"صحافی نشانے پر"

آج کل ہمارے وزیر اعلیٰ کے کچھ فرمودات پر ہمارے حرف شناس اور قلم دوست ،دوستوں کو شکایت ہے کہ ہمارے وزیر اعلی کن باتوں میں مصروف ہیں ۔ مثلاً ہمارے دوستوں کو شکایت ہے کہ ہمارے مہدی شاہ صاحب نے شعیب اور ثانیہ کو ہنی مون منانے کے لئے گلگت بلتستان آنے کی دعوت دی ہے ۔ اس میں برا منانے کی کونسی بات ہے ۔ اس کے جتنے فوائد ہیں اس کا اندازہ ہمارے ان نکتہ رساں دوستوں کو بالکل نہیں ہے۔ کچھ فوائد ملاخط فرمائے۔ شعیب کا تعلق پاکستان اور ثانیہ کا تعلق ہندوستان سے ہے ۔ اگر یہ دونوں ہنی مون منانے کے لیئے وہاں آئیں گے تو انڈیا والے ہمارے لیئے نرم گوشہ اختیار کریں گے پھر لالک جان کی طرح داد شجاعت دیکر نشان حیدر حاصل کرنا کسی فوجی سپاہی کی خواہش نہیں ہو گی لو جی! ہمارے ہزاروں فوجی ثانیہ بھابی کی وجہ سے بچ گئے ۔ پاکستان نے گزشتہ ساٹھ سال سے ہمیں شمالی علاقہ جات کہا جو سرے سے کوئی نام نہیں اور ہمارے اوپر وہ کالے قوانین نافذ کئے جو اکیسوں صدی میں دنیا کے کسی خطے پر نہیں تھے تو یوں ہم سیالکوٹی منڈے کو وہاں بلا کر اپنی نیک نیتی اور بے زر غلامی کا عملی ثبوت تو دیں ۔ اس پریمی جوڑے کی آمد سے ہمارے لڑکیوں میں بھی غیرت آجائیگی اور وہ بھی کسی سے لائن ملا کر گلگت بلتستان کا نام پورے عالم میں مشہور کریں گی اور بین الاقوامی اداروں میں ہماری لڑکیوں کی رپورٹنگ ہو گی ۔ اور ہمارے نوجوان بھی ہمت سے کام لے کر کسی غیر ملکی کو گلگت بلتستان لے آئیں گے توپھر توکیا کہنا۔ اور بھی بہت سارے فوائد ہیں ۔

ہمارے وزیر اعلی صاحب سخی دل آدمی ہیں وہ اپنی ذاتی خرچے پر ان دونوں کو وہاں کی سیر کروانا چاہتے ہیں ۔ اب تو ان کو ایسے صحافی اور لکھاری بھی میسر آگئے ہیں جو ان کی اس جرأت رندی کو قابل فخر سمجھتے ہیں ۔ میں اپنے ان قلمی دوستوں سے دستہ بستہ عرض کرونگا کہ وہ وزیر اعلی کو یہ مشورہ بھی ضرور دیں کہ وہ وینا ملک اور محمد آصف کو بھی گلگت بلتستان میں الگ الگ دعوت تفریح دیں ۔ کیونکہ پوری پاکستانی میڈیا ان کی خبر بنائے گا جس میں ضمناً گلگت بلتستان کا ذکر بھی آجائیگا ۔ اور عالم اسلام کے ہیرو اسامہ بن لادن کے بیٹے اور ان کی برطانوی نژ اد بیوی کو گلگت بلتستان کا دورہ کی دعوت دیں اس لیے کہ وہ قدامت پسند نہیں جدت پسند مسلمان ہونے کے دعویدارہیں اور گلگت بلتستان کے لوگوں پر شک کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ قدامت پسند ہیں تو ہم پر یہ شک بھی ختم ہو گا کیونکہ وہ اپنے باپ کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے آج کل یورپ کے نائٹ کلبوں میں اپنی اہلیہ سمیت رنگ ریلیوں میں مصروف ہے۔ یوں ورلڈ لیول میں گلگت بلتستان کا نام روشن ہو گا اور عالمی جرائد و اخبارات میں گلگت بلتستان کے حوالے سے نیوز رپورٹیں ، فیچرز، ارٹیکلز ، تصاویر ، پبلش ہوں گی اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو یہ سرٹیفکٹ ملے گا کہ یہ لوگ جنگ دھشت گردی میں یورپ کے ساتھ ہیں اور عسکریت پسندوں کے مخالف ہیں ۔ یوں ہماری سیاحت کو فروغ ملے گا اور ہمارے وارے نیارے ہونگے۔

اس کے علاوہ سوات کا جعلی ویڈیوجاری کرنے والی این جی اوز اور ان کی خواتین کو بھی گلگت بلتستان دعوت دی جائے ، وفاقی وزیر جناب زھری کو بھی دعوت دی جائے کیونکہ انہوں نے بلوچستان میں 2لڑکیوں کو زندہ درگور کیا اور ببانگ دہل میڈیا پر آکر کہاکہ یہ ہماری روایات ہیں اور یوں گلگت بلتستان کی خبریں پوری پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر گردش کرنے لگیں گی۔

رہی بات رشید ارشد اور عبدالکریمی کی تو یہ کون ہوتے ہیں جو ہمارے ترقیاتی منصوبوںاور جدت پسندی کے سامنے روڑے اٹکائے ۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے ہاں صحافی ، ادیب ، شاعر، سائنس دان ، فوجی ، ڈاکٹر، وکلاء انجینر، علماء کرام اور صوفیائے عظام کب قومی ہیرو ہوتے ہیں اور نہ ان کو مطلعاتی،صحافتی، ادبی، اصلاحی، سماجی اور پیشہ وارانہ دوروں کی دعوت دی جاتی ہے ۔قومی ہیرو بننے کے لئے تو لازمی ہے کہ موصوف کے اسکینڈلز بنے ، عالمی میڈیا پر اس کا نام آئے ۔ وہ عشق لڑائیں خیر اب تو بد قسمتی سے ہمارے قومی ہیرو وہ ٹھہرے جو ارکان پارلیمنٹ اور معتدل سیاسی پارٹیوں پر تیز و تند حملے کرے اور خود ہمارے منتخب وزیر اعلی کو ایوان سے آئوٹ ہونے کی دھمکی دے اور مستقل چھٹی کرانے کا سندیسہ قوم کو سنائے ۔

بہر صورت کریمی اور رشید ارشد اپنا قبلہ درست کریں اور ہمارے ارباب اقتدار کو ہر گز یہ مشورہ نہ دیں کہ وہ عطاء آباد جھیل ، تعلیم و صحت کی گرتی ہوئی صورت حال ، معاشی انفراسڑکچر کی تباہ حالی ، امن و امان کی دگرگوں صورت حال، دیا مر بھاشہ ڈیم کی رائیلٹی ، اہل دیامر کے جائز مطالبات ، اور کابینہ اور گلگت بلتسان کونسل کے دوران ہونے والی ہیرا پھیری ، بیروزگاری ، بین الاضلاعی روابط کا فقدان ، اخباری صنعت کے مسائل اور پی آئی ڈی کی عدم آدائیگی ، ادب و صحافت سے منسلک حضرات سے غیر مناسب رویہ اور صحافتی آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنے کے بجائے آئینہ کو توڑنے کی ذہنی روش اور کابینہ کے ارکان کا اسلام آباد میں سیر و تفریح کا نوٹس لیں اور نہ اس بات کا ذکر کریں کہ وہ گلگت بلتستان سے نامور اور ایمان دار اعلی بیورکریٹ کا تبادلہ کرا کر ان کی جگہ نااہل لوگوں کو ذمہ داریاں سونپتے ہیں ۔

قابل مبارک ہیں میرے وہ دوست جنہوں نے بروقت ان لوگوں کی کلاس لی جنہوں نے ہمارے مخدوم وزیر اعلی کو نشانہ بنایا تھا مگر ان سے اتنی سی گزارش ضرور ہے کہ قلم کی حرمت اور تقدس کو پامال نہ کریں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نہ بنیں اور ہاں اپنے صحافی اور قلم دوستوں کی مدح سرائی اور ہمت افزائی کے بارے کچھ نہیں کہنا چاہتے تو ان کے بارے ہرزہ سرائی سے بھی اجتناب کریں اور مہرہ بلب رہے تو مناسب ہو گا ۔ اور شے کی حقیقت کو پہنچان کر اہل نظر بننے کی کوشش کریں تو یہ آپ کے لئے اعزاز کی بات ہو گی

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جوشے کی حقیقت کو نہ جانے وہ نظر کیا

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 383726 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More