دیرآید درست آید

سانحہ پشاور نے تاریخ کی کتب میں ایک ایسے باب کا اضافہ کر دیا جو اس سے پہلے کہیں نہیں ملتا ۔اس کی مثال نہ تو چنگیز خان کے دور میں قائم ہوئی اور نہ جنگ عظیم اول و دوم میں۔کل جب میں بار کونسل میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑ ھ رہا تھا تو بت بنا کھڑا تھا کہ نماز کے بعد جب یہ سارے ہاتھ دعا کے لئے اٹھیں گے تو حروف دعا آخر کیا ہونگے؟

گذشتہ روز سے سارے چینلز سب کچھ دکھا رہے ہیں، یہاں سب کچھ سے میری مراد خون میں لت پت دہشت گرد، شہید اور زخمی طلبا، اسکول کی تباہی کے مناظر ،غرض یہ کہ ہر وہ چیز دکھا رہے ہیں جو اصولا نہیں دکھانی چاہیئے۔ اب کچھ دن تک مذمتی بیانات کا سیشن زور و شور سے جاری رہے گاپھر کچھ دنوں ہفتوں یا شاید مہینوں بعد ایک اور واقعہ ہوگا جو کہ اس سے بھی شدید ہوگا ،پھر یہی عمل دہرایا جائے گا ہم یہی سمجھیں گے کہ اس سے بڑھ کر ظلم و دہشت کا واقعہ ہو ہی نہیں سکتا ،اور اگلا واقعہ پچھلے واقعہ سے بھی بڑھ کر ہولناک ہوگا۔یہ سلسلہ آخر کہاں تھمے گا؟ قیامت تک؟ اگر یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا تو پھر روز قیامت میں قیامت والی کیا بات رہ جائے گی؟

اس واقعہ کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ وزیر اعظم نے سزائے موت پر عائد پابندی اٹھانے کی منظوری دے دی اور اب ہم بھی یہ کہنے کے قابل ہو جائیں گے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی اور قتل و غارت کی سزا موت ہے ، اور موت کی سزا صرف سنائی ہی نہیں جاتی بلکہ اب یہ ملا بھی کرے گی، ورنہ کئی سالوں سے وہ دہشت گرد جنہیں ہمارے ہانپتے کانپتے نظام عدل نے بے پناہ کمزوریوں کے با جود سزائے موت دی تھی وہ مختلف جیلوں میں ٹھاٹ سے ہمارے ہی ٹیکسوں کے بل بوتے پر سرکاری حفاظت میں نہ صرف زندگی گزار رہے تھے بلکہ اپنے اپنے گروپوں کو کنٹرول بھی کر رہے تھے، اب ان کی باری بھی آنے والی ہے۔

تاہم ایک صوبے کی جیل سے تو ان کے بھائیوں نے انہیں بڑے ہی فلمی انداز سے آزادی بھی دلوانے کی کوشش کی تھی۔ میرا کمزور اور سادہ دماغ ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اول تو کسی دہشت گرد کو پکڑنا ہماری ثقافت ہی نہیں ،اب اگر وہ اپنی کسی بے وقوفی سے دھر لیا جاتا ہے یا ہمارے قابل اداروں کی گرفت میں آ ہی جاتا ہے ،اور ایک طویل عمل سے گزرنے کے بعداسے سزائے موت سنادی جاتی ہے تو اسے سزا فوری کیوں نہیں دی جاتی ہے ؟ کیا ہماری سرکار کسی بڑے واقعہ کے انتظار میں تھی کہ کب کچھ ایسا ہو اور کب وہ بوتل میں سے جن کو باہر نکالیں ورنہ بوتل ہی میں ان سے لاڈیا ں کرتے رہیں۔اصل بات تو یہ ہے کہ یہ افراد بھی تو ملک کے اثاثہ جات میں شمار ہوتے ہیں، کیونکہ ایک عد د ووٹ تو جیل سے بھی انہیں مل سکتا ہے اور جمہوریت میں ایک ایک ووٹ بہت قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک ہم بیرون ملک پاکستانیوں کو چاہے وہ ہمیں اربوں ڈالر سالانہ بھیج کر ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کر رہے ہیں، ملکی ترقی میں سب سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں انہیں ووٹ استعمال کرنے کا حق دے نہیں رہے، جبکہ جیلوں میں پڑے چور، اٹھائی گیر، قاتل اور دہشت گردوں کو خصوصی انتظامات کے تحت ووٹ ڈالنے کی سہولت ان کی بیرک تک پہنچائی جاتی ہیں۔ شاید ہمارے حکمران ان کے لئے کچھ زیادہ ہی گرم جوشی رکھتے ہیں یا الفت کا تقاضا بھی یہی ہوگا۔

دہشت گردی کا یہ نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری ثابت ہوگا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سے جو پیغام پوری قوم کو ملا ہےاب حکمران اس پر کیا حکمت عملی اختیا ر کرتے ہیں۔ ہرانسان کو اب سوچنا ہوگا کہ دشمن صرف سرحد کے اس پار ہی گھات لگائے نہیں بیٹھا ہے بلکہ وہ ہماری آستینوں میں بھی پناہ لئے بیٹھا ہے، اس کا کوئی مذہب نہیں ہے مگر ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کو مٹا دینا۔ لیکن اب بھی وقت ہے وہ کہتے ہیں نہ کہ دیر آید درست آید ہے لہذا اب ہمارے حکمرانوں نے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے 7 سال بعد سزائے موت پر عملدرآمد کی منظور ی دی ہے جس کے بعد یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جو غیر ریاستی عناصر اسلام کے ٹھیکیدار بن کر جنت کے ٹوکن تھامے دندناتے پھرتے ہیں ان کے ناپاک عزائم کا جلد خاتمہ ہوجائے گا۔
Akhtar Hussain
About the Author: Akhtar Hussain Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.