دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوامی اشتراک عمل کی ناگزیر ضرورت!

چند سال قبل ’وکی لیکس‘ کے انکشافات نے عالمی سطح پر تہلکہ مچا دیا تھا۔یہ انکشافات امریکی حکومت کی پالیسی اور معاملات سے متعلق تھے جس میں مختلف ملکوں سے متعلق ایسی کئی خفیہ باتیں بھی آشکار ہو گئیں جو پہلے لوگوں کے علم میں نہیں تھیں۔’وکی لیکس‘ کے ان انکشافات سے امریکی حکومت کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہوئیں اور ان ملکوں کے لئے بھی جنہوں نے اہم امور اپنے عوام سے مخفی رکھے ہوئے تھے۔2010ء میں’وکی لیکس‘ نے ایک انکشاف کیا کہ بھارت اور ایران پاکستانی طالبان کی مدد اور علیحدگی پسند عناصر کی سپورٹ کرتے ہیں۔دسمبر2009ء میں امریکی محکمہ خزانہ کے ایک اہلکار ہاورڈمینڈل موہان اور متحدہ عرب امارات دبئی کی خفیہ ایجنسی اور سٹیٹ سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ کے اہلکارکے درمیان ہوئی جس میں متحدہ عرب امارات نے امریکی اہلکار کو کہا کہ بھارت پاکستانی طالبان اور علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کرتا ہے،امریکی اہلکار کو مزید بتایا گیا کہ طالبان دبئی میں پاکستان اور افغانستان کے کام کرنے والے تاجروں سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔گزشتہ دنوں ہی بھارت کے اعلی عہدیدار نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اوڑی کے قریب بھارتی فوجی کیمپ پر حملے کا جواب پاکستان کو آئندہ چھ ماہ کے اندر دیا جائے گا۔طالبان اور دوسرے ناموں سے متحرک دہشت گردوں نے جی ایچ کیو ،مہران ایئر بیس،کراچی ایئر پورٹ سمیت کئی اہم اور حساس تنصیبات کو یوں نشانہ بنایاگیا کہ سب حیران رہ گئے۔پاکستان نیوی کے ایک جہاز کے اغوا کی کوشش بھی ایک سنگین اور ممکنہ خطرناک نتائج پر مبنی تھی۔لیکن ان تمام واقعات کے باوجود دہشت گردی کے خلاف ہماری کوششیں جنگی صورتحال کے تقاضوں کے مطابق نہ رہیں۔آپریشن ضرب عضب اور خیبر ون میں دہشت گردوں کو کافی نقصان پہنچایا گیا لیکن یہ اتنا کافی نہیں تھا کہ جو ان دہشت گرد گروپوں کو پاکستان میں مزید سنگین ترین حملوں سے روک سکے۔ہم نے دہشت گردوں کے سنگین ترین حملوں کو بھی ایک معمول کے طور پر لیا لیکن16دسمبر کو وہ اندوہناک دہشت گرد حملہ ہوا کہ جس سے تمام ملک دھل گیا۔دہشت گردوں کے کسی حملے نے اتنا بڑا صدمہ نہیں دیا جتنا پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے میں132معصوم بچوں سمیت 142معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔پاکستان ہی کیا بھارت میں بھی عوام نے معصوم بچوں کے اس قتل عام کے واقعہ پر افسوس اور دکھ کا اظہار دیکھنے میں آیا۔جمعہ کو دو دہشت گردوں کو پھانسی چڑھانے اور گزشتہ روز دو درجن سے زائد خودکش حملہ آور بھیجنے کے طالبان دہشت گرد رہنماؤں کے پیغامات پکڑے جانے کے بعد پورے ملک میں ریڈ الرٹ کردیاگیا ہے۔ سیکورٹی میں اضافے کے ساتھ فورسز سے وابستہ تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لئے بند کردیئے گئے۔ پنجاب کے بڑے شہر دہشت گردوں کے سفاکانہ ہدف ہونے کاخدشہ ہے۔دہشت گردوں کی پھانسی اور آپریشن میں بڑی تعداد میں دہشت گردوں کی ہلاکت کے ردعمل میں دہشت گرد حملوں کے پیش نظر ملک بھر میں ریڈ الرٹ کیا گیا ہے اور فوج سے وابستہ تعلیمی اداروں کے علاوہ دیگر نجی تعلیمی ادارے بھی 4جنوری تک بند رکھنے کی اطلاعات ہیں۔

اسلام آبا دکے آبپارہ علاقے میں قائم لال مسجد کے سامنے سانحہ پشاورکے حوالے سے سول سوسائٹی روزانہ اس بات پہ احتجاج کر رہی ہے کہ مولانا عبدالعزیز نے طالبان کے دہشت گرد حملے کی مذمت کرنے کے بجائے ان کے حق میں دلائل دینے کی کوشش کی ہے۔عام شہری اس بت پہ حیران ہیں کہ لال مسجد میں فوجی آپریشن کے ایک ذمہ دار ،جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا،کو کس نے دوبارہ لال مسجد میں آنے کی اجازت دی؟اب مولانا عبدالعزیز دوبارہ دارلحکومت اسلام آباد میں طالبان ذہنیت کے پرچار میں مصروف ہے۔حکومت اور فوج کی ذمہ داری ہے کہ طالبان ذہنیت کے لوگوں کے خلاف بھی سخت کاروائی کی جائے تاکہ جہالت،جنونیت اور درندگی پر مبنی اس بیمار سوچ کو ملک میں پھیلنے اور دہشت گردوں کا آلہ کار بننے سے روکا جا سکے۔ اس واقعہ یہ بات ایک بار بھر ثابت ہو گئی ہے کہ مخصوص بیمار دماغوں والے یہ دہشت گرد عناصر انسانیت کے لئے خطرہ ہیں۔ہر پاکستانی کا دل اس وقت خون کے آنسو رو رہا ہے اور ہر دل کی پکار ہے کہ اب کوئی بھی کام ضروری نہیں سوائے ان دہشت گرد دندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے۔دہشت گردوں کو خلاف تمام قبائلی علاقوں میں بیک وقت جنگی آپریشن شروع ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں ان دہشت گردوں اور ان کے معاون عناصر کے خلاف سخت ترین کاروائیاں شروع کی جائیں تاکہ اسلام کا نام لیکر اسلام کا نام بدنام کرنے والے یہ ذہنی مریض معصوم ذہن لوگوں کو ورغلانہ سکیں۔ان دہشت گردوں اور ان کی حمایت میں بوگس دلائل دینے والوں کے خلا ف سخت ترین کاروائی اب ناگزیر ہے۔اسلام کی خو د ساختہ تشریح کرتے ہوئے دہشت گردی کرنے والے دہشت گردوں کے حوالے سے پاکستانی عوام کی طرف سے شدت سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں،چاہے وہ طالبان کا نام اختیار کئے ہوئے ہوں یا کسی اور نام سے مذہب کو استعمال کرتے ہوئے معصوم بچوں،شہریوں کے خلاف درندگی کے انسانیت سوز حملے کرتے ہیں،ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ملک سے دہشت گردی اور انتہاپسندانہ سوچ و عمل کے خاتمے کے لئے بھرپور اقدامات کایہ بہترین وقت کہ نا صرف دہشت گردوں بلکہ ملک میں مذہب سمیت کسی بھی نام پر انتہا پسندانہ ،غیر انسانی،غیر اسلامی سوچ رکھنے والوں کا قبلہ درست کیا جائے۔جنونیت اور انتہا پسندی والی سوچ اور عمل کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائیاں ناگزیر ہیں تا کہ دہشت گرد عناصر ملک کے معصوم ذہن لوگوں کو مذہب کے نام پر ورغلاتے ہوئے انہیں اپنے مذموم عزائم کے لئے استعمال نہ کر سکیں۔

وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز کے مطابق معصوم بچوں کے قتل عام کا ایہ اندوہناک واقعہ ہمارے لئے نائن الیون کی طرح ہے ۔اس واقعہ سے اس بات کی ضرورت ایک بار پھر سامنے آئی ہے کہ افغانستان سے ملحق سرحد کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے اقدامات کئے جائیں۔یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ ہماری سابقہ پالیسیوں میں ایسی کیا غلطیاں تھیں کہ جن کی وجہ سے جہاد افغانستان میں ہمارے بیس کیمپ والے علاقے دہشت گردوں کے محفوظ علاقے بن گئے اور عسکری گروپ پاکستان دشمنوں کے آلہ کار کے طور پر استعما ل ہونے لگے۔اس تمام صورتحال میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری دہشت گردی کے خلاف خوش آئند ہے۔نظر یہی آ رہا ہے کہ اب ہمیں دہشت گردی کے خلا ف جنگ کے ایک نئے دور کا سامنا ہے جس میں پیش بندی کے اقدامات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔اس حوالے سے ضروری ہے کہ حکومت ،فوج اور عوام یکجاء ہو کر متفقہ منصوبہ بندی کے مطابق اپنا اپنا کردار سرگرمی سے ادا کریں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے ناگزیر ہے کہ عوام کے اشتراک عمل کو یقینی بنایا جائے اور عوام سے متعلق سرکاری اداروں کی کارکردگی کو کرپشن ،اقرباء پروری اور دھونس سے پاک کیا جائے۔عوام کو تیسرے درجے کی مخلوق بنائے رکھنے سے قومی اہداف کا حصول مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہو سکتا ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 615191 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More