لَو جہاد

مودی حکومت آنے سے بھارتی سیاست میں کئی تبدیلیاں آئی ہے، چونکہ بنیادی طور پر مودی کی سیاست ہندو انتہا پسندی اور مسلم مخالفت پر مبنی ہے اس لیئے وہ چاہتا ہے کہ انتہا پسندوں کو ہمیشہ کے لیئے خوش رکھے جس کے لیئے ’’لَو جہاد‘‘ کا شوشہ چھوڑا گیا۔پاکستان سے ڈائلاگ کا خاتمہ کیا گیا اور بارڈر پر دن رات گولہ باری کا اگ برساتا رہا۔

انڈین سیاست ہمیشہ کی طرح ایشوز پر چلتی ہے اور بھارتی سیاستدان اس کی خو ب استعمال جانتاہے۔چُناؤ 2014 میں مودی نے پاکستان دُشمنی کا خوب استعمال کیا اور کافی اچھی حصولی بھی ہاتھ میں ائی لیکن تقریب حلف برداری میں دونوں ملکوں کی گرمجوشی سب نے دیکھی۔

آج ہندوں نے مُسلم کُشی کے لیئے باقائدہ طور پر ایک سوچے سمجھے منسوبے کیساتھ ’’ لو جہاد‘‘ کے نام سے ایک خطرناک عمل کا اغاز کیا ہے۔

لو جہاد انگلش اور عربی کے دو الفاظ ہیں یعنی "Love Jehad" ۔ہندوں لیڈرز نے مُسلم نوجوانوں کی ہندوں لڑکیوں سے شادی کرنے کے واقعات کومیڈیا پر اس طرح عام کیا کہ اب یہ ایک غیر معمولی واقعہ بن چکا ہے۔ہندوں کے مطابق مسلمانوں نے لوجہاد کو ایک منظم سوچ سے شروع کیا ہے، کہتے ہیں کہ اس کام کے لیئے مُسلم نوجوانوں کو باقائدہ ٹریننگ دی جاتی ہے تاکہ ذیادہ سے ذیادہ ہندوں لڑکیوں کو محبت کی جال میں پھنسا کر شادی کرائیں اور بعد میں اسلام قبول کرنے کے لیئے مجبور کرائیں۔

ہندوں لیڈرز کی محنت سے انتہا پسند ہندوں اس بات پر مطفق ہوگئے کہ ہاں مُسلم نوجوان ہمارے دُشمن ہیں۔اب اس دُشمنی سے نمٹنی کے لیئے باقائدہ طور پر چندہ اکھٹا کیا جاتا ہے اور خاص طور پر مُسلمانوں کے علاقوں میں نوجوانوں کو راہ راست سے ہٹانے کے لیئے ہندوں ڈرگز مافیا سرگرم کیا گیا ہے یہ مافیا مُسلم نوجوانوں کو نشئی بنانے کے لیئے ہر قسم ہتیار استعمال کرتا ہے۔اس عمل سے دو نشانے کام ائینگے،پہلا مُسلم گرم خون بے کار بنانا، دوسرا ہندوں مافیا کو ہمیشہ کے لیئے خوش رکھنا تاکہ ائیندہ بھی مودی سیاست چمکتا دھمکتا رہے۔عالمی سیاست مافیا کے ہاتھوں مجبوری سے چلتا ہے جس میں بھارتی مافیا سب سے مشہور اور طاقتور ہے۔مودی کو جس مافیا نے پرائم منسٹر کی کُرسی پر بھٹایا ہے آخر اُن کو تو اپنی انویسمنٹ کا بدلہ ملنا چاہیے سود سمیت۔

" لوجہاد" کی وضاحت کیلئے رانچی کی ایک خبر کا سہارا لیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک مُسلم لڑکے نے ایک لڑکی سے ہندوں بن کر شادی کی اور بعد میں وہ اس لڑکی کو مسلمان بنانے کیلئے تشدد کرنے لگا۔اس بیہودہ حرکت کو نہ تو پیار کہا جاتا ہے نہ جہاد۔ہندوستان میں فرقہ وارانہ صف ارائی تیز کرنے اور مُسلمانوں کے کیخلاف ردعمل جگانے کیلئے ایک بیہودہ اور بے معنی ترکیب گڑھی گئی ہے۔ اس سے عوام کے ذہنوں میں ایک خاص مذہب کے نوجوانوں کیلئے شکوک وشبہات پیدا ہونگے اور سماج کے مختلف طبقوں اور فرقوں میں کشمکش بڑھے گی۔

آخر کار ار ایس ایس اور دوسرے انتہا پسندوں کو کیوں اس شوشے کی ضرورت پیش ائی؟ ہندوستان میں خاص طور نوجوان طبقہ بڑی تیزی ہندو مذہب سے مشرف بہ اسلام ہورہے ہیں جسکی خوف سے بنیاد پرست ہندوں نے لو جہاد کا شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کیخلاف نفرت اور ہندو مذہب کے لوگوں میں مسلمانوں سے دوری پیدا کرنے کی کوشش کی۔دسمبر 2011 میں بی جے پی ارکان نے الزام عائد کیا تھا کہ 84 ہندو لڑکیاں لاپتہ ہے جس میں 69 کی جبری مذہبی تبدیلی عمل میں لائی گئی ہے تاہم کانگرس نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے بی جے پی اور ہندو توا تنظیموں پر الزام عائد کیا کی ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے اور حالات کو کشیدہ کرنے کی غرض سے وہ یہ تحریک چلا رہی ہے۔25 جون2014 کو کیرالا کے چیف منسٹر چامنڈی نے قانون ساز اسمبلی کو مطلع کیا کہ ریاست میں 2006 سے 2667 ہندو لڑکیاں مشرف بہ اسلام ہوئیں تاہم کسی کو مذہب تبدیل کرنے کیلئے مجبور کیا گیا ہو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے جس میں ہر شہری کو اپنی مرضی سے کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔
Naeem Utmani
About the Author: Naeem Utmani Read More Articles by Naeem Utmani: 7 Articles with 4130 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.