صحرائی پھولوں کی موت کا ذمہ دار کون

اندرون سندھ کے علاقے تھرپارکر کو قدرت نے کوئلے کی دولت سے مالا مال کررکھا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تھرمیں زیرِ زمین موجود کوئلے کے ذخائر آئندہ ایک صدی سے بھی زائد عرصے تک پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں۔تھر کے علاقے میں اس قدر معدنی دولت کے ذخائر کی موجودگی کے باوجود حکومتِ وقت کا تھر کے علاقے میں کوئی دلچسپی نہ لینا ایک سوالیہ نشان ہے اور اسکے علاوہ تھر پارکر میں بسنے والے انسانوں کو مسلسل نظرانداز کرتے ہوئے حکومت اپنی نااہلی کا ثبوت بھی دے رہی ہیں ۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن سے جب میڈیا نے اس بارے میں سوال کیا تو موصوف کا کہنا تھا کہ تھر میں دونوں مرتبہ قحط سالی کے دوران ایم کیو ایم ، حکومت کا حصہ نہیں تھی۔ حکومت بلیم گیم کی آڑ میں اپنی کوتاہیاں چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن موصوف یہ بھول گئے تھے کہ وہ خود بھی بلیم گیم (Blame Game)ہی کھیل رہے ہیں۔یہی ہوتا آیا ہے ’جمہوریہ پاکستان‘ میں۔ نئے آنے والے حکمران بلیم گیم (Blame Game)کا سہارا لیکر اپنا دامن چھڑوا لیتے ہیں اور عوام انہی پرانے مسائل میں پِستی چلی جاتی ہے، جن کو حل کرنے کے لیے یہ حکمران سالہاسال سے عوام کے ہی دیئے گئے ووٹ کی مدد نئی مدت کے لیے اقتدار کے ایوانوں میں جا پہنچتے ہیں۔

قارئین! ایک عرصے سے تھر میں بھوک اور غذائی افلاس سے سینکڑوں معصوم بچے ہلاک ہورہے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ تھر واسیوں کی عمریں بیت گئیں مگر ان کی زندگی سے غذائی قلت نہیں نکلی، ان کی بھوک نہیں مٹی اوردوسری طرف حکمران اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں۔ تھر کے لیے ملنے والی امداد ادویات پڑی پڑی خراب ہوگئیں لیکن عیاش حکمرانوں نے بھوکے اور بیمار ، موت کے منہ میں جاتے معصوموں کو ادویات اور غذا کی فراہمی نہ کرکے بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ آج ایک نجی ٹی وی چینل پر چلنے والی خبر نے مجھے رلا دیا۔ خبر میں بتایا گیا کہ آج کے دن ، تھر میں غذائی قلت کے شکار، جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد 10ہوگئی۔ اورغذائی قلت کے شکار اس صحرائی علاقے میں آج مؤرخہ 24نومبر 2014ء تک گذشتہ 54 دنوں میں جاں بحق ہونے والے معصوم بچوں کی تعداد 121ہوگئی۔ اس وقت بھی تھر کے علاقے مٹھی کے سول ہسپتال میں درجنوں معصوم پھول زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ تھر میں بھوک اور بیماریوں کے ڈیرے ہیں اور ہر نئے دن کا سورج موت کا پیغام لیکر طلوع ہوتا ہے۔ قحط کا ستم ایسا ہے کہ معصوم بچوں کے جاں بحق ہونے پر ماؤں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کے دریا بھی خشک ہوچکے ہیں۔لیکن موت کا رقص تھمنے میں نہیں آرہا۔

تھر پارکر میں مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق دسمبر 2013ء سے تاحال غذائی قلت اور بیماریوں سے ابدی نیند سونے والے معصوموں کی تعداد500سے زائد ہوچکی ہے جبکہ سرکاری حکامِ یہ تعداد 293بتاتے ہیں۔ سندھ کے صوبائی وزیر منظور وسان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ تھر کے باسیوں کا خیال نہیں رکھاگیا۔ لیکن چند ماہ قبل، جعلی شراب پی کر مرنے والے شرابیوں کوــ ’’شہید ‘‘ قرار دینے والے وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا میڈیا سے کہنا تھا کہ تھر میں بچوں کی ہلاکت غربت کی وجہ سے ہوئی ہوگی، بھوک کی وجہ سے تھر میں ایک بھی ہلاکت نہیں ہوئی۔ تھر میں بھوک کی وجہ سے مرنے والے کسی ایک شخص کا نام بتادیں۔ تھر میں کوئی بچہ بھوک سے نہیں مرا۔ اگر حکومتی کوتاہی ثابت ہوئی تو وہ معافی مانگیں گے۔ جبکہ دوسری طرف تھر کے ڈپٹی کمشنر نے تصدیق کردی ہے کہ17نومبر کو ہلاک ہونے والے 10میں سے 7بچوں کی ہلاکت غذائی قلت کی وجہ سے ہوئی ہے جبکی اس سے قبل بھی ہلاک ہونے والے بچوں کی اکثریت کا سبب غذائی قلت بنی ۔12نومبر کو سائیں قائم علی شاہ نے میڈیا کے سامنے ایک نئی منطق گھڑی۔ موصوف کا کہنا تھا کہ تھر میں بھوک کا نہیں بلکہ ’’زچگی‘‘ کا مسئلہ ہے اور اسی وجہ سے تھر میں بچے ہلاک ہورہے ہیں ۔ موصوف کے مطابق ؂ حکومت کا زچگی سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے۔مزید ایک سوال کے جواب میں قائم علی شاہ نے بلیم گیم (Blame Game) کا سہارا لیتے ہوئے اپنی دانست میں میڈیا کو ’’چارتے‘‘ ہوئے کہا کہ محکمہ صحت نے 20سال سے تھر کو نظر انداز کئے رکھا ہے ، میرا سوال تو ایم کیو ایم کے صوبائی وزیر ِ صحت ڈاکٹر صغیر احمد سے ہے کیونکہ وہ پچھلے تین سال سے تھر کے علاقے میں گئے ہی نہیں۔ شاہ صاحب کے اس بیان پر صرف اتنا سا تبصرہ ہی کیا جاسکتا ہے کہ ’’ سائیں تو سائیں، سائیں کا بیان بھی سائیں‘‘ ۔ اگر اس سے زیادہ کچھ لکھا تو شاہ صاحب کی شان میں یقیناََ گستاخی ہوجائے گی، حالانکہ موصوف اس بھی زیادہ کے حقدار ٹھہرے ہیں۔

تھر کے محکمہ صحت کے ضلعی افسر ڈاکٹر عبدالجلیل بھرگڑی کے بیان کے مطابق بچوں کی ہلاکت کی چار وجوہات ہیں۔ جن میں سرِ فہرست کم وزن، وقت سے پہلے پیدائش، برتھ اے سفیکزیا(اس بیماری میں بچے کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے) اور چوتھی وجہ سپیس (Space) ہے، جس میں دائی بچے کی پیدائش کے وقت صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتی۔ ڈاکٹر عبد الجلیل نے بھی تھر میں غذا ئی قلت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جب ماں کی صحت اچھی نہیں ہوگی تو یقیناََ بچہ کمزور پیدا ہوگا۔ بقول ڈاکٹر عبدالجلیل، جب بارشیں نہ ہوں اور قحط کی صورتحال ہو تو مناسب غذا نہیں میسر ہوتی جسکی وجہ سے ماں کمزور ہوتی ہے۔ حکومت کے پاس صرف ہسپتالوں میں ہلاک شدہ بچوں کی تعداد دستیاب ہے جبکہ گھروں میں فوت ہونے والے بچوں کی تعدادکا کوئی اندازہ نہیں ہے۔

ایک حکومتی عہدیدار کے بیان کے مطابق حکومت کی جانب سے تھر میں گندم کی مفت تقسیم کا چوتھا مرحلہ جاری ہے جس میں دو لاکھ اٹھاون ہزار خاندانوں میں سے دو لاکھ چوالیس ہزار خاندانوں میں 50کلوگرام فی خاندان کے حساب سے گندم تقسیم کردی گئی ہے۔ جبکہ سندھ کے وزیر جیل خانہ جات منظور وسان کا ماننا تھا کہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ تھر کے علاقے چھاچھرو میں زیادہ اموات واقع ہوئی ہیں اور وہاں لوگوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اسکے علاوہ گندم کی تقسیم میں بھی خرد برد ہوئی ہے جس میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ حکومتی ارکان بھی ملوث ہیں۔

قارئین! وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ دار پاک فوج نے ہمیشہ سرحدوں کے ساتھ ساتھ عوام کی جانوں کی حفاظت کا بھی بہت خیال رکھا ہے اور جب بھی وطنِ عزیز کے کسی کونے میں عوام پرمصائب و آفتیں ٹوٹی ہیں، پاک فوج نے ہمیشہ عوام کو تحفظ کا احساس دلاتے ہوئے کامیاب اور کرپشن فری ریلیف کیمپس لگائے ہیں۔ تھر پارکر میں موجودہ تشویشناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے پاک فوج نے ہمیشہ کی طرح عوام کی خاطر ریلیف کیمپس لگائے ہیں۔ اس وقت تھر میں راشن کی تقسیم کے لیے پاک فوج کے 37مراکز اور29میڈیکل کیمپس میں علاج کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ پاک فوج کی طرف سے جاری ریلیف آپریشن میں تھر کے علاقوں دھانی، چھاچھرو، کھنسر، ڈالی اور مٹھی میں سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور متاثرہ علاقوں کے 14ہزار 130خاندانوں میں 150ٹن راشن بھی تقسیم کردیا گیا ہے۔ پاکستانی شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کی ذمہ داری پاک فوج کی نہیں ہے بلکہ یہ حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے، جس سے وہ بہت آرام سے اپنا دامن چھڑواتی نظر آرہی ہے۔

گذشتہ دنوں سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی نسبت سے سی فوڈ پارٹی (Sea Food Party)کا ذکر بھی سننے میں آیا۔ مجھے یقین ہوچکا کہ ان عیاش حکمرانوں کو عوام کی قیمتی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں ہیں۔ بس ان کے شوق سلامت رہیں، پورے ہوتے رہیں، باقی لوگ جائیں بھاڑ میں۔ ایک طرف سند ھ کے تھرپارکر میں معصوم بچے تک بھوک سے بلک بلک کر موت کے آغوش میں ابدی نیند سوتے جارہے ہیں اور دوسرے طرف ان عیاش حکمرانوں کے چونچلے او ر دعوتیں ہی ختم نہیں ہورہے۔ لیکن یہ کس قدر المناک ہے کہ وطنِ عزیز میں تمام سیاسی پارٹیاں اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی ضد میں روزانہ کروڑوں روپے جلسے جلوسوں، دوروں، تقریبات اور محفلوں میں اڑا رہی ہیں اور ان تقریبات میں پیش کیا جانے والا کھانا ، جو صرف اور صرف ضیاع اور فضول خرچہ کے ذمرے میں آتا ہے۔ ان تقریبات میں پانی کے ضیاع کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ لیکن کیا کبھی ان لوگوں نے، یا ایسی تقریبات میں شامل ہونے والوں نے سوچا ہے کہ روٹی کے ایک ٹکڑے اور پانی کی ایک بوند کی ، تھرپاکرکے علاقے میں کیا اہمیت ہے۔ ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ ہم اپنے مفادات سے ہٹ کر کسی دوسرے کے لیے کچھ سوچیں۔ سندھ کے اربابِ اختیار فرماتے ہیں کہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی تو بچے مرتے ہیں لیکن آپ کو صرف ’’تھرــ‘‘ ہی کیوں نظر آتا ہے۔تھر میں بسنے والے بھوک اور افلاس کے مارے لوگ بس یہ خواب ہی دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے بچے زندہ ہیں۔ ٓج کے دور میں، جب ہر کسی کی آس ہوتی ہے کہ اسکا بچہ بڑا ہوکر کوئی ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا، تھر واسی یہ آس رکھتے ہیں ایک نہ ایک دن تازہ روٹی ان کے بچوں کا مقدر ہوگی، تھر کی تپتی مٹی سے اناج اگے گا، کبھی نہ کبھی وہ اپنے بچوں کو روٹی کا نوالہ اور پانی کی بوندیں دیکر موت کا شکار ہونے سے بچالیں گے۔جب تک یہ نا اہل حکمران ـ ــ’’ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ‘‘ کے نعرے لگا کر برسوں پہلے اﷲ کی رحمت میں جانے والے بھٹو صاحب کو ہی زندہ کرنے پر لگے رہیں گے، اس وقت تک عوام مرتی رہے گی۔انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ آج دنیا بہت آگے چلی گئی ہے اور اپنی فرسودہ سوچ کے مالک حکمرانوں کی وجہ ہم ابھی تک کولہو کے بیل کی مانند اسی جگہ پہ گھوم رہے ہیں۔ آج صرف تھر میں بچے غذائی قلت سے مر رہے ہیں۔ اگر عوام نے آج بھی اپنے مستقبل کو نہ سوچا اور ان عیاش اور نسل در نسل چلنے والے حکمرانوں کے پٹھو بنے رہے تو یہ طے ہے کہ ہمارا مستقبل تھر کے عوام کی موجودہ صورتحال سے مختلف نہ ہوگا۔

Lala Sana Ullah Bhatti
About the Author: Lala Sana Ullah Bhatti Read More Articles by Lala Sana Ullah Bhatti: 20 Articles with 14864 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.