چو مکھی لڑائی اور عمرآن خان ۔۔۔

عمرآن خان صاحب ایک چومکھی لڑائی لڑرہے ہیں ہر سیاسی جماعت عمرآن خان کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ جسکا عملی مظاہرہ آپ نے مقدس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دیکھا ۔ خان صاحب نے سیاستدانوں اور سابق جج صاحبان کو تو چیلنج کرہی رکھا تھا ، مگر پچھلے دنوں انھوں نے شہد کی مکھیوں میں پتھر دے مارا یعنی صحافیوں اور اینکرز پر الزام لگایا کہ ان میں آئی بی کے ذریعے کروڑوں روپے بانٹے گئے اور انکا قلم اور زبان خریدنے کی حکومت کیطرف سے کوشیش کی گئی ۔ اسطرح خان صاحب نے ایک اور محاذ جنگ کھول لیا اور میرے تجزیے کے مطابق اس محاذ پر ڈٹے رہنا عمرآن خان کے لئیے انتہائی مشکل ہے کیونکہ کوئی مانے یا نہ مانے میڈیا پاکستان میں ایک اٹل حقیقت ہے۔ پاکستانی میڈیا پوری دنیا کے میڈیا سے زیادہ طاقتور اور شتر بے مہار ہے۔ کالے کیمرے اور قلم میں بہت طاقت ہے مگر دوسرے اداروں کی طرح میڈیا پر بھی کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں اسکی وجہ شائد یہ ہے کہ جنرل ر مشرف نے بغیر کسی پلاننگ کے لائسنس ریوڑیوں کی طرح بانٹے اور موم کی ناک جیسا ایک ادارہ پیمرا میڈیا کا ریگولیٹر ادارہ بنا دیا ، اس ادارے کو حکمرآنوں نے اپنے مفاد کی خاطر جسطرف چاہا موڑ لیا اور گڈ طالبان بیڈ طالبان کی طرح کی ایک ٹرم میڈیا کے لئیے وضع کی گئی ، حامی میڈیا اور مخالف میڈیا ۔ حامی میڈیا کا نام لینے کواسمبلی میں وزیرآعظم صاحب وزیر داخلہ کو کہتے ہیں اور مخالف میڈیا کو پیمرا کے ذریعے دبا دیا جاتا ہے ۔ عمرآن خان صاحب نے صحافیوں پر الزام لگایا ساتھ ہی ایک طوفان بدتمیزی بپا ہوگیا تمام معزز اینکرز نے اپنی توپوں کے رخ عمرآن خان صاحب کی طرف موڑ دیے اور خان سے ثبوت مانگے گئے جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ صحافیوں کا حق ہے۔ خبر گرم ہے کہ خان صاحب اپنے بیان کی وضاحت کریں گے اور بیان کو ڈپلومیٹک رنگ دے کر اپنی خلاصی کروائیں گے اس امر سے آپ میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کوئی باشعور انسان اس میڈیا کے جن سے ٹکر لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا ، یہ ایک منٹ نہیں لگاتے اور شرفاء کی پگڑیاں سر بازار اچھال دیتے ہیں یہ کسی سے ناراض ہوجائیں تو بندے کو آسمان سے اتار کر زمین پر پٹخ دیتے ہیں ، لیکن اگر اینکرز کسی سے راضی ہوجائیں تو زمین سے اٹھاکر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتے ہیں۔ سیاسی شخصیت کی سفارش پر ایک ہی رات میں انھوں نے سندھ کے دور دراز علاقے سے انجنئیر وقار کو اٹھاکر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور جس شخص کو اسکے اہل محلہ نہ جانتے تھے اسے ملک کے نامور سائنسدانوں کے سامنے لا بٹھایا ۔ نہ میرے ملک کے اداروں کو تفتیش کی توفیق ہوئی نہ ہی عوام نے جاننا چاہا کہ اصل کہانی کیا تھی ۔ اس شتر بے مہار ادارے کو ہاتھ ڈالنا کسی کے بس کی بات ہی نہیں ۔ ملک کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز اربوں کا ٹیکس شیر مادر کی طرح پی رہے ہیں اور کسی کی مجال نہیں کہ ان سے ٹیکس وصول کرسکے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ میڈیا حکومت بنانے اور گرانے کے لئیے راہ ہموار کرتا ہے اس لئیے انکے طفیلی حکمرآنوں میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ انکا احتساب کرسکیں اور ہمارے ملک میں ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ جب سیاستدان کی کرپشن پر گرفت کریں تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور اگر میڈیا پر کوئی ہاتھ ڈالے تو آذادی رآئے اور آذادی صحافت پر قدغن کا شور مچ جاتا ہے ۔ عمرآن خان کے الزام کے بعد اس سے ثبوت مانگے گئے اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا رشوت و کرپشن کے پیسے کی کوئی رسید ہوتی ہے ؟ جواب آتا ہے نہیں ۔ تو پھر اسکی تحقیق کیجاسکتی ہے جن پر الزام لگا ہے انکے اور انکی فیملی کے اثاثے اور اکاونٹ چیک کیے جائیں اگر کرپشن ہوگی سامنے آجائے گی اگر کرپشن ثابت ہوجائے تو ملزم کو مجرم بناکر سخت سزا دی جائے اگر کرپشن ثابت نہ ہو تو جھوٹا الزام لگانے والے کو جرمانے کے ساتھ سزا بھی دی جائے۔ لیکن یہ سب موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے ناممکن ہے تحقیقاتی اور جوڈیشل کمیشنز کی تاریخ بڑی تابناک ہے ساری عمر رپورٹ ہی منظرعام پر نہیں آتی ، اور ستم بالائے ستم جو جتنا بڑا کرپٹ وہ اتنے ہی بڑے عہدےپر فائز ۔ جن کی کرپشن پر کتابیں لکھی جاچکی ہیں وہ آج بھی اس ملک کے کرتا دھرتا ہیں ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ کس منہ سے ثبوت مانگتے ہیں ، جن کے خلاف ثبوت موجود ہیں انھیں تو پہلےسزا دو ۔ موجودہ جگاڑی اس قدر خرانٹ اور کاریگر ہیں کہ کرپشن کا کوئی ثبوت چھوڑتے ہی نہیں اگر شومئی قسمت سے کوئی ثبوت منظر عام پر آجائےتو یا تو جعلی قرار پاتا ہے یا سازش کہلاتا ہے ۔ اصغر خان کیس میں عدالت کی ہدائیت تھی کہ ایف آئی اے سے تحقیق کروائی جائے مگر خورشید شاہ بولے ہم نواز شریف کی داڑھی ایف آئی اے کے ہاتھ میں نہیں دے سکتے ، تو میری کرپشن چھپا میں تیری چھپاؤں گا اور نام دیا میثاق جمہوریت ۔ اگر صرف نیب کا ادارہ آذاد ہو انکا بچہ بچہ بیان حلفی دے کہ ہم نے اتنی کرپشن کی ہے۔ نیم دانشور انھی لٹیروں سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہی سسٹم ٹھیک کریں گئے یہ جگاڑی زہر کا پیالہ پی سکتے ہیں مگر نظام ٹھیک نہیں کرسکتے کیونکہ انکی نسلوں اور صحافی دوستوں کی بقا اسی نظام میں ہے ۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب ۔
اسی عطار کے لونڈے سے دوا طلب کرتے ہیں ۔

میرے علاقے کی مشہور بیکری پر ایک معروف اخبار کا رپوٹر بمعہ چند ساتھیوں کے آیا اور چیزوں کو الٹ پلٹ کے دیکھنے لگا چند ایکسپائر اشیاء مل گئیں تو جناب کرنے لگے بلیک میل بالآخر بیکری کے مالک نے چند ہزار روپے دے کر جان چھڑائی ۔ بعد میں مالک سے میں نے کہا کہ تم اس کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں کرتے یہ تمھیں بلیک میل کرگیا ہے ۔ وہ کہنے لگا عدالت ثبوت مانگے گی اور رپورٹر صاحب کوئی رسید تو دیکر نہیں گئے اور ویسے بھی ان جنات سے ٹکر لیکر مجھے کاروبار برباد نہیں کرنا اور انکا کیا جانا ہے ایک رپورٹ چلا دیں گئے کہ بیکری میں حرام اشیاء کا استمعال ہوتا ہے ، میری سالوں کی بنائی ہوئی ساکھ برباد ہوجائے گی۔ خان صاحب ملک میں بہتری لانے کی جدوجہد کررہے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ خان کامیاب ہوتا ہے یا نہیں مگر اس نظام سے فائدہ اٹھانے والوں کے ایوانوں میں زلزلہ ضرور برپا ہے سندھ کی بےبے پارٹی کو بھی اسہال کی شکایت ہوچکی ہے سندھ اسمبلی سے قراردادیں منظور ہورہی ہیں حالانکہ انکی قراردادوں کی نہ کوئی وقعت ہے نہ کوئی اوقات ، خان ایک چومکھی لڑائی لڑ رہا ہے خدا اسے کامیاب کرے اور کرپٹ نظام اور ڈاکو ماضی کی داستان بن جائیں اور وطن عزیز پر ترقی و خوشحالی کے دروازے کھل جائیں ۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔۔۔۔۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 171852 views System analyst, writer. .. View More