ہاشم انصاری کا بابری مسجد مقدمہ سے دست برداری اوربھارت کا مسلمان ؟

یہ سچائی مبنی بر حقیقت ہے کہ 6؍دسمبر 1992 میں شدت پسند بھگواجماعت اور ملک میں فرقہ پرستی کی جنم داتا آرایس ایس، اس کی ذیلی تنظیمیں وی ایچ پی،بجرنگ دل اور رام سینا وغیرہ نے بابری مسجد کو شہید کر کے ملک میں نفرت اور زہر کا جو بیج بویا تھا اس سے نہ صرف ملک کی امن و سلامتی اور اتحادویکجہتی کو نقصان پہونچا بلکہ ملک میں اس وقت سے لگائی گئی فرقہ پرستی کی آگ کے شعلے دن بدن مزید اقلیتوں کے نشیمن جلا کر خاکستر کر رہے ہیں مساجد اور مدارس کو نشانہ بنارہے ہیں اور اس فرقہ پرستی کی سلگتی اور دہکتی آگ کو بجھانے میں بھارت کی سیکولرزم پارٹیاں بھی صحیح معنوں میں سنجیدہ نہیں ہیں وہ تو چاہتی ہیں کہ معاملہ اسی طرح ہوتا رہے تاکہ انہیں بنیاد بناکر مسلمانوں کی ہمدردی بطور وؤٹ بینک ملتی رہے اور کسی نہ کسی زاویہ سے اقتدار کا مزہ لیتے رہیں شاید ملک کے اسی منظر نامے کو دیکھتے ہوئے بھارت کا مسلمان ایک طویل جد و جہد کے با وجود اب تک بابری مسجد کی حصولیابی میں میں کامیاب نہیں ہوا حالانکہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنویز اور مقدمہ کی پیروی کرنے والے عزت مآب ہاشم انصاری وغیرہ نے بابری مسجد کی بازیابی کے لئے کافی جد و جہد کی جو لائق ستائش ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس مسجد کی جد و جہد کو اﷲ کی رضا و خوشنودی کے لئے اﷲ کی ذات پر بھروسہ رکھ کر اس کی حصولیابی میں مثبت طریقے پر لگے رہنا چاہئے اور اسی سے صحیح معنوں میں انعام و اکرام اور داد و دہش کی امید لگانا چاہئے کیوں کہ وہی حقیقی کارساز ہے اور وہی بہترین صلہ اور بدلہ دینے والا ہے اور یہی ایک سچے مسلمان کی پہچان ہے کہ وہ اﷲ کی ذات پر بھروسہ رکھنے والا اﷲ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا ہے لیکن جناب ہاشم انصاری صاحب کے حالیہ سیاسی دھماکہ خیز بیان کہ ’’ کہ وہ اب(بابری مسجد کے صحن میں رات کی تاریکی میں رکھی گئی فرضی مورتیاں) رام للا کو آازاد دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اب کسی بھی قیمت پر بابری مسجد مقدمہ کی پیروی نہیں کریں گے کیوں کہ اس کا فیصلہ قیامت تک نہیں ہوسکتا ، رام للا ترپال کے نیچے رہ رہے ہیں اور ان کے نام پر سیاست کرنے والے لوگ محلات میں داد عیش دے رہے ہیں چاہے ہندو لیڈر ہو یا مسلم سب یہاں اپنی سیاسی روٹی سینکنے میں لگے ہیں اور میں یہاں حیران و پریشان کچہری کے چکر لگاتا پھر رہا ہوں‘‘ اس لئے میں بابری مسجد کا مقدمہ نہیں لڑوں گا ‘‘ نہایت ہی چونکادینے والے ہیں سوال یہ ہے کہ1949ء میں بابری مسجد پر شر پسندوں کی رام للا کی مورتی کی سازش کے وقت سے مسلسل بابری مسجد مقدمہ کی پیروی کرنے والے اہم فریق ہاشم انصاری صاحب کی زبانی آخر یہ سب کچھ کیسے ظاہر ہونے لگا ؟ کیا مودی اور آرایس ایس اور دیگر فرقہ پرست طاقتوں نے ان پر مودی حکومت کا خوف مسلط کردیا کہ جس سے گھبرا کروہ نہ صرف رام للا کی آزادی کی تمنا کر بیٹھے بلکہ باری مسجد مقدمہ سے دست برداری کا اعلان بھی کردیا ؟ یا مسلم مسائل حل کرنے کے نام پر وجود میں آئے مسلم پرسنل لا بورڈ جس کے عہدہ داران صرف سال میں چند ایک اخباری بیانات دینے اور سال میں کسی ایک بڑے شہر میں بورڈ کا سالانہ جلسہ منعقد کرنے کو ہی مسلم مسائل کا حل تصور کرلیا ہے انہوں نے اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ؟ اور ہاشم انصاری صاحب نے مقدمہ مسجد سے دست برداری کا علان کردیا؟ یا 97سال کی درازئی عمر نے انہیں ’جنوں میں کیا کیابکنے ‘‘ پر مجبور کردیا ؟ یانام نہاد مسلم لیڈران نے بابری مسجد معاملے میں ان کا عملی ساتھ دینے کے بجائے محض بابری مسجد کے نام پر اپنی اپنی پارٹیوں کے لئے مسلمانوں کے وؤٹ بینک کو مضبوط کیا ؟ ا اور اپنی سیاسی دوکان چمکائی ؟معاملہ ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ‘‘ کیوں کہ بقول شاعر’’ یونہی کوئی بے وفا نہیں ہوتا کچھ تو مجبوریاں رہی ہونگی ‘‘۔

ایسی صورت میں جناب ہاشم صاحب نے سارا خمار یوپی کابینی وزیر اعظم خان پر اتارا کہ پہلے وہ ہمارے ساتھ تھے اب وہ سپا لیڈر ملائم کے ساتھ چل رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں صرف اعظم خان ہی تو نہیں ہیں بلکہ سبھی سیاسی لیڈران نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہے۔ہاں البتہ اعظم خان ایک ہوشیار اور عصری تعلیم یافتہ ہیں اور وہ شخصیات اور موقع شناسی کے کچھ زیادہ ہی ماہر ہیں شاید اسی لئے وہ مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی رام پورکے بانی اور تا حیات اس کے وائس چانسلر ،موجودہ یوپی حکومت میں کابینی منسٹر بھی ہیں اور ان کی اسی ہوشیاری کے سبب ان سے اقلیتی اداروں خصوصاً دینی مدارس کی منظوری کا چارج وزیر اعلیٰ اکھلیش نے مدارس کے منتظیمین کی پریشانی دیکھتے ہوئے اپنے ذمہ لے لیا ورنہ تو ملکی سیاست میں قدم رنجہ ہونے والے اکثرمسلم سیاسی لیڈران ’’کرسی کے بدلے آیۃ ا لکرسی ‘‘ بیچنے سے دریغ نہیں کرتے ان کے اس خصوصی ہنر کا مظاہرہ بالخصوص الیکشن کے مواقع پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور اس طرح اگر دیکھیں تو ’’ حمام میں سبھی برہنہ۔۔۔۔۔۔ ‘‘(الا ماشاء ا ﷲ ) ۔

لیکن اپنی کم علمی کے مطابق ہاشم صاحب جیسے ہمت و بزرگی والے شخص کا اعظم خان جیسے لوگوں کے معاملات کو بنیاد بناکر بابری مسجد مقدمہ سے دست بردار ہو جانا صحیح ہے ؟ ہم ہاشم صاحب سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ کے 65سالوں سے مقدمہ کے اہم فریق بننے کے پیچھے دنیاوی مقام و منصب کا حصول تھا کہ اب مطلوبہ چیز نہیں ملی اور اعظم خان یا دیگر لوگوں کو مل گئی اور آپ ضعیفی کے دہلیز پر پہونچتے پہونچتے مایوس ہو گئے ؟ یا اس محنت کے پس منظر میں اﷲ کی رضا و خوشنودی کا حصول تھا ؟ کہ’’ اﷲ ہی بہتر صلہ اور بدلہ دینے والا ہے اور اﷲ نیکو کار کی نیکی ضائع اور برباد نہیں فرماتا ‘‘ اگر اچھے کام کے پیچھے اچھامقصد ہو تو بہر حال اس کے صلے اور بدلے کی امید اپنے حقیقی رب سے کرنی چاہئے کیوں کہ دنیا کی نعمتیں آخرت کے مقابلے میں بہت معمولی ہیں (القرآن) اور ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ اگر دنیا کی حیثیت اﷲ کے نزدیک مچھر کے ’’پر ‘‘ برابر بھی ہوتی تو اﷲ اس دنیا سے کافروں ( ضروریات دین میں سے کسی بات کے منکروں )کو رزق نہیں دیتا(حدیث نبوی)۔

اور ہم یہاں یہ بھی عرض کردیں کہ کہ مسجد اﷲ کا گھر ہے اور صبح قیامت تک وہ جگہ مسجد ہی رہے گی اور اﷲ جس سے چاہے گا اپنے گھر کی تعمیر کرالیگا کیوں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں خدا کی عبادت کا پہلا گھرخانہ کعبہ بھی حالات زمانہ شکار ہوا اور اس میں تین سو ساٹھ بت تھے لیکن اﷲ نے اپنے گھر کو حضڑت محمد عربی ﷺ کے ذریعے آزاد فرمایا اور ایسی آازادی دلائی کہ فرمان رسول ﷺ کے بقول شیطان سرزمین عرب میں بت پرستی سے مایوس ہوگیا ہے(حدیث نبوی)۔ اور ہم یہ بھی دھیان دیں کہ اگر ہم اﷲ کے گھر کو حالت ایمان میں آباد کریں گے تو اﷲ ہمیں اپنے فضل و کرم سے آباد فرمائے گا اور اگر ہم اﷲ کے کاموں کو نہیں کریں گے تو اﷲ ہماری جگہ دوسری مخلوق پیدا فرمائے گا جو اﷲ کے کاموں کو بحسن و خوبی انجام دے گا (ماخوذ ؛القرآن )۔

اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اچھے کاموں کی توفیق نیک لوگوں کو ملتی ہے اگر ہم سے کوئی گناہ سرزد ہو تو اچھے کام کی توفیق بھی نہیں ملتی ہے (ماخوذ :حدیث نبوی) تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ آخر ہم گنہگار انسانوں سے آخر ایسا کیا ہوا کہ ہمیں اچھے کام بابری مسجد کی بازیابی کی توفیق نہیں مل رہی ہے؟ اور مسجد کی جگہ پر رام للا کی آزادی کے مطالبہ پر صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ؟ کیا بھارت سے محبت کرنے کا مطلب اپنے ایمان و عقیدے کا سودا کرلینا چاہئے ؟یابھائی چارہ اور جمہوریت کی پاسداری کا مطلب اپنی وقف مسجد کی زمین غیروں کے سپرد کردی جائے؟ اور آستھا و عقیدت کے نام پر اپنی چیزیں غیروں کے سپرد کردیا جائے ؟ اور آبیل مجھے مار ‘‘ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے فرقہ پرستوں کو حکومت کی طرح مسلمانوں کو بھی کھلی چھوٹ دے دینا چاہئے ؟ کہ بی جی پی حکومت رام جنم بہومی کا بہانہ بنا کر اقلیتوں کے تیںٔ گندی سیاست سے دلچسپی رکھنے والی اوربے قصور انسانوں کا خون خرابہ کر نیوالی شدت پسند پارٹیوں پر پابندی عائد نہ کرے اور اقلیتوں کے ساتھ ہورہے ظلم و زیادتی کا خاتمہ کرنے کے بجائے اس کا بلا دریغ استعمال کرے ظاہر ہے کہ عقل و خرد سے ذرہ بھر وابستگی بھی ایساکرنے کی اجازت نہیں دیتی تو آخر ایسا کیوں؟ ۔

اس لئے بھارت کا مسلمان اپنے اس مطالبے سے کسی بھی صورت دست بردار نہیں ہوسکتا جو اس وقت کے کے وزیر اعظم نر سمہا راؤ نے قوم سے اپنے وعدے میں کہا تھا کہ بابری مسجد کو اسی جگہ پر دوبارا تعمیر کرینگے اور مسجد شہید کر نے والے مجرمین کو کیفر کردار تک پہونچا ئیں گے اس لئے بھارتی مسلمانوں کا حکومت ہند سے مسجد کی ہی جگہ پردوبارہ تعمیر کامطالبہ اس وقت تک جاری رہیگا جب تک حکومت فرقہ پرست جیسی تنظیم کے شدت پسند اراکین پر قدغن نہ لگائے اور مسجد کو حسب سابق اسی کی جگہ پر بنانے میں مر کزی حکومت ایوان میں بل پاس کرکے مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہ کرلے۔
Muhammad Arif Hussain
About the Author: Muhammad Arif Hussain Read More Articles by Muhammad Arif Hussain: 32 Articles with 57303 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.