کپتان کا پلان ’سی‘ اور نواز حکومت

۳۰ نومبر کو کپتان کے آزادی دھرنے اور پلان بی کی دھرنیوں (مختلف شہروں میں جلسوں) کو پورے ۱۰۹ دن یعنی تین ماہ اور ۱۹ دن پورے ہوئے۔۳۰ نومبر کو ہونے والے دھرنے یا جلسے میں کپتان نے اپنا پلان ’سی‘ پیش کیا ۔ گویا نواز حکومت پر تحریک انصاف کی جانب سے دباؤ بڑھانا اس پلان کا بنیادی مقصد سمجھ میں آتا ہے۔ اسلام آباد میں اس شو کی تیاری بہت پہلے سے شروع ہوچکی تھیں اور دونوں جانب سے شدید گولا باری ہوئی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس روز اسلام آباد کے ڈی چوک میں حکومت اور آزادی کے متوالوں کے درمیان گھَمسان کا رن پڑے گا اور کچھ دن قبل کی یادیں تازہ ہوجائیں گی۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہوجائے گی، ایمبولینسیں چیخ و پکار کرتی ہوئی ڈی چوک سے اسلام آباد کی کشادہ اور دونوں جانب ہرے بھرے درختوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی زخمیوں کو اسپتال منتقل کرتی نظر آئیں گی لیکن خدا کا شکر ہے حکومت اور کپتان نے ہوش مندی ، صلح فہمی اور فہم و فراست کا ثبوت دیا اور قوم ایک اور سانحہ ماڈل ٹاؤن سے محفوظ رہی۔ اس ہوش مندی پر دونوں فریق قابل مبارک باد بھی ہیں اور یہ صورت حال اس جانب بھی اشارہ کررہی ہے کہ کہیں یہ ملی بھگت یا نورا کشتی تو نہیں۔کپتان اپنے پروگرام کا اعلان کرتے ہیں ان کی بی ٹیم حکومت کو للکار نے کا ، ڈرانے کا ، تہس نہس کرنے کا ، حکومت کو چلتا کرنے کا ،کام اپنے بیانات سے کرتی ہے۔ جواب میں نواز شریف کی بی ٹیم کپتان اور ان کے دائیں بائیں موجود ساتھیوں پر طرح طرح کے الزامات وہ بھی بے ہودہ زبان میں دے کر قوم کو ذہنی پریشان میں مبتلا کرتے ہیں اور تجزیہ
کاروں، کالم نگاروں کو تمام تر تخلیقی کاموں سے ہٹا کر اپنے پیچھے لگائے رکھتے ہیں۔

کپتان کے پلان ’سی ‘ کا پوسٹ مارٹم کرنے سے پہلے ۳۰ نومبر سے پہلے دونوں فریقوں کی زبان و بیان کا سر سری جائزہ لیتے ہیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ جن کے ہاتھوں میں اس وقت پاکستان ہے اور آئندہ ہوگا ان کاطرزِ عمل ، سوچ اور اندازِ گفتگو کیا ہے، وہ کس طرح کے لب و لہجہ رکھتے ہیں، اپنے مخالف کے لیے ان میں کس قدر برداشت ہے، اگر نہیں تو اس کا اظہار کس انداز سے کرتے ہیں۔ اور پھر پاکستان کی سیاست ۶۷ سالوں سے ایک ہی ڈگر پر چلی آرہی ہے۔ جس دورِحکومت کا بھی جائزہ لے لیں سیاست دانوں کایہی طرز عمل نظر آتا ہے۔ ہم اچھے، باقی سب برے ، جو ہمارے ساتھ وہ دودھ میں نہایا ہوا جو ہمارے ساتھ نہیں یا ہمیں چھوڑ جائے وہ فوری طور پر گندہ انڈا قرار پائے۔ وفاداریاں بدلنا ایک عام سے بات ہے۔ جو پارٹی کمزور ہوتی نظر آئی اس سے کنارہ کشی اور جو ابھرتی اور طاقت میں آتی نظر آئی وہ ان کی نور نظر ٹہری۔ ابھی دو دن پہلے کی بات ہے مسلم لیگ نون کے حلقہ ۱۰۸ منڈی بہاء الدین کے رکن قومی اسمبلی محمد اعجاز احمد چودھری نے نون لیگ سے دلبرداشتہ ہوکر تحریک انصاف میں چمک محسوس کرتے ہوئے اس میں شمولیت اختیار کر لی۔ اب سنیئے اس عمل پر ہمارے ایک سیاست داں جو کل کے سربراہ مملکت بھی ہوسکتے ہیں موجودہ حکومت کے وزیر اطلاعات ،جو کہ ایک اہم وزارت ہوا کرتی ہے انہوں نے فوری طور پر بیان داخ دیا کہ ’’عمران کو ایک اور گندہ انڈا مبارک ہو‘‘۔

گویا دو دن قبل تک اعجاز چودھری اچھا انڈا تھے جوں ہی انہوں نے نواز لیگ چھوڑی وہ گندہ انڈا ہوگئے ۔
اب وزیر موصوف سے کوئی یہ پوچھے کے موجودہ حکومت میں کتنے ہی لوگ مسلم لیگ (ق) کے اہم عہدوں اور وزارتوں پر براجمان ہیں، آپ کے وزیر قانون زاہد حامد حال ہی میں کیوں مستعفیٰ ہوئے۔ ان کے بارے میں کیا خیال ہے ۔وہ گندے انڈے نہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ نوز شریف کے ہم پیالہ و ہم نوالہ بن چکے ہیں۔ اس طرزِ بیانی اور اس منفی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ محترم پرویز رشید صاحب ان لیڈروں میں سے ہیں جنہوں نے بہت کم وقت میں ترقی کی منزلیں طے کیں ۔ گورڈن کالج لاہور سے فائن آرٹس میں صرف بی اے کی ڈگری رکھتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن میں ملازمت کا آغاز کیا۔ نواز شریف کی قربت نے انہیں ۱۹۹۷ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کا چیٔر مین بنا دیا جو ۱۹۹۹ء تک جاری رہا۔ پھر ان کے ہم نام پرویز مشرف نے انہیں شاید اس عہدہ کے لیے مناسب نہ سمجھا اور انہیں سبکدوش کردیا گیا۔ اب سینیٹر ہیں اور حکومت کے اہم وزیر۔ یہ معلومات نیٹ پر دستیاب ہیں اس لیے یہاں لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ تاکہ ان کے ماضی کے تجربے اور تعلیم کا ندازہ ہو سکے۔یہی زبان و انداز دیگر احباب کا بھی ہے خاص طور پر خواجہ سعد رفیق ، عابد شیر علی ، یہ تو اپنے نام کے ساتھ ساتھ لب ولہجے کے بھی شیر ہیں۔ چودھری نثار کبھی کبھی سخت ، تند و تیز جملے سے مخالف پر وار کرتے ہیں۔ ہمارے کپتان کی تو بات ہی اور ہے۔ نواز حکومت کی مخالفت اپنی جگہ صحیح یا غلط لیکن زبان و بیان میں وہ بہت آگے چلے گئے ہیں۔ اپنے خراب زبان کا دفعہ کرتے ہوئے ۳۰ نومبر کی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف بتاؤ میں کیا کروں ۔ جب انصاف کے تمام دروازے بند ہوجائیں اور کہیں سے انصاف نہ ملے تو میرے پاس کونسا راستہ بچا ہے‘۔ بقول تجزیہ نگار حسن نثار ’وہ تو کھلاڑی اور شکاری ہے سو درباری زبان سے دور پار کا بھی رشتہ نہیں ‘۔ ہمارے سیاست دانوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی اور مختلف چیزوں سے انہیں تشبیح دینے کی روایت بہت پرانی ہے۔ ایک دور میں ایوب خان کو ایک جانور سے تشبیح دے کر ہائے ہائے کے نعرے لگے، ذوالفقار علی بھٹو کی زبان بھی عوامی تھی ا س دور میں بلی اور چوہے سے ایک دوسرے کو نوازا گیا۔بے نظیر، اس سے پہلے بیگم ذوالفقار علی بھٹو کے لیے کی گئی زبان کیا تھی؟اور یہی زرداری صاحب تھے جنہوں نے کہا تھا ’اوے نوز شریف مجھ سے سیاست کا سبق سیکھو‘۔ اب عمران کو بھیڑیا کہہ کر مخاطب کیا ۔ جس کا جواب کپتان نے یہ دیا کہ ’ہاں میں زرداری کے لیے بھیڑیا ہی ہوں‘۔ شیخ رشید کو چپراسی بھی نہ لگانے کی بات ہوچکی ہے۔ شیخ صاحب حال ہی میں بلاول کو ’بلو رانی‘ کے خطاب سے نواز چکے ہیں۔ اپنے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ۲۰۱۳ء کی انتخابی مہم میں کس قدر شائستہ زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ زرداری صاحب کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور’ زربابا چالیس چور‘ کس انداز اور کس لہجے میں کہا گیا ۔ٹیکس چوری کا الزام، درباری، بادشاہ، جوتے کے برابر ہونا، اوے، ابے، تبے نہ جانے کیا کیا یہ سیاست داں ایک دوسرے کو کہتے اور سنتے چلے آئے ہیں۔ ہمارے ملک کی سیاست کا یہی رنگ شروع سے ہی چلا آرہا ہے۔ مبشر علی زیدی نے پاکستانی سیاست کی تصویر کشی ایک جونئیر اور ایک سینئر ڈاکٹر اور ایک مریضہ کے حوالے سے ’آئی سی یو‘ کے عنوان
سے اپنی آزاد نظم میں کچھ اس طرح کی ہے ؂
میں اسپتال تو وہ ’’آئی سی یو‘‘ میں تھی ۔
کچھ لوگ پریشانی میں باہر ٹہل رہے تھے۔
جونیئر داکٹر اندر اُ س کی جان بچانے کی کوشش کررہے تھے۔
میں نے بطور سینئر ڈاکٹر ، پیشنٹ کی رپورٹس طلب کیں۔
پھر اپنا اسٹیتھ اسکوپ اُس کے سینے پر رکھا۔
مجھے دھڑکن سنائی نہ دی۔
’’افسوس ! یہ چل بسی‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’سر! کیسے اندازہ لگا یا؟‘‘ ایک جونیئر نے پوچھا۔
’’اس کے سینے میں دھڑکن نہیں ہے‘‘۔ میں نے جواب دیا
’’سر! یہ پاکستان کی سیاست ہے ‘‘۔ جو نیئر ڈاکٹر بولا،
’’آپ جانتے ہیں نا، سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘۔

واقعی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور ہمارے ملک کی سیاست میں نہ دل ہوتاہے نہ ہی دماغ۔ ہمارے سیاست داں نہ سوچتے ہیں نہ ہی احساس کرتے ہیں بس اپنی ہی اپنی کیے رہتے ہیں۔ ملک کا خیال اور قوم کا درد اس وقت جاگتا ہے جب اقتدار میں نہیں ہوتے جب اقتدار مل جاتا ہے تو دل و دماغ سے ملک و قوم کا خیال نکل جاتا ہے بس اقتدار کے قائم رہنے اور جاری و ساری رہنے کی فکر اور تمام تر تدابیر اسے بچانے میں
صرف کیے رہتے ہیں۔

اسلام آباد میں۳۰ نومبر کی سرد شام کا سیاسی پا رہ انتہائی بلنددرجہ پر تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ موسم تو سہانا تھا لیکن سیاسی موسم آگ اگل رہا تھا۔ آزادی دھرنے کے متوالے کمر کس کے آئے تھے۔ وہ ہر طرح تیار تھے کہ اگر حکومتی اہل کاروں سے مڈھ بھیڑہو جائے تو اس کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔ حکومت نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا کہ کپتان کو پریڈن گراؤنڈ میں اپنا شو کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ اجاذت نامہ تحریک انصاب اور مقامی انتظامیہ کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں جاری ہوا جو ۴۵ شقوں پر مشتمل تھا۔ ساتھ ہی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اگر ’ ریڈ زون گئے تو قانون پوری طرح قوت سے حرکت میں آئے گا‘۔ کپتان سے قبل پی ٹی آئی کے دیگر لیڈران نے اپنا زورِ خطابت دکھاتے ہوئے حکومت کو خوب خوب للکارا اور وزیروں کے لگائے گئے الزامات کے جوابات بھی دئے۔ شیخ رشید نے جوشیلی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’سانپ کی چال اور نواز شریف کی سیاست میں کوئی فرق نہیں‘۔ انہوں نے جلاؤ، گھیراؤ کی باتیں بھی کیں۔ شاہ محمود قریشی نے کا کہنا تھا کہ تقریر کا وقت ختم ہوا، فیصلے کا وقت آن پہنچا ہے‘۔ کچھ اسی طرح کی گفتگو دیگر مقررین نے بھی کی۔

کپتان نے اپنے مخصوص انداز سے تقریر کا آغاز کیا اور الیکشن ۲۰۱۳ء میں دھاندلی کو میچ فکسنگ قرار دیا، انہوں نے پاکستان کے دانش وروں سے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ ہر سیاسی جماعت کہہ رہی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو پھر اس کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خلاف ٹی وی پر اشتہارات چلائے جارہے ہیں یہ قوم کا پیسہ اس طرح بھایا جارہا ہے اس کے لیے ہم عدالت جارہے ہیں۔ انہوں نے بتا یا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ایک روز کی کرپشن ۱۲ ارب روپے یومیہ پر پہنچ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات فکس تھے۔ ۷۰ لاکھ اضافی بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے۔ انہوں کہا کہ نواز شریف کی حکومت سڑکوں ، پلوں، موٹر وے بنانے کو ملک میں ترقی تصور کرتی ہے اگر یہ چیزیں ملک کو تر قی دے سکتی ہیں تو پھر ملک ریاض کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں یہی بات الطاف بھائی نے بھی اس وقت کہی تھی جب ملک ریاض نائن زیرو حیدر آباد اور کراچی میں دو عدد جامعات قائم کرنے کے سلسلے میں تشریف لائے تھے۔ عمران خان نے اپنی تقریرمیں نواز حکومت سے مذاکرات کی تفصیل بھی بتائی اور نواز شریف سے کہا کہ مذاکرات کرو ، فیصلہ کرو۔ ۱۰۹ دن ہوجانے کے باوجود وہ پر عزم دکھائی دیے۔ دھرنے کو جاری رکھنے کا عزم دھرایا۔ تمام لوگوں کو کپتان کے پروگرام’ سی‘ کا انتظار تھا، حکومت بھی اسی انتظار میں تھی کہ کپتان کا پلان سی کیا ہوگا۔ کپتان کا پلان ’سی‘ جو جلسے میں پیش کیا گیا وہ کچھ اس طرح تھا بعد میں شہر اور ملک بند کرنے کی تاریخوں میں ردوبدل کیا گیا۔تاریخوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شٹر ڈاؤن نہیں ہوگا صرف احتجاج ہوگا۔کپتان نے اپنے پلان ’سی‘ کی وضاحت کرتے ہوئے بتا یا کہ :
۴ دسمبر کو لاہور بند کردونگا۔اب ۴ دسمبر ۱۵ دسمبر ہوگئی۔
۸ دسمبر کو فیصل آباد بند کردونگا۔
۱۲ دسمبر کو کراچی بند کردونگا۔
۱۶ دسمبر کو پورا پاکستان بند کردونگا ۔ یہ اب۱۸ دسمبر ہوگئی۔نیز بند کرنے کے بچائے اب یہ کہا جارہا ہے کہ شٹر ڈاؤن نہیں ہوگا صرف احتجاج ہوگا لیکن کپتان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوام از خود ملک کو جام کر دیں گے۔

یہ ہے کپتان کا پلان ’سی‘ یعنی رفتہ رفتہ کپتان ،حکومت پر اپنا دباؤبڑھانے کے لیے حکمت عملی تبدیل کر رہے ہیں۔ کپتان نے یہ بھی کہا کہ اگر پلان سی کامیاب نہ ہوا تو پھر پلان ’ڈی‘ اور پھر پلان ’ای‘ لایا جائے گا۔ پلان ’ڈی‘ اور ’ای‘ کو سرِ دست چھوڑ دیتے ہیں۔ پلان ’سی‘ سامنے آتے ہی حکومتی مشینری کے مشیران و وزیرانِ بے لگام فوری طو ر پر حرکت میں آگئے۔ سوچا نہ سمجھا بس مخالفت برائے مخالفت۔ دنیا کو مجمع نظر آرہا تھا۔ ہر چینل کیمرے کی آنکھ سے مسلسل اسے دکھا رہا تھا لیکن ہمارے وزیرانِ بے تدبیر کو لاکھو ں کو مجمع ہزاروں میں بھی دکھا ئی نہیں دے رہا تھا۔ ہمارے محترم رعنا ثنا ء اﷲ صاحب کو بھی یہ مجمع چند ہزار ہی لگا ساتھ ناکام جلسہ اور یہ بھی کہ تمام لوگ کے پی کے سے لائے گئے تھے ، پرویز رشید کو تو ہر صورت کپتان کی نفی کرنی ہی تھی انہوں نے کہا کہ جلسے کو ناکام قرار دیتے ہوئے عمران کو مذاکرات کی جانب آنے کا مشورہ دیا۔جناب سعد رفیق نے فوری طور پر کہا کہ ’گالیاں ہمیں جھکا نہیں سکیں گی‘۔ حالانکہ یہی سعد رفیق بقول خود ان کے ۲۰۰۶ء میں وہ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے جا رہے تھے ۔انہوں نے آج ہی اے آر وائی پر ٹاک شو میں یہ اقرار بھی کیا کہ عمران ان کے پاس آئے تھے اورکیون کہ میرے اپنی پارٹی سے اختلافات تھے اس وجہ سے میں سوچ رہا تھا کہ کپتان کے ساتھ چلا جاؤں۔ اسی پروگرام میں ایک سینئر صحافی ہارون رشید نے یہ بھانڈا پھوڑا کہ سعد رفیق تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لیے بے قرار تھے۔ تحریک انصاف کی سیکریڑی شپ کے خواہش مند تھے وہ یعنی ہارون رشید صاحب عمران خان کو سعد رفیق کے پاس لے کر گئے تھے۔اور بھی بہت کچھ کہا گیا مختصر یہ کے معاملہ بنا نہیں۔ شہباز شریف نے کپتان کے پلان ’سی‘ کو’ پاکستان کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا‘۔اسی قسم کا بیان نون لیگ کے مشاہد اﷲ کا بھی کہ ’عمران ٹنکی سے نیچے اتر آئیں پھر مذاکرات ہونگے‘۔ گویا نون لیگ اب بھی
کپتان سے معملات کو طے کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔

سا بق صدر آصف علی زرداری صاحب کو بھی کپتان نے للکارا تھا انہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کپتان کو بولنگ کرنے دو ہمیں کوئی جلدی نہیں۔ کپتان بالنگ کرلے پھر ہم کر کے دکھائیں گے۔ انہوں نے اسلام آباد میں ہونی والی سیاسی سرگرمی کو سازش قرار دیا اور کہا کہ ہم اس سازش کا حصہ نہیں بنیں گے ، جمہوریت کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیں گے۔ یعنی نواز حکومت کا ساتھ دیتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم دھرنے میں شریک ہوجاتے تو’میرے ہم وطنو‘ہوجاتا ۔ دوسری جانب اسی روز جس تقریب سے آصف علی زرداری خطاب کر رہے تھے اس میں گو نواز گو کے نعرے بھی لگ رہے تھے۔پیپلز پارٹی کے اہم رکن اور قائد اختلاف سید خورشید شاہ کا فوری بیان یہ تھا کہ اگر حکومت مزاکرات نہیں کرے گی تو اپنے پیر پر کلھاڑی مارے گی۔اسی روز پاکستان پیپلز پارٹی کے روٹھے ہوئے رکن ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا ورکر وہیں کھڑا ہے جہاں پی ٹی آئی کھڑی ہے۔ یعنی پی پی میں کپتان کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے نواز حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ’ ان کا طرز حکمرانی ضیاء الحق والا ہے‘۔ پی پی کے اہم رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ’عمران خان کی باتوں میں سچائی ہے ، مگر وہ اپنے لیے ہدف مشکل چنتے ہیں ۔ عمران خان مکمل ناکام ہوتے ہیں اور نواز شریف کامیاب ہوتے ہیں تو بڑا دکھ ہوگا‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں سچائی ہے صداقت ہے۔ طریقہ کار، طرز عمل سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کپتان کے معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ ایڈریس کرے۔ اپنے وزراء کو فضول قسم کے بیانات دینے سے منع کرے۔ حکومت مخالف قوتوں کا کام تو حکومت پر تنقید کرنا ہوتا ہی ہے۔ حکومت میں آجانے کے بعد حکمراں جماعت پر بھاری ذمہ داری آجاتی ہے کہ وہ اپنے اندر برداشت اور تحمل پیدا کرے۔ حکومتی رویے سے ان کے عمل اور ظاہری ہرکات و سکنات تو اس بات کا پتا دے رہیں ہیں کہ یہ کپتان کو تھکاکر میدان مارنا چاہتے ہیں جس طرح علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلاب دھرنا بنیادی طور پر تھک کر میدان چھوڑگیا۔ حکمرانوں کا خیال یہی ہے کہ کپتان اور اس کے پرستار بھی کتنا برداشت کریں گے بلا آخر دھک ہار کر رخصت ہوجائیں گے۔ یہ بات کپتان نے اپنی تقریری میں بھی کہی۔ ساتھ ہی کہا کہ میں تھکنے والا نہیں اگر ساتھی چلے بھی گئے تو میں تنہا اسلام آباد میں دھرنا دیے رہوں گا۔ ۱۱۰ دنوں میں اکتوبر میں ایسا وقت بھی آیا تھا جب کپتان کا دباؤ زیادہ ہوا تو نوز شریف نے کپتان کے گھر جانے کا پیغام بھی بھجوایا لیکن چند شرائط کے ساتھ جو کپتان کو منطور نہ تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اس وقت تک منطقی انجام کو نہیں پہنچے گا جب تک کوئی طاقت دونوں فریقوں کو مجبور نہ کردے کہ مسئلہ حل کیا جائے۔ طاقت کون سی ہو سکتی ہے ۔ سیاست دانوں میں تو کوئی ایسا سیاستداں نہیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو اور دونوں فریق اس کی بات مان کر کوئی حل نکال لیں۔ عدلیہ ایک طاقت ہوسکتی ہے اس نے پہلے بھی مشورہ دیا تھا کہ دونوں لیڈروں کا باہم مل کر اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیے اسی اشارے پر تو نواز شریف کپتان سے ملاقات پر آمادہ ہوئے تھے۔ اور آخری قوت وہی ہے جو سب سے زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ جس کی طاقت کا مظاہرہ ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ خد ا ان دونوں کو از خود معاملا حل کرنے کے لیے اس جانب مائل کردے کہ یہ کسی قوت کا انتظار کیے بغیر آپس میں مل کر تمام معاملات کو حل کر لیں۔ کپتان کی تحریک کا حتمی انجام ملک میں نئے انتخابات خواہ انہیں مڈ ٹرم کا نام ہی دیا جائے، پر ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ کب ہوتے ہیں شیخ رشید کی پیشن گوئی تو ۲۰۱۵ء کی ہے ۔ سیاسی پیشنگوئیاں ضروری نہیں کہ درست ثابت ہوں لیکن بعض بعض درست بھی ثابت ہوجاتی ہیں لگتا ہے کہ ۲۰۱۵ء ملک میں انتخابات کا سال ہوگا۔ اﷲ بہتر جانتا ہے۔(۲ دسمبر ۲۰۱۴ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1286117 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More