سیاسی مذاکرات میں مک مکاؤ نہ ہونا چاہیے۔۔!!!

آج پاکستان میں سیاست بڑی ذہانت ،جی داری ،چابکدستی ،رابطہ کاری اور عقل کی عیاری کا ایک دلکش کھیل بن کر رہ گئی ہے ۔تقریباًہر دوسرے لیڈر کی سیاسی زندگی اور اس کی سیاسی تاریخ اتنی غیر معتبر ہے کہ اگر اس کی سیاسی زندگی کے بیانات ،فرمودات اور کار کردگیوں کو اپنی یاداشتوں میں لایا جائے یا اخبارات کے تراشے لیکر ان کی ترجیہات اور گھناؤنے انداز میں مفادات کے حصول کے لیے پارٹیاں ،پینتڑے اور اپنی اپنی حکمت عملی بدلنے کی رپورٹس تیار کی جائیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی آجاتی ہے کہ ان میں اکثریتی طور پر یہ سب لیڈران کرام مسلسل ہی تمام عہدے اور اختیارات اپنے ہی مفادات کے لیے حاصل کرتے چلے آرہے ہیں ۔چونکہ ہمارے عوام سے ووٹ لینے کے لیے یہ سب برسر اقتدار افراد نت نئے ایسے ہتھکنڈے اور قوانین بناتے رہتے ہیں کہ چارو ناچار ایک عام آدمی ان برسر اقتدار افراد کی چوکھٹ پر حاضری دینے اور دفاتر کے چکر لگانے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے تو ایسے میں الیکشن کے دوران ایک جم غفیر اپنے ڈیروں پر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، پھر کارنر میٹنگز کے نام پر عوام الناس سے نام نہاد نعرے اور حسین وعدے کر کے دوبارہ کامیاب ہو جاتے ہیں ۔جبکہ کامیابی کے فوراً بعد یہ سب کے سب غائب ہو جاتے ہیں ۔پھر اسمبلیوں ،کمشنوں ،وزارتوں ،مشاورتوں اور سینٹوں کے عہدوں کے حصول کے لیے رابطہ کاری شروع کر دیتے ہیں ۔اس طرح صوبائی اور مرکزی عہدوں کے لیے پارٹیوں کے سربراہان ہمہ تن گوش ہو کر سرگرداں ہو جاتے ہیں ۔ایسے میں ہر مینڈیٹ ،باہمی سیاسی اختلافات ،تعمیر وطن ،خدمت عوام اور مستقبل پر نگاہ جیسے تمام مقاصد بھلا دئیے جاتے ہیں ،اس طرح ان تمام لیڈران کا عملی طور پر عوام سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور باہمی’’ سیاسی مک مکاؤ‘‘ کے نتیجہ کے طور پر اپنے اپنے مفادات حاصل کر لئے جاتے ہیں ۔الیکشنوں میں مبینہ دھاندلیوں کے طویل واویلہ کے بعد بے شمار ایسے حقائق سامنے آچکے ہیں کہ اگر ان کا عمیق نظری سے گہرا مطالعہ و مشاہدہ کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اس میں تمام ادارے ملوث نظر آتے ہیں ۔پاکستان میں حکومت قائم کر نے کے لیے شفاف الیکشن اس حد تک ضروری ہیں کہ جیسے سورج کی کرنیں اور روشنی حاصل کرنے کے لیے سورج کا منظر پر چمکتے ہونا ضروری ہے ۔جو بھی بر سر اقتدار حکمران الیکشن کا انعقاد کرواتا ہے وہ اپنی ہم خیال جماعتوں کو ساتھ ملاتا ہے اور اپنی مرضی کے انتظامات ،حتی کہ نگران حکومت تک میل ملاقات سے تقرر کرواتا ہے ۔پھر الیکشن کے انتظامات میں دھاندلیوں کے لیے بڑے بڑے رابطے اور خرچے کئے جاتے ہیں اس طرح کے الیکشن صرف اور صرف عوام کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں ہوتے ۔

آج عمران خان اور طاہر القادری مختلف فورم پر باہمی تضاد رائے کے باوجود ملک میں نیا نظام لانے کے نعروں کے ساتھ ایک عرصے سے برسر پیکار ہیں ۔طاہر القادری تو تھک کر بیمار ہو کر بیرون ملک جا چکے ہیں مگر عمران خان تاحال ڈٹے ہوئے ہیں ۔لیکن حکومتی رویے کو دیکھتے ہوئے، انھوں نے پے در پے اپنے حربے اور پروگرام تبدیل کرنے شروع کر دئیے ہیں اور اب بالآخر اپنی شرائط میں بھی واضح نرمی ظاہر کر دی ہے ۔حکومت کو اعتراض تھا کہ میاں نواز شریف کیوں استعفی دیں، حتی کہ خود میاں نواز شریف بھی بار بار کھل کر واضح کر تے آرہے ہیں کہ وہ ایک جمہوری عمل کے نتیجہ میں وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں لہذا وہ استعفی نہیں دیں گے ۔اب بالآخر خدا خدا کر کے عمران خان نے میاں صاحب کے استعفی سے دستبرداری کر لی ہے اور وہ کوشاں ہیں کہ حکومت دوبارہ مذاکرات کرے ،اب حکومت نے بھی دوبارہ رضامندی ظاہر کر دی ہے ۔مگر۔۔۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے ،آج ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ اگر ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ شروع ہو جائے توہر کوئی بے نقاب ہو جاتا ہے ۔اور بلاشبہ یہ عوامی مفاد میں تھا کہ پتہ چلتا کہ کون کون دھوکے سے عوامی مینڈیٹ چرا کر آیا ہے اور وہ کتنے ہیں جو صاف طور پر عوامی رائے کے تنیجہ میں منتخب ہو کر حکومتی ایوانوں کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔جب سے بادشاہت یا اس کے اختیارات کے حصول کے نعم البدل کے طریقے ایجاد ہوئے ہیں، جیسے صدارتی انتخاب جیسے جمہوریت وغیرہ وغیرہ تو دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ کامیابی زیادہ تر صرف انھیں حاصل ہوئی ہے جو انتخاب لڑنے کے کاریگر اور پورے گروں سے واقف ہوتے ہیں ۔اور اب تو انتہا ہی ہوگئی کہ جب حکومتی اثرورسوخ اور روپے پیسے کے مفادات نے ہر ذمہ دار کو اندھا کر دیا ہے آج بھی ملک میں میرٹ کی بات ہوتی ہے اور انصاف ملنے کی بات ہوتی ہے ،مفت تعلیم میسر کا نعرہ ہے ۔صحت کی تمام تر سہولتیں اور ادویات فری ملنے کا ذکر ہے ۔تھانوں اور پٹوار خانوں میں کرپشن کے خاتمے کے چرچے ہیں ۔عرصہ دراز سے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بیسیوں وعدے اور پروگرام کے اعلانات ہوتے ہیں۔بے روزگاری ختم کردینے اور غریب بے گھر عوام کو سستی رہائشی سہولتیں عطا کر دینے کی خبریں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی کو یہ سہولتیں میسر آتی ہیں تو وہ صرف اور صرف کسی ایسے خوش قسمت کو نصیب ہوتی ہیں جس کے راہ ورسم منتخب نمائندگان و عہدے داران سے ہوتی ہیں یا پھر رشوت کے بل بوتے پر قریبا ًساری بیوروکریسی اور اہم اہم ادارے جن کا ذکر مناسب نہیں اکثریتی طور پر مک مکاؤ کی پالیسی پر عوم کی خدمت کر رہے ہیں ۔جرائم پیشہ افراد دندناتے پھر رہے ہیں ہر روز موت کا رقص کو چہ و بازار میں لرزا دیتا ہے ۔ریلوے ،پی آئی اے جیسے ادارے بھی نا اہل اور نا سمجھ ذمہ داران کے بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں ہر کوئی مال بنا رہا ہے ۔حکومت کے اعلی ذمہ داران کی تمام تر سعی لاحاصل بناتے جا رہے ہیں ،باالفرض اگر اعلی قیادت کے اصل چاند چہرے نیک سیرت بھی ہوں تو ان کی ٹیم کے افراد ان کی کارکردگی پر دھبہ اور سوالیہ نشان ہیں ۔اور انھیں اس پر کوئی پشیمانی بھی نہیں بلکہ الٹا کچھ اعلی ذمہ د اران شب و روز صرف بیان داغنے پر مامور ہیں اورفوٹو سیشن کے تمام بہانے آزمائے جا رہے ہیں ۔

ایسے ہی اگر عمران خان یا طاہر القادری کہ جنھوں نے بلا شبہ تحریک اور انقلاب کے نام پر بھی تند و تیز آندھی کا بھی مقابلہ کیا ہے اور حکومت کو صرف اس غرض سے کترانے کا عندیہ دیتے چلے آرہے ہیں کہ ان کے پاس اس دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجہ میں برسر اقتدار آنے والی حکومت سے بہتر پروگرام ہیں جس سے ارض وطن میں ہر نظام عوامی بہتری کے لیے قائم کیا جاسکے گا ۔لیکن حکومت کے ڈٹے رہنے سے اور تحریک میں لامتناہی طور پر طوالت سے ریلیوں اور جلسوں اور دھرنوں کا سلسلہ دم توڑتا نظر آرہا ہے ۔تو ایسے میں یہ خدشہ ہے کہ کہیں یہ انقلابی اور تحریک والے خطہ پاک کے عوام کی بہتری کے پروگرام بھول کر اور پسپائی اختیار کر کے کہیں ’’مذاکرات ‘‘ اور ’’مک مکاؤ ‘‘پر ہی تکیہ نہ کر لیں ۔کہ اس طرح سے حکومت اور ان سب زیر عتاب گروہوں کی جان تو چھٹ جائے گی ۔مگر عوام مفاد شاید عرصۂ دراز کے لیے داؤ پر لگ جائے گا ۔بحرانوں کا حل یقینامذاکرات ہی ہوا کرتے ہیں۔اور بالآخر باہمی گفت وشنید سے ہی معاملات کا حل ملتا ہے ۔مگر کاش کہ یہ مذاکرات ایسے نتجہ خیز ہوں کہ اس سیاسی ’’مک مکاؤ‘‘میں عوام کے لیے یقینی طور پر مثبت ریلیف ہو ۔موجودہ حالات میں ہر پاکستانی چاہتاہے اور دعاگو ہے کہ اس ’’مک مکاؤ ‘‘کے نتیجہ میں مملکت خدادادپاکستان اور اس کے تمام باسیوں کی فلاح و بہبود میں پیش رفت ہو مگر یہ خوف بھی سب کو گھیرے ہوئے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سیاسی مذاکرات ’’مک مکاؤ ‘‘ہی بن جائیں ۔اﷲ کرے کہ حکومت اور تحریک انصاف حدود میں رہ کر اپنے اپنے ارادوں کے مظاہرے کریں ۔تحریک انصاف کی فی الوقتی تحریک ،دھرنوں ،جلسوں اور ریلیوں کو طاقت کے ذریعے روکنے کی بجائے انھیں تحفظ فراہم کرنا حکومتی ذمہ داری ہے ورنہ اس قسم کے تمام احتجاج اور امن عامہ بری طرح ابتری کا شکار ہوسکتے ہیں ۔دوطرفہ یاداشت اور دانش مندی دکھانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ برسر اقتدار لوگوں کو محروم طبقوں کے احتجاج برداشت کرنے پڑھتے ہیں یا ان کی بات ماننی پڑتی ہے ۔
Ruqqaya Ghazal
About the Author: Ruqqaya Ghazal Read More Articles by Ruqqaya Ghazal: 50 Articles with 34099 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.