سقوط ڈھاکہ کے بعد بڑا المیہ سانحہ پشاور

پرزور مذمت کرتے ہیں ‘ ملکی تاریخ کا سیاہ دن ہے ‘ دہشتگردوں کا پیچھا کرینگے وغیر ہ وغیرہ ۔ آج کے دن کوئی ایسا لفظ نہیں جو زخموں پر مرہم رکھ سکے اورکوئی غمگسار ایسا نہیں جو ان والدین کاجان لیوا دکھ درد بانٹ سکے ۔ حوصلہ دینے والوں کی آنکھوں میں صرف آنسو ہیں اور سارا دن ٹی وی چینلوں پر معصوم بچوں کی نعشوں کے مناظر سے ہر ذی شعور انگشت بدنداں ہے ۔ پاکستان کی گزشتہ دس سالہ تاریخ میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر جس سفاکیت اور بربریت کا بازار گرم رکھا گیا ہے بلکہ دنیا کی معلوم تاریخ میں کیا کسی نے ایسے شقی القلب لوگ دیکھے ہیں جن کے نام کے ساتھ درندہ لکھنا خود درندوں کی بھی توہین ہے۔ کوئی سکول کے معصوم بچوں کو بھی اس طرح چن چن کر مارتا ہے ۔ یقینا آج کے دن شیطانیت برہنہ پاﺅں رقصاں ہوگی ۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان کا پرچم تین دن سرنگوں رہے گا اور ہم اس پرچم سے شرمندہ ہیں ۔

16دسمبر1971ءسقوط ڈھاکہ کا درد قوم ہر سال یاد کرتی ہے اور اب سانحہ پشاور 16دسمبر2014ء۔ سقوط ڈھاکہ اور ملالہ کو نوبل انعام ملنا سانحہ پشاور کی کڑیاں ہیں ۔ ملالہ کے دشمن تحریک طالبان اور پاکستان کا دشمن ہندوستان ہے ۔ سانحہ پشاور جیسی مکروہ تخریب کاری کیلئے 16دسمبر ءیعنی سقوط ڈھاکہ کا دن ہی کیوں چنا گیا ۔ یار دوست اگر کڑیاں ملائیں تو سانحہ پشاور کی کڑیاں بھی مل جائیں گی اور تحریک طالبان کے اصل ” وارثان “ کا پتہ بھی مل جائے گا ۔

صد افسوس !! وجوہات اور دہشتگردی کیخلاف جنگ کا تجزیہ پھر کبھی ہوتا رہے گا ۔ وطن عزیز کو اپنے قیام کے فوری بعد سے ہی سازشوں کا سامنا رہا ہے ۔ ان اندرونی و بیرونی سازشیوں کی چیرہ دستیوں کا ہمیں آج تک سامنا ہے اور جن سازشوں کے اثرات آج تک زائل نہیں ہوسکے ۔

کہتے ہیں بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں ۔ ان کا تعلق چاہے کسی ملک یا کسی بھی مذہب سے ہو بچے صرف پیار کرنے کیلئے ہوتے ہیں ۔ ننھے منھے پیارے پیارے ۔ آج سے پاکستان کی تاریخ میں ایک اور المیہ کا آغاز ہوگیا ۔ آج سے ہم اپنے بچوں ”معصوم فرشتوں “کے نام سے نہیں ”معصوم شہیدوں “کے نام سے یاد کیا کرینگے اور پوری دنیا بھی ان معصوم فرشتوں کے امن کے پیامبروں کے طور ہمیشہ یاد رکھے گی ۔
وہ بچے جو ہمارا مستقبل تھے اور اپنے والدین کی امنگوں کا محور تھے ۔ انہیں سکول بھیجنے والی ماﺅں کو کیا پتہ تھا کہ آج طلوع ہونے والا سورج آرمی سکول میں کیا قیامت صغریٰ دیکھنے والا ہے ۔ سکول جانے والے کسی بچے نے چھٹی کیلئے سر درد کا بہانہ بنایا ہوگا تو زبردستی سکول بھیجنے والا باپ آج کیا سوچتا ہوگا ؟۔

دہشتگردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں ہم نے بہت جنازے اٹھائے ہیں ۔ سڑکوں پر بہت لہو بہہ چکا ہے اور آج ہمارے 126معصوم بچے خراج میں وصول کرلئے گئے ۔
بقول فیض !
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

اب تو شاید آسمان بھی روٹھا روٹھا سا لگتا ہے کئی کئی سال برسات ہی نہیں ہوتی تو کتنی برساتوں کا تو تذکرہ ہی کیا ؟ ۔ خود کش دہشتگردوں نے اپنی حیوانیت ‘ سفاکیت اور درندگی کا ایسا بھرپور مظاہرہ کیا کہ جس کی نظیر نہ کسی انسانی معاشرے میں اور نہ انسانی تاریخ میں کہیں نہیں مل سکتی ۔

ہم اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول ﷺ کی رسالت پر ایمان رکھنے والے مسلمان ہیں ۔اسلام تو سلامتی کا دین ہے اور جنگ کے حالات میں بھی عورتوں اور بچوں پر حملے کی اجازت نہیں دیتا ۔ جو خود پر انتہائی ظلم ہونے کے باوجود دوسروں پر ظلم نہ کرے وہ سچا مسلمان ہے ۔ یہ دہشت گرد اور تاتاریوں کے پیشواءکون سے مسلمان ہیں کہ جو معصوم کو چن چن کر شہید کردیتے ہیں اور جواب میں اپنے رب کریم سے جنت کے طلبگار ہوتے ہیں۔

سانحہ پشاور ایک سوچی سمجھی سازش اور دہشتگردی کی منصوبہ بندی سے کی گئی ایک منظم کارروائی تھی ۔ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کا لہو دنیا کی تاریخ پر ہی نہیں دہشت کے ان ہرکاروں کیلئے بھی ایسا دھبہ ہے کہ جس کی شرمندگی کا بوجھ آئندہ کتنی نسلوں کو اٹھانا پڑے گی کوئی نہیں جانتا ۔

گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان مغربی محاذ پر دہشتگردی کیخلاف جنگ میں مصروف ہے اور اندرونی طور پر دہشت گردی کی اس آگ نے اب ہمیں ہلکان کردیا ہے ۔ بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں شدت پسندوں کی کارروائیاں جاری ہیں ۔ پاک فوج دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن خیبر ون میں مصروف ہے اور قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ ضرورت اس عمل کی ہے کہ سیاسی سطح پر اختلافات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے اور ان اندرونی وطن فروشوں کو اپنی صفوں سے باہر نکال دیا جائے جو ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ اس سے پہلے ہمارا مکار دشمن ہندوستان مشرقی سرحد سے ہمیں کسی آزمائش میں ڈال دے اس سے پہلے ہی ارباب بست و کشاد کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔

سیاسی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں اور جلسے جلوسوں کو موخر کرنا خوش آئند ہے ۔ ایک منظم قوم کی طرح اکٹھے ہوکر ” دہشت گردی “ کے اس ناگ کو نیست و نابود کرنا ہوگا ۔ خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ اس کا زہر ملک کی جڑوں میں سرایت کرجائے ۔ ایسا نہ ہو126طالب علموں کی قربانی رائیگاں چلی جائے ۔ اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے ۔ 126معصوم لاشوں کا قرض سر سے اتار دینا چاہئے ۔ تحریک طالبان ہو یا کوئی اور دہشتگرد تنظیم ‘ اندرونی ہوں یا بیرونی عناصر ناسور کو جڑ سے کاٹ دینا چاہئے کہ یہی سانحہ پشاور کا سبق ہے جو ہمیں سیکھنا چاہئے ۔

ان والدین کی عظمت کو سلام پیش کرنا چاہئے کہ جنہوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو وطن کی مٹی پر قربان کرکے روشنی کا ایک نیا باب رقم کردیا ۔ اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا ہے ۔ پاکستان کے تمام شہروں اور بازاروں میں غم کا سماں ہے لیکن غم کی اس لازوال گھڑی میں بھی ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان اور سانحہ پشاور کے اسباب کو گہرے تناظر میں دیکھنا ہوگا تاکہ ایک زندہ قوم کی طرح دشمن کو بھرپور جواب دیا جاسکے ۔
ماہرین عمرانیات قوموں کے ماضی کو ان کی یادداشت سے تشبیہ دیتے ہیں وہ کہتے ہیں :
” جو قوم اپنا ماضی بھول جاتی ہے تو گویا وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھتی ہے “
اب ہمیں مضبوط ارادے سے دہشت گردی کی ہر شکل کو ہر محاذ پر شکست دینا ہوگی ورنہ ناکام قوموں کے قصے کتابوں میں بھرے پڑے ہیں ۔
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئے ! اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحراﺅں کو گلزار کریں
Dr Jameel Malik
About the Author: Dr Jameel Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.