پروفیسر سلیم ، مولانا شہاب اور بزم عدم تشدد

گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات اختتام پذیر ہوئے اور کئی نامی گرامی حضرات بڑی تگ و دو کے بعد بھی کونسل میں شامل ہونے سے رہ گئے اور جن لوگوں کو کونسل میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا وہ سب قابل مبارک ہیں ۔ جو حضرات کسی وجہ سے شامل ہونے سے رہ گئے وہ دل چھوٹا نہ کریں، اللہ دوبارہ موقع عنایت کریں گے اور منتخب حضرات پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ 28ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے لوگوں کی امیدیں اور توقعات اب ان سے وابستہ ہیں ۔ اب آنے والے دن ہی بتلائیں گے کہ منتخب حضرات کس طرح ان لاکھوں لوگوں کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترتے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کونسل میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے تمام ممبران پڑھے لکھے اور منجھے ہوئے لوگ ہیں مگر ان میں دو شخصیات ایسی ہیں جو اپنی معروف و مشہور ہیں ایک مولاناعطاء اللہ شھاب ہیں جو گلگت بلتستان کے ایک معروف قلم کار ،مصنف اور زیرک سیاستدان ہیں۔ علماء حق کا سب سے بڑا تعلیمی بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے گلگت بلتستان کے مسئول ہیں اور وفاق المدارس کے رکن عاملہ و شوری بھی ہیں ۔ اور گلگت بلتستان میں جمعیت علمائے اسلام کے روح رواں اور گلگت بلتستان نیشنل الائنس کے سنئیر نائب صدر بھی ہیں ۔ بلا کے ذہین اور بے باک خطیب بھی ہیں ان کی شخصیت کسی تعرف کی محتاج نہیں۔ ان کا ایک وسیع حلقہ ارادت و احباب ہے۔

دوسری شخصیت پروفیسرغلام حسین سلیم صاحب ہیں جن کا تعلق بلتستان سے ہے۔ پروفیسر صاحب وسیع المطالعہ آدمی ہے وہ کٹر مذھبی آدمی ہونے کے ساتھ دیگر مسالک اور فرقوں کے لئے بھی انتہائی نرم گو ہیں بلتستان کے تمام لوگ ان کے قدردان ہیں ۔

2005میں آغا ضیاء الدین کے مفاجاتی حادثے کے بعد پورے گلگت بلتستان میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔ درجنوں لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔ لاکھوں کے املاک بھسم ہوئے تھے ۔ ہر جگہ انتقام ، انتقام اور انتقام کی صدائیں عام تھیں ۔ امن ، رواداری ، محبت و اخوت کی بات کرنا بے غیرتی سے متبادل تھا ۔ حکومت بھی حالات کنٹرول کرنے سے نالاں تھی ۔ کئی سیاسی اور مذھبی زعماء اڈیالہ کا نذر ہو چکے تھے ۔اسکردو میں اہل تشیع برادری اکثریت اور اہلسنت اقلیت میں ہے تو اس مفاجاتی حادثے کے بعد لازمی امر تھا کہ وہ مشتعل ہو جائیں ۔چنانچہ اسکردو میں اہلسنت کا مرکز جلا کر راکھ کر دیا گیا جس میں سینکڑوں احادیث کی کتب اور قرآنی مصاحف شہید ہوئے ۔

اس عظیم سانحے کے بعد پروفیسر غلام حسین سلیم صاحب اہلسنت علماء کرام کے پاس تشریف لائے اور گلو گیر آواز میں کہا کہ "یہ بلتستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب یہاں دینی کتب اور قرآنی مصاحف کو نذر آتش کر دیا گیا " اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اس واقعے کے عینی شاہدین نے راقم الحروف کو بتایا ہے ۔

پروفیسر صاحب کتاب دوست انسان ہیں ۔ مولانا ابراہیم خلیل نے درالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام قاری طیب رحمة اللہ علیہ کی معروف کتاب یزید اور واقعہ کربلا ان کو تھمادی تو انہوں نے اسکا بالاستیعاب مطالعہ کیا اور بہت متاثر ہوئے اور دل سے ان کے عقائد و نظریات کے معترف ہونے کا اظہار بھی کیا ۔ پروفیسر صاحب کی علمیت، ذھانت ، معاملہ فہمی اور درد دلی کو دیکھ کر ہی ہمارے وزیر اعلیٰ مہدی صاحب نے ان کو اپنا استاد بنایا ہے اور تمام اہم امور میں ان سے مشاورت کرتے ہیں ۔

اس سب جمع تفریق کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کے بے جا تعریف کی جائے بلکہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ان دو شخصیات کی خدمت میں ایک طالب علمانہ گزارش کرنی ہے۔

شہاب صاحب اور سلیم صاحب سے دستہ بستہ عرض ہے کہ اب آپ کی نگرانی میں گلگت بلتستان سطح پر ایک ایسی "بزم عدم تشدد"کی داغ بیل ڈالی جائے جس میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے چند فرض شناس، سب کے لئے قابل قبول اور اپنے پہلو میں انسانیت کے لئے درد ددل رکھنے والے حضرات شامل ہوں اور انہیں یہ مشن سونپا جائے کہ وہ گلگت بلتستان میں محبتوں ، مودتوں اور امن و اتشی کی آبیاری کریں اور نفرتوں ، عداوتوں، شقاوتوں ، ظلم و تشدد، ضد ، بغض ، کینہ، عداوت، رہزینیت، سربریت ، جبریت ،فسطائیت ، دنگا وفساد ، قتل وغارت اور دجالیت و شیطانیت کی بیخ کنی کریں ۔ اپنی خدادادصلاحیتوں سے پورے خطے کا ماحول نسیم بہار کی طرح معطر بنائیں اس کی خوشبو ہر سو پھیلے۔ اور خود یہ دونوں شخصیات "بزم عدم تشدد"کی سرپرستی کریں اور ان اصحاب "بزم عدم تشدد"کے ارکان کو مکمل فری ہینڈ دیا جائے کہ وہ جس طرح چاہے اپنے لئے ضابطہ اخلاق تیار کریں ۔ اور اپنے قافلے میں باہمی مشاورت سے رفقاء چن لیں اور مولاناشہاب صاحب اور پروفیسر سلیم صاحب ان کی ہر طرح کا تعاون کریں اور اپنے تعلقات ، اتھارٹی اور صلاحیتوں سے اس بزم کو جلا بخشے ۔

ہم اپنی دانست کے مطابق چند مناسب لوگوں کی نشاندھی کرتے ہیں جن کے لئے گلگت بلتستان کے تمام مسالک کے لوگوں کے دلوں میں احترام و منزلت ہے۔ اور کسی حد تک اہل علم ، باشعور اور پڑھا لکھا طبقہ ان سے مطمئن بھی ہے۔ اور ان کی خدمات کا معترف بھی ہماری مراد ان شخصیات سے درج ذیل ہیں ۔
١) عنایت اللہ شمالی صاحب جو ایک ادبی شخصیت ہونے کے ساتھ ایک محبت کرنے والے انسان بھی ہیں ۔ گلگت بلتستان کے ہر فرد ، علاقے اور مسلک کے لئے قابل قبول ہی نہیں قابل قدر و عزت بھی ہیں ۔
٢) محترم اسلم سحر صاحب جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ کوئی بھی باشعور آدمی ان کی علاقائی و ادبی خدمات سے بے خبر نہیں ۔
٣) پروفیسر عثمان علی صاحب جو درجنوں تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں اور گلگت بلتستان کے سرسید بھی کہلاتے ہیں اور معروف افیسروں ، استادوں ، لکھاریوں، مصنفوں کے استاد بھی ہیں ۔
٤) عبدالکریم کریمی جو ایک معروف کالمسٹ ، شاعر، ادیب اور تین کتابوں کے رائٹر ہیں اور بڑا وسیع حلقہ ارادت رکھتے ہیں اور نوجوانوں میں بے حد مقبول ہیں ۔
٥) محترم غلام حسین المعروف "حسنو"جو بہترین مصنف ہیں اورخپلو کے رہائشی ہیں ۔ نوربخشیہ صوفیہ کے معروف "بُوا"یعنی مذہبی رہنما ہیں اسکردو سے خپلو جاتے ہوئے میری ان سے تفصیلی گفت و شنید ہوئی ہے عجیب معلوماتی اور محبتی شخص ہیں ۔
مذکورہ تمام حضرات میں تین باتیں مشترک ہیں : (١)تمام حضرات علمی و ادبی ہیں ۔ مصنف اور اصحاب کتب بھی ہیں ۔
٢) تمام مذاہب و مسالک کے لوگ ان کو دل سے قبول کرتے ہیں ۔ (٣) اپنا ایک وسیع حلقہ احباب و ارادت رکھتے ہیں اور سب سے بڑی بات اپنے پہلو میں انسانیت کے لئے ڈھرکتا دل رکھتے ہیں ۔
مذکورہ بالا اصحاب کے علاوہ بھی بہت ساری لوگ ہیں جو اس مشن کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

اتفاق سے ان سب کا تعلق مختلف اضلاع اور مسالک سے ہے۔ اب شہاب صاحب اور سلیم صاحب پر منحصر ہے کہ وہ ان باشعور، سنجیدہ ، باوقار ، باعلم و ادب اور اپنے پہلو میں انسانیت کے لئے نرم دل اور تمام مسالک کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے احباب سے کیسے کام لیتے ہیں ۔

مجھے خدا کی ذات پر یقین کامل ہے کہ یہ دونوں حضرات اگر سنجیدگی اور خلوص سے اس پہلو پر غور کریں اور زبانی جمع خرچ کے بجائے کوئی عملی اقدام کریں تو کوئی وجہ نہیںکہ ہمارے ہاں سے مذھبی منافرت ، باہمی عدم تعاون، عدم اعتماد، ھٹ دھرمی ، دنگا فساد، قتل وغارت ، کشیدگی ، عصبیت، زبان پرستی ، علاقہ پرستی اور مذہب و علاقہ کے نام پر چنگاریاں ملیامیٹ نہ ہوں اور پورے خطے میں بین الاضلاعی اور بین المذھبی روابط قائم نہ ہوں ۔خدا کرے ہماری یہ معصوم سی امید بھر آئے اور شجر تناور کا شکل اختیار کرے۔اور ہمارا پیارا علاقہ وادی جنت نظیر ، پریوں کا مسکن، پہاڑوں کا سنگم ، بہتے شفاف آبشاروں کی دھرتی ، لہلہاتے پھولوں کا گلستان، گرم و سرد موسموں اور دودھ جیسی برف سے ڈھکی ہوئی خوبصورت چوٹیوں ، قدرتی جنگلات کا مستقر، معدنیات اور ارضی خرائن کا مدفن ، سلاجیت اور خشک میوہ جات کا ماویٰ اور دیومالائی روایات و تہذیب اور تابناک ماضی رکھنے والا گلگت بلتستان محبتوں کا آماجگاہ پریم و سنگت کا دبستان اور امن و آتشی کا گہوارہ بن جائے۔

میں یہاں اپنے ان کرم فرمائوں کی خدمت عالیہ میں ایک انگریزی کہاوت گوش گزارکرونگا جسمیں ہمارے لئے بہت کچھ پوشیدہ ہے۔خواب دیکھتا، محبت کرنا، امیدیں وابستہ رکھنا ، دوستی کے لئے بانہیں پھیلانا اور خیالات ، احساسات ، جذبات شئیر کرنا کب بُرا ہے اور کب مہذب و سنجیدہ لوگوں نے اس کو ترک کیا ہے۔اور کب دنیا اس کے بغیر سکھ کا سانس لے سکی ہے اور انسانوں کا بسیرا بن چکی ہے۔ملاحظہ کیجئے۔
"Sweet things are easy to buy, but sweet people are dificult to find. Life ends when you stop dreaming. hope ends when you stop bleieving. love ends when you stop caring. friendship ends when you stop sharing.
So share this with whom ever you consider a friend, brother,
Lover and wisher.
To love without condition and to talk without intention, to give without reason and to care withoiut expectation is the heart of a true friends. (Haqqani is Farst)

دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے شام غم مگر شام ہی توہے ۔
 
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 389302 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More