پیغمبر اکرم (ص) کا مقام و منزلت

یہ مسلم ہے کہ نبی ایک عظیم مقام و رتبے پر فائز ہوتا ہے جب چاہے خدا سے رابطہ پیدا کر سکتا ہے اور وحی کے ذریعہ حقائق کو حاصل کر سکتا ہے پیغمبر اور نبی میں ما فوق العادت عصمت جیسی طاقت بھی موجود ہوتی ہے، (کہ جسکی وجہ سے گناہ اور نسیان وغیرہ سے محفوظ رہتے ہیں) اور یہ بھی معلوم ہے کہ ایسا مقام اور راز پنہانی ہر کسی کے بس کا نیںا ہے لہذا انسان ان دو راستوں کے ذریعہ نبی کی حقانیت و صداقت کو بخوبی معلوم کر سکتا ہے اور تشخیص دے سکتا ہے ۔

پلاب راستہ : ایک نبی دوسرے (آنے والے) نبی کی خبر دے یا اس کی تصدیق کرے یا اس کے علائم اور قرائن کو بیان کرے ۔

دوسرا راستہ : وہ اپنے دعوے کی صداقت اور حق گوئی کے لئے معجزہ پیش کرے ، یعنی ایسے کام کو انجام دے کہ انسان اس جیسے کام انجام دینے سے عاجز ہو جب انسان دیکھے کہ کوئی پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے اور کتا ہے کہ میں خد اکی طرف سے تماجری ہدایت کے لئے مامور کیا گیا ہوں اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ایسے کام کو انجام دے رہاہو جو انسان کے اختیار سے باہر ہے، پس یقین ہو جائیگا کہ یہ شخص سچا ہے اس لئے کہ اگر یہ جھوٹا ہوتا تو خدا اس کی معجزہ کے ذریعہ تائید نہ کرتا چونکہ جھوٹے کی تائید کرنا لوگوں کو جہالت میں ڈالنا ہے ایک امر قبیح ہے اور خدا کوئی قبیح امر انجام نیںا دیتا ہے مقام عصمت و نبوت کو پہچاننے کے لئے ان دو عمومی قاعدے کے علاوہ کوئی اور راستہ نیںق پایا جاتا ہے ۔

لیکن جاننا چاہیے کہ عقلمندوں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے دوسرا راستہ بھی کھلا ہوا ہے کہ لوگ قانونِ شریعت اور احکام اسلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں،اور قانون اسلام کو دنیا کے اور دوسرے قوانین سے تقابل کریں اور اس کے امتیازات اور مصلحتوں کو خوب درک کریں، اس وقت نبی کی سیرت اور طور طریقہ نیز رفتار و گفتار کو اس کے آئینے میں تلاش کریں اور اس طریقے سے ان کے دعوے کی سچائی کی تائید اور تصدیق کر کے اپنے ایمان کو مضبوط کرسکتے ہیں ، لیکن اس راہ سے آنا ہر شخص کے بس کی بات نیں ہے یا یہ کہ خدا کا لطف خاص شامل حال ہو اور انسان ایمان کی قوت سے مالامال ہو ، قرآن مجید نے انبیاء کے لئے معجزات کو بیان کیا ہے جو شخص قرآن کے آسمانی اور خدا کی کتاب ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے اس کو لامحالہ انبیاء کے معجزات پر بھی اعتقاد رکھنا پڑے گا جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا اژدہاہونااور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردے کو زندہ کرنا وغیرہ کسی کے لئے قابل انکار نیںت ہے، جناب عیسیٰ علیہ السلام کا گواارے میں باتیں کرنا قرآن کی نص ہے ۔

انبیاء کی تعداد
حدیثوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ انبیاء کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے ہیں جس میں سب سے پلےک حضرت آدم (ع) اور آخر میں حضرت محمد مصطفی ابن عبد الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں [2]

انبیاء کے اقسام :بعض انبیاء اپنے فرائض کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں لیکن تبلیغ پر مامور نیںں ہوتے ۔بعض تبلیغ پر بھی مامور تھے ۔بعض صاحب دین اور شریعت تھے ۔ بعض انبیاء مخصوص شریعت لے کر نیںح آئے تھے ، بلکہ دوسرے نبی کی شریعت کی تبلیغ و ترویج کرتے تھے اور ایسا بھی ھوا ہے کہ متعدد انبیاء مختلف شرحوں میں تبلیغ و ہدایت کے لئے مامور کئے گئے ہیں ۔

اولو العزم انبیاء : حضرت نوحعلیہ السلام ، حضرت ابراہیمعلیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، یہ صاحب شریعت تھے اور تمام انبیاء میں سب سے افضل ہیں، ان کو اولو العزم پیغمبر (ع)بھی کارجاتا ہے۔

بعض انبیاء صاحب کتاب تھے : حضرت نوح(ع) ، حضرت ابراہیم (ع) ،حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد (ص)، اور باقی انبیاء صاحب کتاب نیںی تہے بعض انبیاء تمام لوگوں کیلئے مبعو ث کئے گئے تھے اور بعض مخصوص جمعیت و گروہ کیلئے مبعوث کئے گئے تھے ۔ [3]

حضرت محمد (ص)آخری نبی ہیں
اولو العزم انبیاء میں سے ہمارے نبی حضرت محمد ابن عبد اللہ(ص)ہیں آپ کی امت مسلمان کہلاتی ہے۔ آنحضرت(ص) اس وقت مبعوث برسالت ہوئے جب گذشتہ انبیاء کی کوششیں اور ان کی قربانیاں اور طولانی زحمات اپنا ثمرہ دکھا رہی تھیں، لوگوں کی دینی سوجھ بوجھ اس حد تک پنچم چکی تھی کہ چاہتے تو بتررین اور کامل ترین قوانین کو اخذ کرتے اور بلند ترین معارف کو سمجھتے نیز گذشتہ انبیاء کے علمی آثار کو ہمیشہ باقی رکھ سکتے تھے، اس وقت حضرت محمد مصطفی(ص)مبعوث ہوئے، اور لوگوں کے اختیار میں ایک جامع اور مکمل دستور العمل قرار دیا ۔

اگر اسلامی قوانین اور اس کے احکام پر پابندی سے عمل کیا جائے تو انسان کی دنیوی و اخروی سعادت کو اسکے ذریعہ سے تامین کیا جا سکتا ہے اور اسی طریقے سے اس زمانہ اور آنے والی نسلوں کی خیر و صلاح کے لئے کافی ہیں۔ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ قواعد و قوانین اور معارف اسلامی میں تلاش و جستجو کرے اور اسلام کے قوانین کا دنیا کے اور قوانین سے تقابل کرے تو اسلام کے قوانین کی برتری اس کے اوپر روز روشن کی طرح واضح و ظاہر ہوجائے گی یی علت ہے کہ آنحضرت(ص)آخری پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی دوسرا نبی نیںئ آئے گا قرآن مجید نے آپ کو خاتم النبیین سے تعبیر کیا ہے [4]حضرت محمد کے آخری نبی ہونے کا اعتقاد رکھنا، دین کی ضروریات میں سے ہے اور اس سے انکار کرنے والا مسلمان نیںا ہے ۔

ہمیشہ رہنے والا معجزہ
حضرت محمد مصطفی (ص)آپ صاحب معجزہ تھے اور اپنی زندگی کے مختلف ایام میں لوگوں کو معجزہ سے روشناس کرایا ہے اور کثرت سے حدیث اور تاریخی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ ملتا ہے، ان سب کے علاوہ قرآن مجید ہمیشہ رہنے والا معجزہ اور آپ کی نبوت پر قطعی ثبوت ہے قرآن کریم خود اپنے کو معجزہ سے تعبیر کرتا ہے اور خدالوگوں سے کتاج ہے جو ہم نے قرآن مجید اپنے بندے (محمدمصطفی(ص)) پر نازل کیا ہے اس پر شک کرتے ہو تو اس کے مثل ایک سورہ ہی لے آؤ ۔[5] اورقرآن کتام ہے اگر تمام جن و انس قرآن کا مثل لانے پر اتفاق کرلیں تب بھی نیں لا سکتے ۔[6]

اسلام کے دشمن اسلام سے ہر طریقے سے لڑنے کے لئے آمادہ ہو گئے کسی راہ کو باقی نیںے چھوڑا، اور خطرناک سے خطرناک جنگوں سے سامنا کرنے سے منہ تک نہ موڑا اور جانی و مالی بے انتاانقصان برداشت کئے لیکن قرآن سے جنگ کرنے کے لئے اصلاً آمادہ نہ ہوئے ،ہاں اگر ان کے بس کا ہوتا تو قرآن کے سورہ کی طرح کسی ایک سورہ کا جواب لاکر رکھ دیتے! اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو اتنی بڑی بڑی جنگوں کے مقابل سورہ لانے کو زیادہ ترجیح دیتے اور ہزارہازحمت و پریشانی سے سبکدوش ہوجاتے مثلِ سورہ قرآن کوئی سورہ پیش کرنے پر اصلاً قدرت ہی نیںے رکھتے تھے ۔[7]

قرآن مجید آنحضرت(ص)کی تیئیس سال کی زندگی میں رفتہ رفتہ نازل ہوا ہے آںحضرت(ص)کے اصحاب ِکرام ان آیات کو حفظ کرتے تھے اس کے بعد جمع آوری ہوئی اور کتاب کی صورت میں لوگوں کے سامنے آگیا ، قرآن مجید پہلی آسمانی کتاب ہے جس میں کسی طرح کی کوئی تغییر و تحریف نیں پائی جاتی ہے ، اور بغیر کسی کمی اور زیادتی کے لوگوں کے سامنے موجود ہے ۔
قرآن کتاب عمل ہے : اگر مسلمان دارین کی سر بلندی چاہتے ہیں اور انکی چھنی ہوئی شان و شوکت ،جاہ و حشم واپس آجائے تو چاہیے کہ قرآن کے بیان کردہ محکم قوانین اور دستور کی پیروی و اتباع کریں ا ور اپنے تمام کاموں نیز تمام لا علاج امراض میں قرآن سے تمسک و توسل کر کے ان اجتماعی و انفرادی مشکلوں کو حل کریں ۔

حضرت رسول خدا (ص)کے حالاتِ زندگی
آپ(ص)کے والد عبد اللہ اور ماں کا نام آمنہ تھا سترہ ربیع الاول سن ایک عام الفیل کو مکہ معظمہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی ، ستائیس رجب المرجب کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے ، تیرہ سال مکہ میں رہکر لوگوں کو پوشیدہ اور ظاہری طور پر اسلام کی دعوت دیتے رہے اسی مدت میں ایک گروہ مسلمان ہوا اور آپ پر ایمان لے آیا۔ لیکن کفار اور بت پرست افراد ہر طرف سے اسلام کی تبلیغ کے لئے موانع اور رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے اور آںحضرت(ص) کو اذیت مسلمانوں پر سختی و عذاب سے کوئی لمحہ فرو گذاشت نیںس کرتے تھے ، یہاں تک کہ آنحضرت(ص) کی جان ایک دن خطرے میںآ گئی لہٰذا مجبور ہو کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آہستہ آہستہ مسلمان بھی آپ سے آملے اور مدینہ شر سب سے پلےج اسلامی حکومت کا پائے تخت اور فوجی اڈا بن گیا ۔ آںحضرت(ص)اس مقدس شرہ میں دس سال تک احکام کی تبلیغ لوگوں کی راہنمائی اور اجتماعی امور کے سنبھالنے میں مشغول رہے اور اسلامی لشکر ہر وقت حریم اسلام کے دفاع کے لئے آمادہ رہتا ۔

ہمارے نبی(ص)ترسٹھ سال اس دار فانی میں رہ کر اٹھائیس صفر ہجرت کے گیارہویں سال دار بقا کی طرف رحلت فرماگئے اور اسی شرے مقدس (یثرب) مدینہ میں مدفون ہوئے ۔

آں حضرت(ص)بچپنے سے ہی با ادب سچے اور امانتدار تھے اسی وجہ سے لوگ آپ کو محمد امین(ص)کھتے تھے ، اخلاقی لحاظ سے نیک، اپنے زمانہ کے لئے نمونہ تھے کبھی آپ(ص)سے جھوٹ اور خیانت دیکھی نیں گئی کسی پر ظلم و ستم نیں کرتے اور برے کاموں سے دوری، لوگوں کا احترام، خوش اخلاق و متواضع و بردبار تھے مجبور و بے سہاروں کے ساتھ احسان و مرسبانی سے پیش آتے آپ جو کتےب اس پر عمل کرتے تھے اسی پسندیدہ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ لوگ ہر طرف سے اسلام کے گرویدہ ہونے لگے اور آزادی و اختیار کے ساتھ اسلام قبول کرتے تھے ، امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں : ایک فقیر نے آنحضرت(ص)کے قریب آکر آپ(ص) سے سوال کیا حضرت نے ایک انصاری سے کھجور قرض لے کرسائل کو عطا کیا کافی دن گذر گئے مگر آپ اس کا قرض نہ چکا سکے پھر ایک دن طلبگار آیا اور اس نے اپنی کھجور کا مطالبہ کیا حضرت نے فرمایا :
ابھی میرے پاس نیںئ ہے جب ہو جائے گا تو میں انشاء الله دے دونگا ، دوسری دفعہ آیا اور پھر وہی جواب سنا، تیسری مرتبہ جب اس نے اِس جواب کو سنا تو کنےل لگا : یا رسول اللہ ! کب تک یہ کتےو رہیں گے انشاء اللہ دونگا ؟ پھر وہ آں حضرت(ص)کی شان میں گستاخی کرنے لگا حضرت اس کے نا زیبا کلمات سن کر مسکرانے لگے اور اصحاب سے فرمایا :کیا تم میں کوئی ہے جو مجھے کھجور قرض کے طور پر دے ؟ ایک شخص نے کاا: یا رسول اللہ ! میں آپ کو دونگا فرمایا : اس مقدار میں (خرما) کھجور اس شخص کو دے دو ، طلبگار نے کا:میں تو اس کے نصف کا طلبگار ہوں حضرت (ص)نے فرمایا اس نصف کو میں نے تجھے بخش دیا ۔[8]
حوالاجات
[1] آیت ۱۱۵< اَفَحَسِبتُم اَنَّمَا خَلَقنَاکُم عَبَثًا وَ اَنکُّم اِلَینَا لَا تُرجَعُونَ > کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے کار پیدا کیا ہے اور تم ہمارے حضور میں لوٹا کر نیںی لائے جاؤگے ۔
[2] بحار الانوار، ج۱۱، ص ۳۰ ۔
[3] بحار الانوار، ج۱ ص۶۱ ۔
[4] احزاب (۳۳) آیت ۴۰ ۔
[5] بقرہ (۲) آیت ۲۳ ۔
[6] اسراء (۱۷) آیت ۸۸ ۔
[7] حیات القلوب ج۲، ص ۱۶۸ ۔
fateh ali
About the Author: fateh ali Read More Articles by fateh ali: 6 Articles with 5474 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.