اداسی کے 2میں سے ایک دن

اداسی کے دو دن کے عنوان سے ایک مضمون ماہ اکتوبر میں لکھا تھا لیکن اشاعت کے لیے نہیں بھیج سکا کہ کالم کی جگہ کے مطابق تومضمون ہو گیا تھا لیکن اپنی طبعیت مطمئن نہیں ہوئی تھی سال کی دو تاریخیں 2اکتوبر اور 16دسمبر ہے ۔2اکتوبر 2002کو والدہ کا انتقال ہوا تھا ،اور 16دسمبر 1971ملک کے ایک حصے مشرقی پاکستان کی رحلت ہوئی تھی۔اکتوبر میں مضمون میں والدہ یا ماں کے حوالے سے تحریر لکھی تھی لیکن ماں ایک ایسی ہستی ہے اس پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے ۔اب دسمبر کا مہینہ شروع ہوگیا تو کئی روز سے یہ خیال ستا رہا تھا سقوط مشرقی پاکستان پر کچھ ایسا لکھا جائے کہ یہ محض خانہ پری نہ ہو بلکہ سیدھے سادے الفاظ میں سوچ بچار کے نکات سامنے آئیں ۔

پرفیسر عنایت علی خان کا ایک شعر ہے حادثہ سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا ۔۔۔کہ رکا نہیں کوئی حادثہ دیکھ کر۔ مشرقی پاکستان کی جدائی حادثہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا لیکن اس کے بعد اس کے بطن سے اور جو سانحات رونما وہ اس سے زیادہ سنگین تھے کہ جتنا بڑا یہ سانحہ تھا اس کے حجم کے مطابق اس حوالے سے جو تحریری اور فکری مواد آنا چاہیے تھا وہ نہیں آیا کہ جس میں اس سانحہ کی وجوہات اور اسباب پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا جاتا یہ میری ذاتی رائے ہے ویسے تو کرنل صدیق سالک کی کتاب میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا سے لیکر حال ہی میں شائع ہونے والی متحدہ پاکستان میں ڈھاکا یونیورسٹی کے آخری وائس چانسلر ڈاکٹر سجاد حسین کی کتاب شکست آرزو سمیت کئی کتابوں کو دیکھنے کا موقعہ ملا ہے ۔دوسرا سانحہ اس کے ساتھ یہ ہوا کہ ہماری پولیس یا انتظامیہ کسی عام قتل کے مجرموں کا سراغ لگا کر انھیں گرفتار کر کے سزا دے ڈالتی ہے لیکن دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک کا قتل ہو گیا اس کے مجرموں کو سزا دینا تو دور کی بات ہے اس ملک مقتول کے مجرموں کی نشاندہی بھی نہ ہو سکی۔

شاھد ہاشمی صاحب جو اس وقت ادارہ معارف اسلامی کے ڈائریکٹرہیں اسلامی جمعیت طلبا میں کراچی کے ناظم تھے پھر جماعت اسلامی کراچی کے جنرل سکریٹری رہے جب جناب ڈاکٹر معراج الھدیٰ صاحب امیر تھے مرکزی شوریٰ کے رکن ہیں تربیتی پروگراموں میں آپ کی تقریر کارکنوں کی تربیت کا ذریعہ بنتی ہے ۔چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی گہری باتیں سادہ انداز میں کہتے ہیں ایک وہ عام فرد جو اردو سمجھتا ہے ان باتوں کو آسانی سے اپنے اند رجذب کر لیتا ہے ۔کسی بھی موضوع پر گفتگو ہو شاھد بھائی کے الفاط دلوں کے تاروں کو جھنجھوڑکر جذبات میں تلاطم پیدا کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جوش و جذبہ بیدار ہوتا ہے ۔نظم کی اہمیت اور بزم کی ضرورت کے مطابق اپنی گفتگو میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔میں نے سوچا کے شاھد بھائی کی فیملی بھی اور یہ خود بھی مشرقی پاکستان سے آئے تھے لیکن کبھی سقوط مشرقی پاکستان کے موضوع پر تقریر سننے کا موقعہ نہیں ملا اور ویسے بھی شاھد بھائی جماعت کے علمی و فکری سرمائے میں اضافہ بھی کرتے ہیں اور اس کی تقسیم بھی ۔خود ہاشمی بھی معلومات کا خزانہ اور علم کا سرمایہ رکھتے ہیں ،اس لیے یہ خیال آیا کہ اس موضوع پر شاھد بھائی سے تبادلہ خیال کیا جائے ،شکر ہے انھوں نے وقت کی کمی اور اپنی مصروفیت کے باوجود مجھے وقت دے دیا ۔

شاھد بھائی کی عمر 14سال تھی جب وہ اپنے والد صاحب کے ساتھ کراچی آئے جب کہ دیگر اہل خانہ وہیں پر تھے ۔شاھد صاحب بتاتے ہیں کہ ہم وہاں اسکول میں پڑھتے تھے لیکن ذہنی تقسیم موجود تھی جو بہت گہری بھی تھی بنگلہ زبان کے اسکول الگ تھے اور اردو کے الگ ،مہاجروں والی آبادیوں کے اسکولوں میں اردو پڑھائی جاتی تھی بنگالی آبادیوں میں بنگلہ زبان کے اسکول تھے البتہ شہروں کے اندر جو اسکول تھے اس میں دونوں زبانوں میں پڑھائی ہوتی تھی ۔انھوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ہم کس طرح ووٹ ڈالنے گئے ہمارے سب گھر والوں نے جماعت اسلامی کے امید وار پروفیسر غلام اعظم کو ووٹ ڈالا تھا لیکن ہم عوامی لیگ کا نشان جو کشتی تھا اپنے سینوں پر لگا کر گئے تھے اگر ایسا نہ کرتے تو پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل نہیں ہو سکتے تھے میں نے کہا کہ اس الیکشن کا ایسا ہی منظر ہوگا جیسے پچھلے کئی انتخابات کے موقع پر کراچی میں ہوتا رہا ہے انھوں نے کہا کہ جی ہاں بالکل ایسے ہی ہوا تھا اور عوامی لیگ کو اسی طرح یکطرفہ ووٹ پڑے تھے اگر اس وقت انتخابات میں دیانتدارانہ اور شفاف ہوتے تو بھی عوامی لیگ ہی جیتتی لیکن 160نشستیں نہ ملتیں عوامی لیگ کو اگر کم سیٹیں ملتیں تو مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحادکر کے عوامی لیگ کی اکثریت متاثر ہوجاتی لیکن اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی اسی لیے کی گئی کہ دستور ساز اسمبلی میں عوامی لیگ کی اکثریت ہو کہ حکومت سازی میں کسی کو شریک نہ کیا جائے ۔انتخابات کے بعد جب یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا تو وہاں حالات خراب ہو گئے پھر ہم سب محلے والے راتوں کو جاگا کرتے تھے جب کوئی خطرہ ہوتا تو بجلی کے کھمبے بجائے جاتے تھے ،بالکل ایسے ہی جیسے 1964میں کراچی میں مہاجر پٹھان فسادات کے موقع پر ہوتا تھا ۔بنگالی عورتیں جو گھروں میں کام کرنے آتی تھیں وہ کہتی تھیں کہ تم لوگ چلے جاؤ گے ہم تمھارے مکانات پر قبضہ کرلیں گے ۔
سب سے دردناک چیز تو یہ ہے کہ اس درمیان میں تین دفعہ غیر بنگالیوں کا قتل عام ہوا ،یعنی بنگلا دیش بننے سے پہلے عوامی لیگ کے جیتنے کے بعد مہاجر محلوں پر حملے کیے گئے دوسرا حملہ یا مہاجروں کا قتل عام مکتی باہنی نے کیالیکن اس کی کہیں سنوائی نہیں ہوئی 25 مارچ کو جب ہمیں یہ اطلاع ملی جو افواہ کی شکل میں تھی اس لیے کہ اس زمانے میں افواہیں بہت پھیلتی تھیں والد صاحب کے ایک دوست جو اے پی پی میں تھے ان سے جب تصدیق کی گئی کہ انھوں نے کہا کہ ہاں فوج نے ٹیک اوور کرلیا ہے اس خبر پر محلے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی پھر اس رات کو آسمان پر روشنیوں کے گولے نظر آئے جو پاکستانی فوج نے چھوڑے تھے -

اسی طرح روزانہ عوامی لیگ کی طرف سے فرمان چھپ کر آتے تھے کہ آج کے فرمان کا آرڈر نمبر یہ ہے کہ پھر ہدایات جاری کی جاتی تھیں ریڈیو پاکستان پر قبضہ کر کے اس کا نام بدل دیا گیا تھا بنگلہ دیش بے تار کیندو نام رکھا گیا شاھد کامرانی جو بعد میں پاکستان آگئے تھے مکتی باہنی کے لوگوں نے ان کے ذمہ لگایا کہ وہ اردو میں خبریں پڑھیں گے لیکن پاکستان کا نام نہیں لیں گے بنگلا دیش کہیں گے وہ بڑے پریشان ہوئے کہ بنگلہ دیش کہنا نہیں ہے اور پاکستان کا نام لیتے ہیں تو جان کی خیر نہیں بہر حال جب وقت ہوا اور مائیک سامنے آیا تو انھوں نے کہا کہ یہ ڈھاکا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا ان کی بات بھی پوری ہو گئی کہ بنگلا دیش کا نام نہیں لینا پڑا-

شاھد بھائی کا خیال یہ ہے کہ اگر بھارت حملہ نہ کرتا تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتااس لیے کہ فوج نے کنٹرول کرلیا تھا امن کمیٹیاں قائم ہو چکی تھیں پچیس مارچ کو فوج کے آنے کے بعد ہوائی جہاز کی جو فلائٹ مغربی پاکستان سے آتی تھیں اس میں فوجی سپاہی آتے تھے اور مشرقی پاکستان سے سویلین جاتے تھے بہت سارے لوگ جن کا پہلے پاکستان آنے کا پروگرام بن گیا تھا لیکن فوج کے کنٹرول کرنے کے بعد ان کا ارادہ تبدیل ہو گیا تھا ڈاکٹر سجاد حسین نے اپنی کتاب شکست آرزو میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ جب انھیں گھر سے مکتی باہنی کے لوگوں نے اغوا کر کے ایک مقام پر رکھا تو ان کی نگرانی کرنے والوں میں سے ایک نوجوان نے کہا کہ ہم تو مایوس ہو چکے تھے کہ اب ہم پاکستانی فوج پر فتح حاصل نہیں کر سکتے کہ انھوں نے کنٹرول کرلیا ہے اور ہم لوگ واپس بھارت جانے کے لیے سوچ رہے تھے کہ بھارت کے حملے کے بعد صورتحال بدل گئی ۔

اسی کتاب میں ڈاکٹر سجاد صاحب نے یہ بیھی لکھا ہے کہ کہ یہ کہنا غلط ہے کہ یہ سونار بنگلہ تھا بنگال کی تاریخ تو طوفانوں ،سیلابوں کی تاریخ ہے پورا بنگال بھوک و افلاس کا علاقہ رہا ہے اس کی کوئی خوشحالی والی تاریخ نہیں ہے ۔مارچ میں فوج کے آنے کے بعد بڑی تعداد میں عوامی لیگ کے کارکنان بھارت چلے گئے جہاں انھیں پاکستانی فوج سے لڑنے کی تربیت دی جاتی تھی ۔ایک صاحب کرنل شریف الحق دالیم ہیں جنھوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہیـ" پاکستان سے بنگلادیش تک ان کہی جدوجہد "یہ صاحب 1971میں پاک آرمی میں میجر تھے اور کوئٹہ میں ان کی پوسٹنگ تھی ۔یہ اپنے دو جونئر بنگالی کو ساتھ لے کر کوئٹہ سے فرار ہو گئے پہلے بھاولپور آئے پھر یہاں سے انڈیا چلے گئے اور وہاں جا کر را سے رابطہ قائم کیا پہلے کچھ عرصے تک را والے ان کی چیکنگ کرتے اور جائزہ لیتے رہے جب انھین یقین ہو گیا کہ یہ ڈبل ایجنٹ کے رول والا فرد نہیں ہے تو پھر انھیں وہاں پر مکتی باہنی کو آرگنائز کرنے ان کی عسکری تربیت کرنے اورپھر ان کی ڈیوٹیاں لگانے کا کام کرتے تھے ۔جب ڈھاکا فال ہوا تو یہ بنگلہ دیش چلے گئے اور فوج میں اسی منصب پر فائز ہو گئے ۔شیخ مجیب الرحمن پہلے یہاں سے صدر بن کر گئے پھر وہاں وہ وزیر اعظم بن گئے اس کے کچھ عرصے بعد وہ واحد حکمران بن گئے مجیب اور ان کے خاندن کے لوگوں کا ظلم بڑھتا گیافوج میں بے چینی تو ایک عرصے سے تھی پھر 15 اگست 1975کو شیخ مجیب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اس ٹیم میں یہ کرنل شریف الحق بھی شامل تھے انھوں نے ہی ریڈیو سے نئی حکومت کا اعلان کیا کرنل فاروق اس ٹیم کی قیادت کرہے تھے جنھیں حسینہ واجد نے اپنے پہلے دور میں موت کی سزا دی تھی موت کی سزا کرنل شریف الحق کو بھی ہوئی لیکن یہ ملک سے فرار ہو گئے پھر انھوں نے یہ کتاب لکھی یہ صاحب حیات ہیں اور بنگلادیش سے باہر کہیں ہیں انھوں نے جو کتاب لکھی ہے وہ اس لیے دلچسپ ہے کہ یہ ایک طرح سے گھر کی گواہی کسی وقت اگر موقع ملا تو اس کی تلخیص ایک کالم کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔فال سے تھوڑے دن پہلے جب فوج کو یہ یقین ہو گیا کہ اب ڈھاکا جانے والا ہے تو سترہ سیبر طیارے پاکستانی ائیر فورس نے خود تباہ کیے اور تقریباَ دس ہیلی کاپٹرنیچی پرواز کرتے ہوئے برما پہنچا دیے گئے ۔بلیک آؤٹ تو چل رہا تھا بنکوں سے تھیلوں میں بھر کر نوٹ لائے جاتے تھے اور اسے موم بتیوں سے جلایا جاتا تھا ۔

آخر میں اہم بات یہ ہے کہ ہم پر کوئی الزام لگائے یا نہ لگائے ہم خود اپنے اوپر الزام لگا لیتے ہیں سب سے بڑ ا المیہ یہ ہے کہ اس مرحلے میں جو لاکھوں غیر بنگالیوں کا قتل عام ہوا اس کا کہیں ریکارڈ نہیں ہے اور نہ اس پر کوئی ہماری طرف سے آواز اٹھائی جاتی ہے یہ ایک گم شدہ باب ہے ۔اگر کسی نے آواز اٹھائی بھی ہے تو ایک ہندو غیر مسلم جس کا پاکستان سے بھی کوئی تعلق نہیں خاتون شرمیلا بوس نے اٹھائی کہ وہ اس کے لیے باقاعدہ بنگلا دیش گئی اور اور مختلف انٹرویوز کر کے تحقیق کیاور پھر ایک کتاب لکھی جس میں عوامی لیگ کے اس دعوے کو چیلنج کیا کہ یہ بات غلط ہے کہ تیس لاکھ بنگالیوں کا قتل عام ہو اور ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.