کپتان کا لاڑکانہ شو ۔ حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت

انقلاب دھرنا اور آزادی دھرنا اپنی آب و تاب دکھا کر نہ صرف اپنی اصلی حیثیت کو بدل چکے ہیں ساتھ ہی دونوں نے اپنی اپنی سمت جد ا جدا کرلی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے انقلاب کوسرِدست ممکن نہیں قرار دیتے ہوئے اسے ملک میں ہونے والے انتخابات سے مشروط کردیا ان کا فرمانا ہے کہ اگر عوام نے ان کی پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا تو وہ ملک میں انقلاب برپا کرکے دم لیں گے۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر انقلاب نہیں لایا جاسکتا اور اس حکمت عملی سے موجودہ حکومت کو بھی گرانا مشکل ہے۔ کیوں کہ جن پر تکیہ تھا وہ ایسا کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کے بقول ’ڈاکٹر صاحب سے کوئی ایسی کمٹ منٹ کی گئی تھی‘ ۔ ایک اعتبار سے ڈاکٹر قادری کا یہ فیصلہ یعنی انقلابیوں کو اسلام آباد سے اپنے اپنے گھروں کو بھیج دینا اور انتخابات کے لیے اپنی پارٹی کو تیار کرنا مستحسن اقدام ہے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں تبدیلی کا یہی درست طریقہ ہے۔دنیا میں انتظامی تبدیلی کے دو ہی طریقے رائج ہیں ایک انتخابات جس میں سیاسی جماعتیں اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں عوام جس کے منشور کو مناسب سمجھتے ہیں انہیں منتخب کرکے ایوانوں بھیج دیتے ہیں۔ اب اس گروہ یا جماعت پر موقوف ہے کہ اپنے منشور پر عمل کریں یا اپنے کاروبار کو ترقی دیں اور خوب خوب ملکی سرمایا بیرونِ ملک منتقل کریں تاکہ کسی بھی مشکل وقت میں یہ سرمایا ان کے کام آسکے ۔ تبدیلی اور انقلاب کا دوسرا راستہ اور بھی ہے وہ ہے طاقت رکھنے والے اپنی طاقت کے زور پر ملک میں تبدیلی کا اعلان کردیں جیسا کہ ہمارے ملک میں متعدد بار ہوچکا۔ ایوب خان صاحب ، یحیحیٰ خان صاحب، قبلہ ضیاء الحق صاحب اور محترم پرویز مشرف صاحب اپنے اپنے عمل کے بعد چاہتے تو ملک میں دودھ کی نہریں بہا سکتے تھے۔ اگر خود میں اس قدر صلاحیت نہ تھی تو کسی ایک یا ایک سے زیادہ جماعتوں کو اپنا ہم رکاب بنا لیتے اور انقلاب برپا کر دیتے لیکن کیا ہوا۔یہ ہمارے اور آپ کے سامنے ہے۔ بہتری کی امید لیے بچے جوان ، جوان بوڑھے اور بہت سے بوڑھے ملکِ ادم کو سدھار گئے پر ہمارے ملک میں بہتری نہ آئی۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے دھرنے کو انتخابات سے مشروط کر کے مناسب حکمت عملی اختیار کر لی۔ اب وہ اور ان کی سیاسی جماعت ملک میں انتخابات میں شرکت کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوچکی ہے۔ البتہ ہمارے کپتان پویلین میں روز اول کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے دھرنے نے بھی تبدیلی اختیار کر لی ہے۔ کپتان کو فیلڈ میں موجود کھلاڑیوں اور شائقین کا اسٹیمنا کم ہوتا دکھائی دیا اور ایسا ہونا ہی تھا آخر لوگ کتنے دن اپنے معمولات زندگی کو چھوڑے رہتے۔ کپتان نے نئی حکمت عملی اپنا تے ہوئے دھرنے کو ملک کے مختلف شہروں تک وسیع کردیا۔ویسے بھی انقلاب دھرنے اور آزادی دھرنے میں فرق تھا ۔ علامہ طاہر القادری کے پرستار دن رات اسلام آباب میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ وہیں سونا، وہیں کھانا، وہیں ضروریات زندگی ۔ گویا وہاں رات دن ایک نئی دنیا آباد ہوچکی تھی ۔ تحریک انصاف کا دھرنا شام میں سجاکرتا اور رات گئے جاری رہتا۔ کپتان کے پرستار اپنے معمولات زندگی سے فارغ ہوکر شام میں آتے ہیں اور رات گئے گو نواز گو کے نعرے لگاتے رہتے۔ لیکن ہر کام کی ایک حد ہوتی ہے۔سو دن ہوچکے ہیں کپتان صاحب ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کے اور ان کے چاہنے والوں کے اسٹیمنا کی داد دینا چا ہیے۔ صحیح یا غلط یہ الگ بات ہے۔ اس قدر تھکادینے والا عمل اس قدر طویل وقت تک جاری رکھنا کوئی آسان نہیں۔

حال ہی میں تحریکِ انصاف نے سندھ کے اہم شہر ، پیپلز پارٹی کے مرکز لاڑکانہ سے بارہ میل کی دوری پر ایک گاؤں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس کا مقصد پیپلز پارٹی کو احساس دلانا تھا کہ ہم تمہارے گھر میں بھی اپنی طاقت رکھتے ہیں۔با لکل اسی طرح جیسے لاہور، سرگودھا، رحیم یار خاں اور دیگر شہروں میں اپنی طاقت کا اظہار کرکے مسلم لیگ (نواز) کو اپنی طاقت کا احساس دلاچکی ہے اور کراچی میں جلسہ کرکے ایم کیو ایم کو اپنی طاقت دکھانا تھی۔ لاڑکانہ شہر میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ پیپلز پارٹی نے اسے ناکام کوشش قراردیا جب کہ کپتان کے بیانات اس سے بالکل مختلف ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جلسہ گاہ میں لوگ موجود تھے۔ تعداد میں اختلاف ہوسکتا ہے۔ جلسہ کرنے والے لاکھوں کی تعداد کہتے ہیں جب کہ ان مخالف اسے ہزاروں میں کہہ کا ناکام جلسہ قرار دے دیتے ہیں۔ ایک حکمت عملی سیاسی جماعتوں کی یہ بھی ہوتی ہے کہ جلسہ جس مقام پر منعقد ہوتا ہے نذدیک نذدیک شہر سے لوگ اس جلسہ میں بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ لاڑکانہ کے جلسے کے لیے کہا گیا کہ یہاں کراچی سے بہت بڑی تعداد کو شرکت پر مجبور کیا گیا۔ ایسا ہر جماعت کیا کرتی ہے۔ مخالفین کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ۔ کیا پیپلز پارٹی نے کراچی کے جلسے میں اندرون شہر سے لوگوں کو شرکت کے لیے مجبور نہیں کیا ۔ یہی حکمت عملی دیگر جماعتیں بھی اپناتی ہیں۔ اگر کپتان نے ایسا کیا تو کوئی بری بات نہیں ۔البتہ جو چیز قابل غور رہی وہ جلسہ گاہ میں موجود لوگوں میں کپتان سے چاہت کم کم نظر آئی۔کپتان کی تقریر کے دوران لوگوں کا جوش و جذبہ بھی کچھ بجھا بجھا تھا۔کپتان کی زیادہ باتوں کو خاموشی سے کے ساتھ ایک کان بسے سنا دوسرے سے نکال دیا ۔ کپتان نے اپنی تقریر میں یہ بات بھی کہی کہ ’’مجھے فخر ہے کہ سندھ اسمبلی نے میرے خلاف قرار داد منظور کی‘ یہ بات کہنا ضروری نہیں تھا ۔بات اس حد تک نہیں رکھی بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ’ سندھ کے لوگوں کو حقوق نہیں دئے ۔ حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں غلاموں کے نہیں‘، گویا سندھ کے عوام غلام ہیں۔ واہ ری سندھ کی عوام تیرے بھولے پن پر قربان کس خاموشی سے کپتان کی یہ بات سن لی۔

شاہ محمود قریشی نے صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے کیونکہ اس جلسہ گاہ میں ان کے ہزاروں مرید بھی موجود ہوں گے اپنی پارٹی کے منشور سے ہٹ کر بات کہی تاکہ عوام کے جذبے کا ابھارا جاسکے انہوں نے اپنی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شان میں چند جملے کہے اور ان کی خدمات کا ذکر کیا تو عوام نے تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا ۔ اسی طرح انہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو سندھ کے عوام کی مرضی سے وابستہ کیا تو عوام نے زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ تیسرا موقع وہ تھا جب کہا گیا کہ ’سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے جس پر سب سے زیادہ نعرے بازی ہوئی اور تالیاں بجائی گئیں۔ یہ باتیں کیا پیغام دے رہی ہیں اس کا ادراک کپتان کو کرنا چاہیے۔

کپتان سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اگر ایمانداری سے ، غیر جانب دار ہوکر تجزیہ کریں تو کپتان کی زیادہ تر باتوں میں سچائی ہے۔ وہ کسی بھی طور غلط نہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کوئی نئی بات نہیں۔ ہر ایک انفرادی طور پر اور ہر سیاسی جماعت جو جیتی یا ہاری دھاندلی ہوئی دھاندلی ہوئی پکار پکار کر کہہ رہی ہے۔ اب اگر واقعی بد دیانتی کی گئی کسی کا حق چھینا گیا تو اس کے خلاف آواز بلند کرنا غلط بات تو نہیں۔ غیر جانب دار طریقے سے اس کی تحقیقات ہونی چاہیئے۔ دود ھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اگر دھاندلی نہیں ہوئی تو نواز حکومت بدستور حکمرانی کے مزے لیتی رہے گی اگر واقعی پنجاب کے شہرں میں دھاندلی سے الیکشن کو ہائی جیک کیا گیا ہے تو’ گو نواز‘ ہو جانا چاہیے بلکہ حکمراں از خود کنارہ کش ہوجائیں اس میں ان کی عزت اور وقار میں اضافہ ہی ہوگا۔ کپتان کا یہ کہنا کہ حکمرانوں کی جائیدادیں اور سرمایا بیرون ملک بنکوں میں جمع ہے اس میں بھی صداقت ہے۔ آج نواز شریف اور زرداری صاحب اعلان کردیں کہ وہ اپنا تمام تر سرمایا جو بیرون ملک بنکو ں میں جمع ہے پاکستان منتقل کررہے ہیں ۔ اس عمل سے ان کا قد کاٹ اور بڑھ جائے گا اگر مد ٹرم انتخابات ہوئے تو دونوں جماعتوں کو بھاری اکثریت آسانی سے مل جائے گی۔کپتان کی باتوں میں بڑی حد تک سچائی ہے لیکن ایک وزیر اعظم نواز شریف کے استعفےٰ کا مطالبہ کچھ زیادہ بھاری پتھر ہے جسے موجودہ حکومت کسی بھی طور اپنے سر پر مارنے کی آخری وقت تک ہمت نہیں کرے گی۔ اس کی وجہ حکومتی وزیروں کے مطابق درست بھی ہے کہ انہیں عوام نے حق حکمرانی کثرت رائے سے دیا ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا نہیں معلوم۔ ۳۰ نومبر کو کیا ہونے والا ہے یہ بھی نہیں معلوم۔ البتہ ظاہری صورت حال جو دونوں جانب سے بیانات کی صورت میں سامنے آرہی ہے وہ بھیانک ناک اور افسوس ناک ہے۔ خدا کرے حکمراں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے واقعہ سے سبق سیکھ چکے ہوں ۔ وہ درد ناک کہانی کسی صورت نہ دھرائی جائے۔ کپتان کو بھی سوچھ بوجھ اور سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔دھرنے اور جلسوں میں مخالفین کو للکارنا، پھٹکارنا، ھانکنا، ڈانٹ ڈبٹ کرنا، یہاں تک کے بے ہودہ زبان استعمال کرنا جو کہ نہیں ہونی چاہیے درست لیکن عملاً ایسی حکمت عملی اپنائی جائے جس میں خون خرابہ نہ ہو، ایک جان بھی نہ جائے۔ تصادم کی صورت میں جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ ملک میں جمہوری نظام کی بساط بھی الٹ جائیگی چنانچہ دونوں فریق افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہی دانشمندی ہوگی۔

سندھ کے عوام جو اندرون سندھ میں رہتے ہیں اپنا ایک مخصوص مزاج اور سوچ رکھتے ہیں۔ انہیں روٹی ملے یا نہ ملے، ان کے شہر میں ترقی ہو یا نہ ہو، انہیں نوکریاں ملیں یا نہ ملیں، تھر میں قحط سالی ہو کوئی پروا نہیں، معصوم بچے بھوک سے مرجائیں پھر بھی کوئی پروا نہیں ۔ ان کی سوچ اور سیاست کا محور ایک ہی شخصیت ہے اس کا نام ہے ’بھٹو‘۔ ان کے اندر ایک بھٹو موجود ہے وہ کسی بھی طرح اپنے اندر کے بھٹو کو خود سے جدا نہیں کرسکتے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بات آج سے چالیس برس قبل کہی تھی کہ ’ایک بھٹوان کے اندر موجود ہے اور ایک بھٹو عوام کے اندر بستا ہے‘۔ یہ جملہ اور یہ جذبہ سندھ کے عوام کے دلوں میں رچ بس چکا ہے وہ اس کے سحر سے تاحال نکل نہیں سکے۔ یہ سوچ ایک نسل سے دوسری اور دوسری سے تیسری نسل میں منتقل ہوچکی ہے۔ گزشتہ چالیس سال میں کئی حکومتیں آئیں ، پیپلز پارٹی عتاب میں بھی رہی لیکن جب بھی سندھ کے ان لوگوں کو آزادی ملی ان کے اندر کا بھٹو باہر آگیا۔ اسی جذبہ نے آصف علی زرداری کو اور اس کی اولاد کو زرداری سے بھٹو بنادیا۔

سندھ میں دوسرااہم فیکٹر شہروں میں آباد عوام ہیں جہاں کی اکثریت کے دلوں میں بھٹو نہیں بستا بلکہ سرِ دست ان کے دلوں میں الطاف بھائی کی محبت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ سندھ کی اس مخصوص صورت حال کے پیش نظر کپتان کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ بصورت دیگر نیا پاکستان بننے کا خواب کیسے پورا ہوگا۔ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں کپتان پنجاب کو پی ایم ایل (ن) کی گرفت سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوجائے جس کی بنیاد پر وہ حکومت بھی بنا لیں لیکن سندھ کی صورت حال کچھ اسی طرح کی ہوگی جیسے مسلم لیگ (ن) مرکزمیں حکومت میں ہے اور سندھ پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔

تبدیلی یا انقلاب کا ایک راستہ تو بند ہوچکا جو راولپنڈی سے ڈی چوک آتا نظر آرہا تھا۔ انقلاب دھرنا اور سونامی اب صرف شہر شہر نگر نگر جلسوں کی صورت میں باقی رہ گیا ہے۔ التبہ کپتان کا آزادی دھرنا شہر شہر نگر نگر دھرنیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔اب اگر کوئی معجزہ ہوجائے یا آب پارہ راولپنڈی سے کوئی طاقت گو نواز گو کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کردار ادا کردے تو شاید حکومت انتخابات کرانے پر مجبور ہوجائے ۔ جس کے نتیجے میں نئی قیادت نیا پاکستان بنانے میں کوئی کردار ادا کرسکے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کام کپتان کے ہی حصہ میں آجائے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284829 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More