نظام کا تسلسل ہی ترقی کا ضامن ہے ۔

پاکستان میں نیم دانشوروں کی غالب اکثریت کا مؤقف ہے کہ موجودہ نظام کو چلنے دیا جائے - اگر یہ نظام مسلسل چلتا رہا تو خود بخود بہتری آجائے گی اور پاکستان ترقی کی منازل طے کرنا شروع کردے گا ۔ میں ایک لمحے کے لئیے انکے اس دعوے کو درست تسلیم کرلیتا ہوں مگر ڈرتے ڈرتے ایک سوال کرتا ہوں کہ تقریبا پچھلے سات سال سے یہ نظام تسلسل سے صرف چل ہی نہیں رہا بلکہ سرپٹ دوڑ رہا ہے ۔ کیا اس میں ایک فیصد بھی بہتری آئی ہے ۔ ؟ اگر تو نظام میں پچھلے چند سالوں میں کچھ فیصد بہتری آئی ہے تو نیم دانشوروں کا نکتہ نظر اور سوچ درست ہے اور پھر اس نظام کو مسلسل چلنا چاہئیے تاکہ ہم تسلسل کی گاڑی پر سوار ہوکر بہتری اور ترقی کی معراج کوپا لیں ۔ لیکن اگر یہ نظام صرف چند سالوں سے ہی نہیں دہائیوں سے جمود کا ہی شکار نہیں بلکہ تنزلی کی طرف گامزن ہے تو دانشوروں کو آنکھوں پر مفادات کی پٹیاں باندھ کر قوم کو گمراہ کرنے کی بجائے اپنا نقطہ نظر اور سوچ کو بدلنا چاہئیے ۔ نظام یا سسٹم ہوتا کیا ہے ۔ نظام ایسے طریقہ کار کو کہتے ہیں جس میں لوگ یا چیزیں مخصوص اصول و ضوابط کے تحت کام کریں۔ نظام میں مختلف طرح کے نظام ہوتے ہیں۔ جنھیں آپ سب سسٹم کہہ سکتے ہیں ۔ سب سسٹم مختلف عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے اور یہ خود بھی ایک سسٹم مگر بڑے نظام کا ایک جزو ہوتا ہے ۔ نظام دو طرح کے ہوتے ہیں ۔

نمبر ا ۔ Natural systems قدرتی نظام ۔
قدرت نے بھی بیشمار نظام کارخانہ قدرت کو چلانے کے لئیے خلق کیے اور یہ نظام ازل سے قدرت کے وضع کردہ قواعد و ضوابط کے تحت چل رہے ہیں اور ابد تک چلتے رہیں گئے یہانتک کہ اس خالق و مالک کا انکو لپیٹنے کا حکم نہ آجائے ۔ قدرتی نظام میرا آجکا موضوع نہیں لہذا اسے یہیں چھوڑ کر اگلی قسم کے نظام کی طرف بڑھتا ہوں ۔

نمبر ٢ ۔ human-made systems انسان کے بنائے نظام ۔
انسان نے بھی کار سرکار اور ریاست و سلطنت کو چلانے کے لئیے ان گنت نظام بنائے اور آذمائے ۔ آخرکار انسان اس نتیجہ پر پہنچا کہ جمہوریت ہی بہترین نظام ہے ۔ انسانی ساختہ سسٹم لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لئیے بنائے جاتے ہیں ۔ اس نظام کے قواعد و ضوابط عالی دماغ لوگ سر جوڑ کر وضع و مرتب کرتے ہیں اور پھر اس نظام کی کارکردگی اور نتائج کو دیکھ کر نظام میں تبدیلی لائی جاتی ہے ۔ انسانی ساختہ نظام ہمیشہ آؤٹ پٹ اور کارکردگی کی بنا پر پرکھا اور جانچا جاتا ہے ۔ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں اس وقت جمہوری نظام رآئج ہے اور بہترین کارکردگی دکھا رہا ہے ۔ ہمارے ہاںبھی جو نظام رآئج ہے اسکا نام بھی جگاڑیوں نے جمہوریت ہی رکھا ہوا ہے حالانکہ اہل علم حضرات باخوبی جانتے ہیں کہ شراب کی بوتل پر دودھ کا لیبل لگا دینے سے شراب دودھ نہیں بن جاتی ۔ آپ اس نظام سے فائدے حاصل کرنے والے جگاڑیوں سے سوال کریں کہ جناب آپکے اس نظام کی کارکردگی اور آؤٹ پٹ کیا ہے ؟ ایک سطری جواب آئے گا کہ جناب کارکردگی کیا ہونی ہے اس نظام کو تو چلنے ہی نہیں دیا گیا - اگر اس نظام کو مسلسل چلنے دیا جاتا تو ملک چاند پر پہنچ جاتا ۔ حالانکہ میرا دعوی ہے کہ یہ نظام ٦٥ سال سے بغیر تعطل کے چل رہا ہے کبھی اسکے تسلسل کو نہیں توڑا گیا ۔ یہ جگاڑی اور انکے دوست نیم دانشور ان پڑھ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں - سفید اور ننگا جھوٹ بولتے ہیں - اب آپ کے ذہن میں ایک سوال انگڑائی لے رہا ہوگا کہ پاکستان میں جو مارشلاء لگے اور طویل دورانیے کی آمریت رہیں - کیا ان آمریتوں نے نام نہاد جمہوریت کا تسلسل نہیں توڑا ؟ میرا جواب نفی میں ہے اور اسکی وضاحت میں اسطرح کروں گا کہ آمریت بھی انکی نام نہاد جمہوریت کا ہی تسلسل ہے ۔ پاکستانی جمہوریت جتنی جمہوری ہوتی ہے آمریت اس سے ١٠ فیصد زیادہ ہی جمہوری ہوتی ہیں - اسی لئیے آپکو ہر آمر کی گود میں سیاستدان نظر آئیں گئے بلکہ ان جگاڑیوں کو سیاست سکھاتے ہی آمر ہیں ۔ ایوب خان کے ساتھ بھٹو ، غازی ضیاءالحق کے ساتھ نواز شریف اور حاجی مشرف کے ساتھ چوہدری برادران اسی لئیے آپکو نظر آتے ہیں ۔ جمہوری جگاڑی سسٹم میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہوتے جبکہ جمہوری آمریت میں آمر بلدیاتی الیکشن بھی کرواتا ہے ۔ نام نہاد جمہوری سسٹم میڈیا پر قدغن لگاتا ہے جبکہ آمریت میں میڈیا کو ریوڑیوں کی طرح لائسنس بانٹے جاتے ہیں آج کی نسبت پی ٹی وی زیادہ آذاد تھا ایک ڈکٹیٹر کے دور میں ۔ بڑے سے بڑا دانشور فیتہ لیکر بیٹھ جائے تو پاکستانی جمہوریت اور آمریت میں ایک انچ بھی فرق تلاش نہیں کرسکتا یہ دونوں نظام اصل میں ایک ہی ہیں جب ایک ہی ہیں تو تسلسل کیسے ٹوٹا ؟ ٦٥ سال سے ایک ہی استحصالی نظام چل رہا ہے کبھی اسکا نام آمریت رکھ دیا جاتا ہے تو کبھی جمہوریت - اب بہت ہوگیا اب اس نظام کو بدلنا پڑے گا ۔ اور ایک بے رحم نظام لانا پڑے گا جس نظام کے تحت لٹیروں کو توپوں کے سامنے کھڑا کرکے انکا احتساب کیا جائے انکے معدوں میں تیزاب انڈھیل کر ایک ایک لوٹی ہوئی پائی نکالی جائے ۔ یہ جو ثبوت کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے انھیں کسی بھی ایس ایچ او کے حوالے کریں یہ فرفر بولیں گئے ۔ احتساب کے بغیر اس ملک کا آگے چلنا محال ہے ۔

یہ سب کرے گا کون ۔ جن کی نسلوں کا مستقبل موجودہ نظام کی بقا سے وابسطہ ہے وہ تو یقینی طور پر نہیں کریں گئے ۔ یہ نئی قیادت کرے گی اور نئی قیادت غریبوں میں سے ابھرے گی کیونکہ سدا پاکستان کو رینگتے نہیں رہنا اسے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے ۔ انقلاب ضرور آئے گا مگر انقلاب کوئی چلا ہوا کارتوس نہیں لائے گا - انقلاب آئین اور قانون کے دائرے میں نہ کبھی آیا ہے نہ ہی آئے گا انقلاب موجودہ نظام سے نفرت کے ہاتھی پر سوار ہوکر آئے گا پھر ایک نظام بنے گا اعلی عدلیہ ، افواج پاکستان اور نئی قیادت کی مثلث سے جسکا منشور ہوگا احتساب بے رحم احتساب ظالمانہ احتساب ، انتخابی اصلاحات اور الیکشن ۔ پھر نیم دانشور اصل جمہوریت بمعہ ثمرات کے دیکھ پائیں گئے ۔ موجودہ جگاڑی مارکہ نظام کے تسلسل میں بربادی ہی بربادی ہے ۔ موجودہ نظام سے فائدہ اٹھانے والوں نے تنخوادار ڈھولچی رکھے ہیں جو کہ موجودہ نظام کے قصیدے پڑھتے ہیں کیونکہ جگاڑی جانتے ہیں جس دن موجودہ نظام کی چولیں ہلیں تو جگاڑی سڑک پر آجائیں گئے انکا سب کچھ ضبط ہوجائے گا ۔

آخر میں نیم دانشوروں سے گذارش ہے کہ محض نظام کے تسلسل سے بہتری نہیں آسکتی ، بہتری اصلاحات کی صورت میں لانی پڑتی ہے اور جنکا مستقبل بوسیدہ نظام سے وابستہ ہو وہ کب نظام میں بہتری چاہئیں گئے موجدہ نظام کا تسلسل ملک کو مذید تنزلی کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جائے گا ۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 172204 views System analyst, writer. .. View More