیا ، ان لوگوں کا خیال تھا کہ بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پی پی مظلوم جماعت بن گئی ہے ، اس لئے کامیابی ہمارا مقدر ہو گی ، اسی زعم میں پیپلزپارٹی کا جنازہ نکل گیا ۔ اس کے بعد گذشتہ برس ہونے والے الیکشن میں بھی قائدین کی غیر ذمہ دارانہ سوچ نے پی پی کو شکست سے دوچار کیا ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بی بی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی ''یتیم '' ہو گئی ۔ اور اس بے آسرا پارٹی کو سابق صدر آصف علی زرداری نے ''ہائی جیک'' کرکے ''بھٹو ازم'' کو بھی بی بی کے ساتھ زمین میں دفن کر ڈالا ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سابق صدر اپنی اہلیہ کے قاتلوں کو ''سولی'' پر لٹکانے کی تدبیر کرتے لیکن وہ 5سال انتہائی ہوشیاری اور خاموشی سے '' مفاہمتی سیاست '' کے تحت اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ،سابق صدر آصف علیٰ زرداری جن کی اہلیہ ظالموں کی سازشوں کی بھینٹ چڑھ گئیں ،انہیں آج تک اس بات کا احساس نہ ہوا کہ وہ ان لوگوں کو بے نقاب کریں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔ ادھر ''ن '' لیگ کے سربراہ اور موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی اسی ''مفاہمتی سیاست'' کے تحت زرداری حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے ۔ انہوںنے بھی بی بی کے قاتلوں بارے خاموشی اختیار کئے رکھی ۔ ۔ ان کا مقصد محض یہ رہا کہ زرداری حکومت 5سال پورے کرے گی تو آئندہ 5سال انہیں حکومت کرنے کا موقع ملے گا ۔یوں وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ۔

بی بی بے نظیر بھٹونے کہا تھا کہ'جمہوریت بہترین انتقام ہے '' کیا یہی جمہوریت ہے ؟۔ ایسا لگتا ہے کہ بی بی کے فرمان کا حکمرانوں نے یہ مطلب نکالا ہے کہ جتنا ہو سکے ''عوام سے انتقام لیا جائے '' اور انہیں سکھ کا سانس نہ لینے دیا جائے ۔ظاہر ہے کہ قوم کے اختیار میںکچھ نہیں ، اگر عوام کا بس چلے تو وہ بی بی کے قاتلوں کو اپنے ہاتھ سے گولی مار دیں ، لیکن مظلوم اور محکوم عوام ایسا نہیں کر سکتے ۔

آج بی بی بے نظیر بھٹو شہید کی 7 ویں برسی پر ہمارا دل اس سانحے کو یاد کرکے انتہائی غم زدہ اور دل فگار ہے ،آج ہم پیپلزپارٹی کے قائدین خصوصاً آصف علی زرداری اور چیئرمیں بلاول زرداری سے دست بستہ عرض کریں کہ وہ آئندہ اقتدار کے خواب دیکھنے کی بجائے اس بات کا عہد کریں کہ وہ بی بی بے نظیر بھٹوکے قاتلوں کو بے نقاب کریں گے اور انہیں ان کے منطقی انجام تک ضرور پہنچائیں گے ۔۔تو یہ ان کا ساری قوم اور پی پی کے جیالوں پر بڑا احسان ہو گا ۔۔ہمیں یقین ہے کہ اگر وہ بی بی بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب کرکے اپنا یہ فرض ادا کر نے میں کامیاب ہو گئے تو آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی ایک مضبوط قوت بن کر ابھرے گی ۔۔ہم اسی صورت میں بی بی بے نظیر بھٹو کے مشن کو آگے بڑھا سکتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ اور فکر کو ذاتی مفاد سے ہٹ کر قومی مفاد میں پروان چڑھائیں کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں ،یہ اقتدار اوردیگر سب بہاریں اسی وطن عزیز کی بدولت ہمیں حاصل ہوئی ہیں جنہیں ہم اپنے ہاتھوں تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے ۔
۔۔ختم شد ۔۔۔۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 115838 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.