پشاور کا سانحہ اور ضربِ عضب

16دسمبر کا افسوسناک سانحہ پوری قوم کو اشکبار کر گیا۔جب اس تاریخ کو دہشت گردوں نے پشاور کے کینٹ ایریا میں واقع’ آرمی پبلک سکول‘پر حملہ کر کے زیر تعلیم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا ڈالا۔اس واقعے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 132بچوں سمیت 142افراد شہید اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔خاکی وردی میں ملبوس 6 دہشت گرد سکول کے عقبی راستے سے اندر داخل ہوئے اور پھر خودکش دھماکے اور فائرنگ کے زریعے وہاں موجود معصوم بچوں کی مسکراہٹوں کو چیخ و پکار میں بدل کر اس گلشن میں ایک قیامت صغریٰ برپا کر دی۔بچوں کے والدین جب اس واقعہ سے باخبر ہوئے تو بس وہ دیوانہ وار سکول کی جانب بھاگے اور ہر کوئی اپنے بچے کے بچ جانے کی خداکے حضور گڑگڑا کر دعا کر رہا تھا۔لیکن اس دن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا کیونکہ اس وقت کئی گھروں کے چراغ گل ہو چکے تھے اور بہت سے گھروں میں صف ماتم بچھنے والی تھی کیونکہ وہ درندہ صفت دہشت گرد بچوں کو پکڑ پکڑ کر گولیوں کا نشانہ بنا رہے تھے۔ لیکن اﷲ کا شکر ہے کہ پھر بھی بہت سے بچے مختلف جگہوں پر چھپ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے ۔پھر وہاں پاک فوج کے جوانوں نے پہنچ کر اپنی پوزیشنیں سنبھالی اور بہادری سے ان درندوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیااور بالآخر چند گھنٹوں میں سارے دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار کر سکول کو کلیئر کروا لیا اور یوں وہ بہت سے بچوں کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔

انسان پر برا واقت یا آفت آتے ہوئے دیر نہیں لگتی ۔ کون جانتا تھا کہ سولہ دسمبر کی اس روشن صبح کو ایک سیاہ دن میں بدل جانا تھا۔ افسوس کہ خوش لباس ہو کر جانے والوں کو تو تابوت میں واپس لوٹنا تھا اور سکول وین میں جانے والے کو ایمبولینس میں واپس آنا تھا۔ اب کیایونیفارم پہن کراور بن سنور کر سکول جانے والے بچوں کو یا ان کے والدین کو اندازہ تھا کہ وہ کس حالت میں واپس لوٹیں گے۔ ان کے کپڑوں پر آج سیاہی کی بجائے خون کی لالی ہوگی کیونکہ ان کے مہکتے ننھے پھولوں کو آج مرجھا جانا تھا بلکہ انہیں تو گھر سے سکول اور سکول سے جنت میں جانا تھا ۔ جن ماوئں نے بچوں کے لنچ بکس میں کھانا رکھا تھا انہیں شائد معلوم نہ تھا کہ ان کے معصوم لخت جگروں کو توآج دہشت گردوں کی گولیاں کھانا پڑیں گی۔ ان ماؤں کو دلاسا کون دے گااور جن والدین نے اپنے بچوں کے پڑھ لکھ کر مستقبل میں ایک بڑا انسان بننے کے خواب دیکھ رکھے تھے ان کے ان تمام خوابوں کو ٹوٹ جانا تھا۔ لیکن میں تو یہاں یہ کہوں گا کہ ان بچوں کے والدین یقین مان لیں ان کے خواب ٹوٹے نہیں بلکہ ان کے تمام خوابوں کی تکمیل ہو گئی ہے کیونکہ ایک مسلمان کے لئے شہادت سے بڑا رتبہ کوئی نہیں اور بے شک ان کے معصوم بچے شہید ہوئے ہیں اور شہید ہوکر ایک بڑے انسان بن گئے ہیں کیونکہ وہ تو گھر سے علم کی راہ میں نکلے تھے اور اس راہ میں اپنی جان پیش کرنے والا ہر شخص شہید ہی کہلاتا ہے۔ سکولوں کو نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں کیونکہ پہلے بھی بہت سے سکول دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہے ہیں لیکن ایسا المناک سانحہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس سکول کے نام میں اگر’ آرمی ‘کا لفظ نہ ہوتا تو شائد یہ دہشت گردوں کے لئے اتنی اہمیت اور توجہ کا باعث نہ بنتا ۔ اور انتہائی خطرناک حالات کے باوجودتعلیم حاصل کرنے کے لئے سکول آنے والے پشاور کے طالب علم ذندہ باد،بچوں کے والدین ذندہ باد جو بڑے حوصلے کے ساتھ بچوں کو سکول بھیجتے رہے،وہاں کے اساتذہ ذندہ باد،اس سانحہ کے زخمی زندہ بادجن کے حوصلہ افزاء بیانات نے پوری دنیا کو ایک مثبت پیغام دیااور ہر ہر وہ شخص زندہ باد جو تعلیم حاصل کرنے یا اسے دوسروں تک پہنچانے کے لئے گھر سے نکلے۔

انسان کو کسی بڑی بیماری سے چھٹکارا پانے کے لئے بعض اوقات دورانِ علاج بڑی تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے لیکن بیماری سے تو نجات حاصل ہو جاتی ہے اور انسان کی ذندگی میں سکھ چین اور امن و امان آ جاتا ہے۔اب دہشت گردی بھی ایک بہت بڑی بیماری ہے اور اسی بیماری کے خاتمے کے لئے پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف ایک آپریشن ’ ضربِ عضب ‘ شروع کر رکھا ہے جو بڑی کامیابی سے جاری ہے ایسا آپریشن ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہ کیاگیا اوریوں ممکن ہے کہ دہشت گردی کا یہ واقعہ اسی آپریشن ضرب عضب کا ردِعمل ہو۔مشہور کہاوت ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتاہے۔بالکل اسی طرح ہی ہماری سرزمین کا امن و امان خراب کرنے والے ان گیدڑوں کے گرد جب گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے تو وہ اپنی اس طرح کی بزدلانہ کاروائیاں کر کے دہشت پھیلانا چا رہے ہیں کیونکہ ان کی تعداد اب گنتی کے چند ہندسوں تک محدود ہوتی جا رہی ہے اور ان کی طاقت بھی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ قارئین محترم دیکھیں کہ کوڑا کرکٹ کو ختم کرنے کے لئے اگر آگ لگائی جائے تو اس سے نکلنے والا دھواں فضاء کو تھوڑا سا متاثر ضرور کرتا ہے لیکن وہ کچڑے کے وجود سے تو بہتر ہے۔اس طرح جب ملک سے دہشت گردوں جیسی گندگی کو ختم کیا جارہا ہے تو اس کا ردِعمل کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہونا ایک قابل فہم بات اور ایک دردناک حقیقت ہے لیکن ان وحشی درندوں کا خاتمہ بھی تو ضروری ہے اور ان کے خلاف جنگ میں میں بذات خوداور یقینا آپ بھی بلکہ پوری قوم اس وطن کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔اگر یہ حملہ پاک فوج پر ہوتا تو یقینا دہشت گردوں کو بھی منہ توڑ جواب ملتا لیکن ان معصوم نہتوں پر ظلم کیوں کیاگیا ؟بے شک ان طلباء کے پاس قلم جیسا ہتھیار ان درندوں کے ہتھیاروں سے کئی گنا طاقتور تھا لیکن وہ بیچارے بچے تو ابھی قلم جیسے ہتھیار کو استعمال کرنے کی ٹریننگ لے رہے تھے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ خدا نے مسلمانوں کو ایک الگ ہی جذبے سے سرشار کیا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جیسے کہ و ہ تمام زخمی سٹوڈنٹس جنہوں نے یہ سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ان کے حوصلہ سے بھرپور اور جذباتی بیانات نے دہشت گردوں کے ان تمام مقاصد کو خاک میں ملا دیا جب زخمی بچوں نے کہا کہ وہ اس بزدلانہ کاروائی سے خوفزدہ نہیں ہوئے وہ ان ظالموں کا مقابلہ کرنے کے لئے ابھی بھی تیا ر ہیں بلکہ ان میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پہلے سے کہیں ذیادہ بڑھ گیا ہے کیونکہ اب ان میں ایک نئے عزم ایک نئے جذبے نے جنم لیا ہے۔کسی ایک انسان کی بھی بلاوجہ جان چلے جانا ایک بہت بڑا ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔لیکن ہمارے ملک میں تو کئی والدین کے جگر گوشوں کی قیمتی جانیں ضائع ہو جانا ایک عام سی بات ہوتی جارہی ہے۔ کیونکہ آئے روز ہڑتالیں،جلسے جلوس سیاسی مقابلہ بازی اور ٹارگٹ کلنگ وغیرہ میں ہلاک ہونے والوں کی اسی روز بریکنگ نیوز تو چلا دی جاتی ہے لیکن اگلے دن معاملہ بالکل ٹھپ اس میں فرق صرف انہیں ہی پڑتا ہے جن کی گودیں اجڑ جاتی ہیں اور جن کا اصل سرمایہ لٹ جاتا ہے انہیں روپے پیسے کی امداد بھلاکیا نفع دیتی ہے۔ آخر یہ ملک میں ہو کیا رہا ہے ۔کون ہے جو اس ملک کی ساتھ مخلص ہے کوئی ہے جو اس ملک کی عوام کے لئے بھی کچھ سوچے؟ہمیں تمام ملک دشمن عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔امریکہ ،بھارت ،اسرائیل کے علاوہ اور بہت سے ایسے غیر مسلم ممالک ہیں جو پاکستان کے لئے ناپاک ارادے اور سازشیں رکھتے ہیں۔پاکستان میں امن و امان انہیں ہضم نہیں ہوتا اس ملک میں فساد برپارکھنا ان کا مشغلہ ہے وہ اس پاک وطن کی سرسبز زمین کو ہر لمحہ خون میں رنگا دیکھنا چاہتے ہیں۔ تحریک طالبان نے بڑے شوق سے یہ ذمہ داری تو قبول کر لی ہے لیکن اب وہ اپنے انجام کے لئے بھی تیار رہے۔اور اس کے ساتھ دعا ہے کہ اﷲ ہمارے ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔آمین۔
Majid Amjad Samar
About the Author: Majid Amjad Samar Read More Articles by Majid Amjad Samar: 17 Articles with 15870 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.