پاکستان میں مسئلہ کشمیر بذریعہ ’’این جی اوز‘‘

آزاد کشمیر حکومت کا قیام تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ حکومت کے طور پر وجود میں آیاتاہم آزاد کشمیر کے سیاسی رہنما اس ذمہ داری کو ایک گراں بوجھ سمجھ کر اس سے بری الذمہ ہوگئے اور آزاد کشمیر کے مقامی جھگڑے اور مسائل ہی ان کا مسئلہ کشمیر بن کر رہ گیا۔اسی لیئے عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ اب آزاد کشمیر کے ہر ضلع کا اپنا’’ مسئلہ کشمیر ‘‘ ہے۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 1988ء میں سیاسی جدوجہد عسکری جدوجہد میں تبدیل ہوئی تو مقبوضہ کشمیر سے حریت رہنماؤں اور کارکنوں کی آزاد کشمیر آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔اس کے بعد حریت کانفرنس برائے آزاد کشمیر و پاکستان کا وجود عمل میں لایا گیا اور کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کی ذمہ داری حسب ہدایت انہیں سونپی گئی۔اب گزشتہ کچھ عرصہ سے آزاد کشمیر اور پاکستان میں مختلف ’ ’ این جی اوز‘‘ کشمیر کاز کے حوالے سے متحرک نظر آ رہی ہیں اور اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی ذمہ داری کا کام حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ سے لیکر ’’ این جی اوز‘‘ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

چند ماہ قبل اسلام آباد میں ایک این جی او ’’ پیس اینڈ کلچر‘‘ کے نام سے قائم ہوئی اور اس کے قیام کے ساتھ ہی اس این جی او کے لئے وفاقی حکومت اور تحریک آزادی چلانے کے ذمہ دار پاکستان کے ایک قو می ادارے کی سرپرستی واضح طور پر نظر آئی۔وفاقی حکومت نے این جی او ’’ پیس اینڈ کلچر‘‘ کو کشمیر کاز کے لئے بہترین کام کرنے کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا اور مسئلہ کشمیر کے ذمہ دارایک پاکستانی ادارے نے اس این جی او کے لئے اپنی سہولت کاری فراہم کرنا شروع کر دی۔چند روز قبل این جی او ’’ پیس اینڈ کلچر‘‘ چلانے والی تین خواتین نے پریس کانفرنس کی تو اس کی وڈیو پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل سے چلانے کے لئے کشمیر کاز کے ذمہ دار قومی ادارے کی طرف سے پی ٹی وی کو پہنچائی گئی تا کہ مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اجاگر(یا بدنام،یہ معلوم نہیں) کیا جا سکے۔

چند ہی روز قبل آزاد کشمیر کی چند خواتین کی قائم کردہ ایک این جی او ’’ ویمن فار پیس ‘‘ کی ایک تقریب اسلام آباد میں واقع کشمیر ہاؤس کے ملٹی پرپز ہال میں منعقد ہوئی جس میں مقبوضہ کشمیر سے آئی دو خواتین بھی شریک ہوئیں۔ویمن فار پیس کی اس تقریب کا پہلا سیشن دوپہر تک اور دوسرا سیشن دوپہر کے بعد شروع ہوا۔مجھے اس تقریب کے دوسرے سیشن میں شرکت کا موقع ملا۔اس سیشن میں وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید اور وزیر خزانہ چودھری لطیف اکبر بھی شریک ہوئے۔ویمن فار پیس کی اس تقریب میں کشمیر سے متعلق خواتین کی مختلف ’’ این جی اوز‘‘ کی نمائندہ خواتین بھی شریک تھیں۔اس میں تقاریر ہوئیں،آزاد کشمیر کا ترانا پڑھا گیا۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے تقریب سے خطاب میں ویمن فار پیس کو آزاد کشمیر حکومت کی نگرانی میں قائم ’’ کل جماعتی رابطہ کونسل‘‘ میں شامل کرنے اور دس لاکھ روپے کی مالی معاونت کا اعلان کیا۔گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی کشمیر کاز کے حوالے سے متحرک ایک خاتون محترمہ ساجدہ بہار سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ بھی ویمن فار پیس کی کشمیر ہاؤس میں ہونے والی تقریب میں شامل تھیں۔میں نے ساجدہ باجی سے پوچھا کہ وہ تقریب کے دوسرے سیشن تک کیوں نہیں ٹہریں تو انہوں نے غمزدہ آواز میں کہا کہ ’’ مجھے لگا کہ یہاں بھی میرے کشمیر کا سودا ہو رہا ہے،کشمیر کاز کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے‘‘۔

دو تین روز قبل ایک اور این جی او ’’ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز‘‘(کے آئی آر)کا کشمیر کاز کے حوالے سے دوروزہ پروگرام پرل کانٹینینٹل ہوٹل بھوربن مری میں منعقد ہوا۔’’ کے آئی آر‘‘کے اس پروگرام میں آزاد کشمیر کے چند صحافیوں کو مسئلہ کشمیر سے متعلق آگاہ اور اس متعلق ان کی معلومات میں اضافہ کیا گیا۔یہ این جی او آزاد کشمیر کے سابق سپیکر شاہ غلام قادر اور آزاد کشمیر حکومت کے سابق مشیر سردار امجد یوسف کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔پی سی ہوٹل کے پرتعیش ماحول میں ہونے والے دوروزہ پروگرام میں اسلام آباد میں مقیم ضلع باغ کے 5،راولاکوٹ کے2اور کوٹلی،عباسپور ،میرپور اور لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ایک صحافی کو مدعو کیا گیا۔

ایک وقت تھا کہ جب فلاح و بہبود کے کام کو رضاکارانہ طور پر کیا جانے والا ایک مقدس کام سمجھا جاتا تھا لیکن پھر غیر سرکاری تنظیم(این جی او)کے نام سے زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق کام کرنے والی ایسی تنظیمیں شامل ہوئیں جن کا مقصد کسی بھی کاز کے نام پر کاروباری،مفاداتی بنیادوں پر کام کرنا ہے۔آزاد کشمیر اور پاکستان میں جب سے حریت پسندوں کو مہاجرین بنانے کا عمل شروع ہوا،اس کے ساتھ ہی گزشتہ کچھ عرصہ سے بالخصوص کشمیر کاز کا کام ’’ این جی اوز‘‘ کے ذریعے چلانے کی کوشش نظر آ رہی ہے۔اب یہ بات تحریک آزادی کشمیر کو چلانے کے ذمہ دار سرکاری اور قومی ادارے بہتر بیان کر سکتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ،کشمیر کاز کے حوالے سے کاروباری نوعیت کی ’’ این جی اوز‘‘ کو متحرک کرنے کے کیا مقاصد اور عوامل ہیں؟بہر حال یہ بات واضح ہے کہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں اس طرح کے انداز اپناتے ہوئے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو مزید’’ منفی اشارے‘‘ دیئے جا رہے ہیں۔یہ انداز دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ کہیں کشمیر کاز کے نام پر دو تین درجن ’’این جی اوز‘‘ عالم وجود میں نہ آ جائیں کیونکہ پھر مسئلہ کشمیر کو چھوڑ کر ان درجنوں ’’این جی اوز‘‘ کے اتحاد کی کوششیں کرنا پڑیں گی۔اب کشمیر کاز کا کچھ بھلا ہو گا یا نہیں لیکن اس نام پر بہت سے لوگوں کا زبردست بھلا ہوتے کشمیری دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔اس صورتحال میں کشمیری یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ جناب ،کاروبار کیجئے،دھندے چلائیں لیکن یہ سب کچھ کشمیر کاز کے نام پر کرتے ہوئے کشمیریوں اور کشمیریوں کی مقدس جدوجہد،تحریک کو بدنام کرنے کا اہتمام نہ کیا جائے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 618670 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More