کاش سکول میں چھٹی ہوتی

او ر جسے پھولوں کا شہرکہا جاتا ہے ،بہت بدقسمت ثابت ہوا ہے۔اس شہر نے اپنے شہریوں کے ساتھ ہونے والے المناک حادثات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غم برابر برداشت کیے ہیں ۔تازہ ترین سانحہ جو بلاشبہ قومی سانحہ ہے پھولوں کے شہر میں معصوم پھول جیسے بچوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔رات بھر میٹھی اور پُرسکون نیند لینے والے پاکیزہ سوچوں کے حامل پاکیزہ رُوح بچے بیدار ہوئے تو ایک لہور نگ سیاہ دن اُن کا منتظر تھا۔ خوشی سے جھومتے اور شاداں شاداں سکول جانے والوں کوکب معلوم تھا کہ وہ درندوں کی سفاکی کا شکار ہو جائیں گے؟

درندوں کی سفاکیت اور مکاری اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ دھوکے کی اُوٹ میں تھے،جیسے ہی وہ کئی درندے ایف سی کی وردی میں ملبوس ہو کر سکول کی عمارت میںگھسے تو اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ سفاکیت اپنی پہچان خود کرواتی ہے کہ وہ اپنا وار اندھا دُھند کرتی ہے،جیسے سکول میں موجود بچوں پر سفاکیت نے درندہ صفت انسانوں کی شکل میں اپنا بدترین وار کیا ۔جب منگل (گزشتہ کل)کے دن پشاور ورسک روڈ پر عسکریت پسندوں نے تعلیمی ادارے میں گھس کر حملہ کیا ، تویہ حملہ تعلیمی ادارے پر نہیں ریاستِ پاکستان کے وجو د پرتھا۔،

دہشت گردوں کی طرف سے یہ بربریت اُس وقت سامنے آئی جب سکول میںدو جماعتوںکے بچوں کے اعزاز میںایک تقریب ہورہی تھی۔دہشت گرد سکول میںداخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ کرنے لگ گئے ،اس سے قبل ایک دھماکہ بھی ہوا۔پھر اُس کے بعد قیامت ِ صغریٰ برپا ہوگئی ۔دہشت گردوں کی بربریت نے انسانیت کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دیں ،معصوم بچوںکو نشانہ بنانے والے درندوں نے بچوں کا خیال رکھا اور نہ ہی تعلیمی ادارے کے تقدس کو ملحوظ رکھا ،دھیان رہے کہ دہشت پسندوںکا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی اُن کاتعلق انسانیت سے کسی طور جڑتا ہے۔وہ بس درندے ہوتے ہیں،سفاک درندے۔ایسے خونخوار وںکاتعلق انسانوںسے جوڑنا بھی گناہِ عظیم ہوسکتا ہے ۔یہ تازہ سانحہ ایک بڑا سانحہ ہے۔دھرتی کے سینے پر ہونے والا عظیم سانحہ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہر گزرتا لمحہ کسی معصوم کی موت کا پروانہ بن کر آرہا تھا۔ میں نے اپنے اردگرد نظر ڈورائی پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر آنکھ اشکبار ہے۔ بڑے، بوڑھوں اور بچوں سمیت ہر شخص دہشتگردوں کے ظلم وبربریت پر خون کے آنسو رورہا ہے۔

اکستان نے دہشت گردی کی جنگ میںسب سے زیادہ نقصان اُٹھایا ہے ،یہ نقصان جانی بھی ہے اور مالی بھی ۔جوملک پچاس ہزار سے زائد قیمتی جانوںکا نذرانہ دے چکا ہو اُس کی سماجی زندگی میںدُکھ اور المیے کی کیفیت کوسمجھا جاسکتا ہے ۔جب کوئی فرد دہشت گردی کا شکار بنتا ہے تو وہ تنہا فرد نہیںہوتا بلکہ ایک خاندان ہوتا ہے ۔وہ کسی کا باپ ،کسی کا بیٹا،کسی کا خاوند ،کسی کا بھائی اور کسی کا دوست ہوتا ہے ۔اس طرح ایک فرد کی موت ایک فرد کی موت نہی رہتی ۔دہشت گردی کے ہاتھوں موت کی وادی میںاُترنے والوں کے لواحقین کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے اُس سانحے کے اثرات کی لپیٹ میںرہتی ہیں ۔پاکستانی قوم کو اس طرح کے واقعات یقینا بڑے المیے سے دوچار کر جاتے ہیں ۔ہر واقعہ اپنے اندر دُکھ اور غم کی پوری داستان کا حامل بن جاتا ہے مگر دہشت گردی کی جنگ میں اُلجھی اور عظیم قربانیاں دینے والی اس قوم کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف اس وقت پاکستان کی بہادر فوج ضربِ عضب آپریشن میںمصروف ہے ۔پندرہ جون کوشروع ہونے والا یہ آپریشن کامیابی سے جاری ہے ۔اس آپریشن کو اس وقت چھ ماہ ہوچکے ہیں ،اس عرصہ میں بلاشبہ پاکستانی آرمی نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔گذشتہ دنوں کی ایک رپورٹ کے مطابق ان چھ مہینوں میں اَٹھارہ سو دہشت گردمارے گئے اور پانچ سو پچاس سے زائد گرفتار ہوئے ہیں ۔اس معرکے میںایک سو اَسی کے قریب فوجی جوانوں نے بھی جامِ شہادت نوش فرمایا۔آپریشن ضربِ عضب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ آپریشن تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ہے۔شمالی وزیرستان کے نوے فیصد علاقے کو دہشت گردوں کے وجود سے پاک کیا جا چکا ہے ۔اس آپریشن میں اب تک دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے اور بارودی سرنگیں تبا ہ کی گئی ہیں ۔

دہشت گردوں نے انتہائی مکاری اور بزدلی کا مظاہرہ کرکے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا ۔یہ حملہ دو حوالے سے بزدلی کا آئینہ دار ٹھہرتا ہے ،ایک تعلیمی ادارے اور دوسرا بچوں پر حملہ۔مگر دہشت گردوں کویہ معلوم نہیں کہ ایسے عظیم سانحات بھی اس قوم کا حوصلہ چھین نہیں سکتے۔یہ قوم تو پچاس ہزار سے زائد قیمتی جانوںکی قربانیوںکا حوصلہ پیش کرچکی ہے ۔دہشت گردوں نے سکول پر حملہ کرتے وقت یہ سوچا تھا کہ وہ علم کی شمع کو بجھادیںگے تو یہ باطل خیال ہے۔اگربچوں پر حملہ کرتے وقت درندوںکے ذہنوں میںیہ خیال تھا کہ وہ اس طرح مائوںکے حوصلے توڑ دیں گے تو یہ بھی باطل خیال ہے۔دہشت گردی اور سفاکیت اس دھرتی کامقدر نہیںبن سکتی

پاکستان کا کوئی ایسا رہنما نہیں ہے جس نے اس سانحہ کی مذمت نہ کی ہو۔

آہ و بکا، چیخیں ، تکلیف، فریاد، آنسو، آہیں، بین کرتی مائیں اور ضبظ کے آخری لمحات سے گزرتے باپ۔ ان سب کے سامنے افسوس کا لفظ بہت چھوٹا محسوس ہورہا ہے مجھے۔ 136 بچوں سمیت تقریباَ 138 افراد شہید اور 245 سے زائد زخمی ہوگئے۔ سوگ، مذمتی بیانات، دکھ ، افسوس کا اظہار، متفقہ قراردادیں منظور، محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا کی جانب سے 2 اور 5 لاکھ فی کس دینے کا اعلان، آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم اور بس؟ کیا یہ سب کچھ کرنا ان معصوم بچوں کی شہادت کے لئے کافی ہے؟

قوم کو سانحہ پشاور سے بہت دکھ پہنچا ہے۔ پاکستان کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں پشاور میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کا غم نہ منایا گیا ہو۔ دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کو نشانہ بنا کر یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ ہمارا مستقبل تباہ کرنے چاہتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران پہلے بھی بیانات کی حد تک نعرے بازی کرتے رہے ہیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ دہشت گرد وں کے خلاف آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ اس حوالے سے دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ ملک کو بچانے کے لیے بعض اوقات سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ کینسر کے خاتمے کے لیے آپریشن لازم ہوتا ہے۔
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 256857 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More