سانحہ پشاور کے بعد کا پاکستان

2014ء کا دسمبر ہمیں ایک اور دکھ دے کر رخصت ہونے والا ہے۔ ویسے دہشت گردی تو ہمیں گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل زخم لگاتی جارہی ہے۔ پاکستان کا کوئی کونہ ایسا نہیں بچا جہاں دہشت گردوں نے معصوم جانوں کو چھلنی نہ کیا ہو۔ 16دسمبر جو پہلے ہی سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، اس دن دہشت گردوں نے پشاور میں معصوم بچوں کو جس بے دردی سے قتل کیا، اس کی مثال نہیں ملتا۔ اس ہولناک واقعے سے پاکستان تو کیا پوری دنیا کانپ اٹھی۔ انسان کے روپ میں ان درندوں کا تعلق نجانے کس دیس سے تھا ․․․․؟اس خوفناک واقعے کے فوراََ بعد پاکستان کی سوگوار فضا نے یکجہتی کا مظاہرہ دیکھااور ہمارے بڑے چھوٹوں نے ثابت کردیا کہ واقعی وہ ایک زندہ قوم ہیں اور ہر مشکل گھڑی میں اﷲ تعالیٰ نے ان میں ایک دوسرے سے جڑ جانے کی خوبی رکھی ہے جو انہیں پھر سے جینے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔اس خون آلود شام قومی لیڈروں نے وہ فیصلے کئے جو ملکی سلامتی اور دہشت گردی کے خاتمے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

فیصلے ہوچکے اور ان پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکاہے۔ پھانسی کی سزا بحال ہوئی اور دہشت گردوں کو لٹکانا شروع کردیا گیا۔ جہاں کہیں بھی رکاوٹ نظر آئی اسے ہٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کی زیر صدارت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں انہی مسائل اوررکاوٹوں پر تبادلہ خیالات ہوا۔ اس موقع پر انتہائی اہم فیصلے کئے گئے جن پر فوری عملدرآمد اور ٹائم فریم پر سب نے اصرار کیا۔ وزیراعظم نے ان فیصلوں کے بارے میں قوم کو بھی آگاہ کیا۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی قیادت کی ذمہ داری کو وہ ہر قیمت پر نبھائیں گے۔کمزور فیصلے کیے تو قوم مطمئن نہیں ہوگی،قوم کو اس وقت تسلی ہو گی جب مجرموں کو سزا ملے گی۔وزیراعظم نے دہشت گردی کے مقدمات کیلئے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتیں قائم کر نے کا اعلان کیا۔ جن کی مدت 2سال ہوگی۔ ماضی میں دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث مجرم قانون نظام میں بعض کمزوریوں کے باعث سزا سے بچتے رہے لہٰذا فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی ٹرائل کورٹ کے قیام سے یقینا ایسے جرائم کا ارتکاب کر نے والے عناصر بلا تاخیر اپنے انجام کو پہنچائے جاسکیں گے۔سپیشل عدالتوں میں فوجی افسران شامل ہونگے اس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ہے۔یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ملک میں کسی طرح کی عسکری تنظیموں اور مسلح جتھوں کی اجازت نہیں ہوگی۔ نفرتیں ابھارنیں، گردنیں کاٹنے ، انتہا پسندی اور فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے لٹریچر اخبارات اور رسائل کے خلاف موثر اور بھر کارروائی کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دہشت گردوں اور ان کے نظریات کی تشہیر پر مکمل پابندی ہوگی۔ دہشت گردوں کی مالی اعانت کے تمام وسائل مکمل طورپر ختم کر دیئے جائینگے۔ کالعدم تنظیموں کو کسی دوسرے نام سے کام کر نے کی اجازت نہیں ہوگی۔سپیشل اینٹی ٹیررازم فورس کے قیام اور انسداد دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کو مضبوط اورفعال بنانے کافیصلہ بھی کیاگیا ہے ۔ مذہبی انتہا پسندی کو روکنے اور اقلیتو ں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی ہوگی۔ بے گھر افراد کی فوری واپسی کو پہلی ترجیح رکھتے ہوئے فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کا عمل تیز کیا جائیگا۔ دہشت گردوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ کیا جائیگا۔ انٹر نیٹ سوشل میڈیا پر دہشت گردی کے فروغ کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کئے جارہے ہیں۔ پنجاب کے بعض علاقوں ، ملک کے ہر حصے میں انتہا پسندی کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جائیگی۔ کراچی میں جاری آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا۔ وسیع تر سیاسی مفاہمت کیلئے تمام فریقین کی طرف سے حکومت بلوچستان کو مکمل اختیارات دیا جارہا ہے۔ فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کیلئے فیصلہ کن کارروائی جارہی ہے۔ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کے ابتدائی مرحلے کے ساتھ ان کے بارے میں ایک جامع پالیسی تشکیل دی جارہی ہے۔ صوبائی انٹیلی جنس اداروں کو دہشت گردوں کے مواصلاتی رابطوں تک رسائی دینے اور انسداد دہشت گردی کے اداروں کو مزید مضبوط بنانے فوجداری عدالتی نظام میں بنیادی اصلاحات کا عمل تیز کیا جارہا ہے۔ اس حکمت عملی پر عملدر آمد کو یقینی کیلئے آئینی ترامیم اور ضروری قانون سازی بھی کی جارہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اس وقت غیرمعمولی صورتحال کا سامنا ہے۔ دہشت گرد وں کی چیرہ دستیوں سے ہر شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کررہا ہے۔دہشت گردی کی واردات کے بعد معیشت غیریقینی صورتحال کا شکار ہوجاتی ہے۔ عالمی لحاظ سے بھی ملک کا امیج خراب ہوا جس کا براہ راست اثر ہماری معیشت اور خارجہ پالیسی پڑا۔اس صورتحال میں غیرمعمولی اقدامات کی فوری ضرورت تھی۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہوئے دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا تھا۔ اس حوالے سے دہشت گردوں سے مذاکرات بھی کئے گئے تاہم وہ بے نتیجہ رہے جس کے بعد جون 2014میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔پاک فوج نے دہشت گردوں کیخلاف متعدد آپریشنز کئے جن میں سے ’ضرب عضب‘ اور’خیبرون‘ کے دوران 2100دہشت گرد مارے گئے ۔ اس دوران 190 جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا۔ آپریشن ضرب نے دہشت گردوں پر کاری ضرب لگائی جس کے بعد وہ وحشیانہ کارروائیوں پر اتر آئے اور معصوم بچوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ بہرحال سانحہ پشاور کے بعد کا پاکستان بدل چکا ہے جس میں دہشت گردی ، انتہا پسندی اور فرقہ واریت اور عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

آج ہم نے جو فیصلے کئے ہیں ان پر عمل درآمدمیں حکومت اور اس کے اداروں کے ساتھ ساتھ ہر شہری کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ اب ہم نے مل کر ملک دشمن عناصر کو شکست دینا ہے۔ انشاء اﷲ نئے سال میں ہم اس نئے عزم کے ساتھ داخل ہوں گے اور دہشت گردوں کو جڑ سے اکھیڑ پھینکیں گے۔ نہ صرف دہشت گردی بلکہ دہشت گردی کی فکر اور سوچ کا بھی خاتمہ کرکے رہیں گے۔ اب ہمیں انفرادی طور پر نہیں اجتماعی طور پر دہشت گردی کے خاتمے میں حصہ لینا ہے۔ہماری بہادر مسلح افواج دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزماء ہیں۔ ان کی قربانیوں کو پوری قوم خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ افواج پاکستان ہی ہماری سلامتی اور بقا کی امین ہیں۔ پوری قوم اپنی افواج کی صلاحیتوں کی معترف ہے۔ سیاسی قیادت کا اعتماد بھی انہیں حاصل ہے۔ دشمن ضرور اس رشتہ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے گا، ہمارے عزم کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا مگر ہم پاکستان کے بقا اور اپنی سلامتی کی خاطر اتحاد ویکجہتی سے دشمن کی کسی بھی سازش اور ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیں گے۔ بانی پاکستان کا ارشاد ہے: ’’اس اہم اور نازک وقت جب ہم خطرات سے دوچار ہیں، ہم آپس میں اتحادو یکجہتی پیدا کرکے بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں‘‘۔ تو آیئے ہم اس ارشاد کی روشنی میں پاکستان اور پاکستان کے شہریوں کے دشمنوں کیخلاف ایک ہوکر ملک کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالیں۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 67871 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.