اور جب پشاور کے پھول خون میں نہلا دئیے گئے

ملک میں پھیلی دہشت گردی کے آسیب نے پھر سے اپنے پر پھیلا دئیے ہیں ۔ آرمی کے آپریشن ضرب ِ عصب کی وجہ سے ملک میں دہشت گردوں کا بڑی حد تک صفایا کر دیا گیا ہے لیکن بہت سے دہشت گرد گروہ ایک بار پھر سے متحرک ہو گئے ہیں ۔پورا ملک ایک عرصے سے دہشت گردی کی کاروائیوں کا ہدف رہا ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں خاص طور پر پشاور میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہوتی جارہی ہے ۔پے در پے دھماکوں نے اس شہر کی رونقیں چھین لی ہیں اس شہر میں کوئی گلی کوئی کوچہ ، مسجد ، چرچ ان دہشت گردوں سے محفوظ نہیں رہا لیکن اب ان دہشت گردوں کا نشانہ پشاور کے اے ۔ پی ۔ ایس سکول کے ننھے بچے تھے ۔

آج سے کئی برس پہلے 16دسمبرہی کے روز پاکستان نے دولخت ہونے کے سانحہ کا سامنا کیا تھا اور اسی دن پشاور میں قیامت ِ صغری ٰ برپا کر دی گئی ۔تب بھی پاکستان لہو لہو تھا، اب بھی پاکستان کی سرزمین خون سے تر ہے ۔پشاور جو پھولو ں کا شہر کہلاتا ہے اس میں پھولوں کے جنازے اٹھائے گئے ۔وہ معصوم پھول جن کی عمریں تین سے سات سال کے درمیان تھیں سفید یونیفارم کی بجائے سفیدکفن میں لپٹائے گئے ۔جو صبح کو مکتب گئے تھے لیکن شام مر قد میں گزارین گے ۔ ان والدین کے دکھ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو اپنے ہی بچوں کے لاشے اٹھائے اور انھیں مٹی تلے دفناتے رہے ۔ منظم اور تربیت یافتہ افراد پر مشتمل لوگوں کے ایک گروہ نے پشاور کے اے ۔پی ایس سکول پر یہ بزدانہ حملہ کیا ۔حملہ آور سکول کی عقبی دیوار پھلانگ کر سکول میں داخل ہوئے ۔ان میں سے دو نے خود کو خودکش دھماکہ سے اڑا لیا جبکہ باقیوں نے بلا اشتعال فائرنگکر کے کشتوں کے پشتے لگا دئیے ۔، عینی شاہدوں کے مطابق حملہ آوار انگریزی اور عربی زبان بول رہے تھے ۔ جو کہ اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ اس حملے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے اور یہ غیر ملکی عناصر پاک فوج اور پاکستانی عوام کے حوصلے پست کرنا چاہتے ہیں ۔ پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کی بروقت کاروائی نے960 بچوں اور طلباء کی جان بچالی، ان دہشت گردوں کوگرفتار اورسات کو جہنم واصل بھیکیا ۔اس حملے میں ہونے والی کل اموات کی تعداد 141 ہے جن میں شہید ہونے والے بچوں کی تعداد ہے 132۔سکول کی پرنسپل جو بچوں کوبچانا چاہتی تھی ، جنھوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر بچوں کو اس عفریت خانے سے باہر نکالنے کی کوشش کی ،انھیں زندہ جلا دیا گیا ۔اندازہ کیجئے کہ جن بچوں نے اپنے سکول کی پرنسپل کو زندہ جلتے دیکھا ہو گا یا اپنے ساتھیوں کو خون میں لت پت دیکھا ہو گا ان کی نفسیاتی حالت کس قدر بری ہو گی۔نہ جانے کتنے ہی بچے صدمے سے بے ہوش ہو گئے ۔ جو اس حادثہ میں ہلاک ہونے سے بچ گئے وہ بچے نہ جانے کتنا عرصہ اس خوف کا شکار رہیں گے اور نہ جانے کتنے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوں گے ۔تحریک طالبان پاکستان نے اس کاروائی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ فوج کو یہ دیکھانا چاہتے ہیں کہ وہ کس درد اور کس کرب سے گزر رہے ہیں ۔اور یہ کاروائی انھوں نے آپریشن ضربِ عصب اور خیبرون کے جواب میں کی ۔یہ بزدلانہ کاروائی ان معصوم پھولوں کے خلاف کی گئی جن کو ابھی تک اچھے اور برے کی تمیز تک نہیں ۔جن کی زندگیوں کا محور کتابوں سے شروع ہو کر سکول کے گراونڈ تک محدود ہے ۔جو نہ تو کسی کے ساتھ جنگ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے حق میں بات کر سکتے ہیں۔جو کہ نہ جانے کتنے ہی خواب لیے اپنے مکتب میں آئے تھے ۔ جو اپنے والدین کی امیدوں کا محور تھے ۔ یہ ایک سفاکانہ کاروائی ہے اور کاروائی کرنے والوں کی بربریت اور سفاکیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے اس فعل کو اسلام کے مطابق قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئیکہا ہے کہ مجاہدین کو ہدایات دی گئی تھی کہ وہ صرف بڑے بچوں کا قتال کریں ۔ پشاور کی کاروائی (ناآعوذبلاﷲ) سنتِ نبوی ﷺ کے عین مطابق ہے ۔

ان صاحب سے میری گزارش ہے کہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں ۔فتح مکہ کا واقع پڑھیں ۔تاریخ ِ انسانی گواہ ہے کہ جب مسلمان فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوئے توکوئی قتل و غارت نہیں کی گئی بلکہ مفتوح قوم کو عام معافی دی گئی ۔کسی جنگ میں معصوم بچوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا ۔نبی پاک ﷺ کی حیات ِ مبارکہ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام کی زندگیوں کو دیکھ لیئجے کسی بھی جنگ میں بچوں کے ساتھ کبھی کوئی ظالمانہ سلوک نہیں کیا گیا ۔نبی پاکﷺ اور آپ کے خلفاء جب لشکروں کو جنگ کے لیے روانہ کرتے تو نصیحت فرماتے کہ کافروں کے بچوں کو نہ مارنا ، ان کی خواتین کو کچھ نہ کہنا ، ان کے پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا ۔
اسلام تو اس قدر امن و سلامتی کا دین ہے کہ جنگ میں پھل دار درختوں کو کاٹنے ، کافروں کی عورتوں کی حفاظت، کافروں کے بچوں کے قتال کو روکتا ہے اور ان کی حفاظت کا حکم دیتا ہے تو یہ طالبان کون سے اسلام کا پرچار کر رہے ہیں ۔ کس اسلام کے تحت اس قسم کی بہیمانہ کا روائیاں کر رہے ہیں ۔ یہ درحقیقت ظالم درندے ہیں جوخود کو اسلام کا داعی کہتے ہیں اور علم کے گہوارے میں مسلمانوں کے بچوں کو شہید کر رہے ہیں۔یہ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ۔

16دسمبرکے بعد پورا ملک غم و غصہ اور اداسی میں ڈوب گیا ۔ملک کے طول وعرض میں شہید ہونے والے بچوں کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑ ھائی گئی ، شمعیں روشن کی گئی ،دعائیہ محافل کا انعقاد کیا گیا ۔ تمام مارکیٹیں ، بازار اور تعلیمی ادارے بند رہے ۔ اور ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ۔ وزیر ِ اعظم نے اس واقع کی مذمت کی ہے اورچھ وزراء کے وفد کے ساتھ اپنی تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پشاور میں گورنر ہاؤس پہنچے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔تحریک انصاف کے چیر مین عمران خان نے ان بچوں اور ان کے والدین سے اظہار یک جہتی کا ثبوت دیتے ہوئے احتجاج کو ملتوی کر دیا ہے ۔ عمران خان کا اس میں شرکت اور اجتجاج کو ملتوی کر دینے کا اعلان ایک قابل ِ تحسین عمل ہے جس سے ان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے سکول پر حملہ سفاکانہ عمل ہے ۔اور ان بچوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور پر انھوں نے دھرنہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ملک دشمن عناصر کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستانی قوم چاہے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ رکھتے ہوں مشکل کی اس گھڑی میں یک جان ہیں ۔ سکیورٹی فورسز نے اس واقع کاسسنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے افغانستان کا دورہ کیا ہے اور افغانستان سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے ۔عالمی برادری نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے ۔

سانحہ پشاورنے مسلمانوں اور خصوصا پاکستانیوں کے دلوں کو دہلا دیا ہے ۔ یہ واقع ظلم و بربریت ، وحشت اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔زمین ان کھلی کلیوں کے خون سے نہا کر پھر سے سرخ ہو گئی ، آسمان خون کے آنسو روتا رہا ، ماوؤں کے کلیجے پھٹ گئے ۔ کوئی تو پوچھے ان معصوموں کا قصور کیا تھا ۔ یہ کس کا گریبان پکڑیں َ۔سیکیورٹی فورسز کو ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنی چاہیے تاکہ کبھی کسی اور کو ہمارے بچوں کے خلاف اس طرح کی کاروائی کی جرات نہ رہے۔
کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے ، کوئی تو چارہ گری کو اترے
افق کا چہرہ لہومیں تر ہے ، زمین جنازہ بنی ہوئی ہے
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 149636 views i write what i feel .. View More