سکھ شاہی کا شکار لوگ

پنجاب پرسکھوں کا اقتدارتقریباً ایک صدی پر محیط ہے۔شروع کے چالیس پچاس سال سکھ ڈاکوؤں کی طرح لوٹ مار کرتے رہے اور ان کے مختلف گروہ چھوٹے چھوٹے علاقوں پرتسلط جما کر حکمران بنے رہے۔ 1799 سے پہلے ،جب رنجیت سنگھ نے لاہور فتح کیا، لاہور پر سکھوں کی بھنگی مثل کی حکومت تھی۔ لاہور کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ لاہور کے شمالی علاقے پر شالامار باغ تک گوجر سنگھ کی حکومت تھی اور لاہور کا علاقہ قلعہ گوجر سنگھ اس کا مرکزی قلعہ تھا۔ موجودہ اندرون شہر کے علاقے کا حاکم لہنا سنگھ تھا۔ شہر کے جنوبی حصے کا حاکم سوبھا سنگھ تھا جس کا قلعہ چوبرجی کے قریب قلعہ نواں کوٹ تھا۔ رنجیت سنگھ نے گوجر سنگھ کے بیٹے صاحب سنگھ، لہنا سنگھ کے بیٹے چیت سنگھ اور سوبھا سنگھ کو شکست دے کر 1799 میں لاہور پر قبضہ کیا۔ پچاس ساٹھ سال حکومت کرنے کے بعد1839 میں سکر چکیہ مثل کے رنجیت سنگھ کی وفات کے دس سال بعد1849 سے سکھوں کے اقتدار کا پنجاب سے مکمل خاتمہ ہو گیا مگر وہ کلچر جو نصف صدی کے دوران پنجاب میں انہوں نے فروغ دیا وہ آج بھی زندہ اور تا بندہ ہے ۔ آج بھی اسی طرح قائم ہے ۔ اس کلچر میں طاقت ہی قانون اور طاقت ہی انصاف تھی ۔ تلوار کی مدد سے ہر چیز سنی اور سنائی جا تی تھی ۔ اور فیصلہ بھی تلوار ہی سے لکھا اور پڑھا جا تا تھا ۔ عام آدمی چونکہ تلوار بردار نہیں ہو تا ۔ اس لیے کوئی بھی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہو تا تھا ۔ اُس کلچر کا رواج آج بھی اُسی طرح ہے ۔ عام آدمی کو ہر قدم اور ہر کام پر اس کلچر سے وابسطہ پڑتا ہے ۔ یہ سکھا شاہی کلچر اب ہماری تہذیب کا انمول حصہ ہے ۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی خبریں ایسی ہو تی ہیں ۔ کہ اُنہیں پڑھتے ہوئے ذرا غور کریں تو اپنے کلچر کی سکھا شاہی کھل کر سامنے آ جاتی ہے ۔ ہمارا پورا نظام چاہے وہ سیاسی ہو ، چاہے اقتصادی ، چاہے جمہوری ، چاہے سماجی ،سکھا شاہی میں جکڑا نظر آتا ہے ۔ نئی نسل جو اس نظام کو بدلنے کی خواہاں ہے پتہ نہیں کیسے اس نظام کو بدلے گی کہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔

اخبار میں فکر کے قابل ایک چھوٹی سی خبر ہے سکھر کا رہائشی گل محمد اپنے گھر میں بجلی کا میٹر لگوانا چاہتا تھا اُس نے درخواست دی اور پھر واپڈا کے دفتر کے چکر لگانے شروع کیے کہ میٹر لگا دیا جائے ۔ واپڈا والے ہر دفعہ ایک دو دن میں آنے کا کہہ دیتے ۔ گل محمد ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے ۔ جب بھی وہ واپڈا دفتر کے پاس سے گزرتا اُنہیں آنے کا یاد دلا دیتا اور بالا خر ایک دن اس کی مراد بھر آئی ۔واپڈا والے واقعی اُس کے گھر آگئے ۔میٹر نہ تو لگایا نہ ہی میٹر کی بات کی۔ بس گھر والوں کو 375 یونٹ بجلی کا بل مبلغ چھ ہزار (6000) روپے تھما یا اور چلے گئے ۔ گل محمد نے بہت شور مچا یا کہ میٹر تو لگا نہیں، بجلی کا دور دور تک پتہ نہیں، بل کیسے آ گیا ۔ مگر کوئی سننے کو تیار نہیں ہوا ۔ جناب ایس ڈی او صاحب نے کمال مہربانی فرما کر اُس کے بل کی دو قسطیں کر دیں کیونکہ اُن کے بقول جو بل ایک دفعہ جاری ہو جائے واپس نہیں ہو سکتا ۔ اب وہ بل کی دونوں قسطیں ادا کرے گا تو میٹر لگانے کے لئے اس کے کیس پر مزید پیش رفت ہو گی ۔

یہ تو خبر ہے میرے اپنا ذاتی تجربہ بھی اس سے کم نہیں ۔ 2011؁ء میں میں نے اپنا مکان بنانے کے لیے فروری میں میٹر لگوا یا ۔ اور تعمیر کی ابتدا کی ۔ تعمیر کے دوران ایک مزدور تعمیر کے لیے بنائے ہوئے کچے کمرے کے اندر یا با ہر بمطابق موسم سوتا تھا ۔جو ایک چو بیس (24)واٹ کا انرجی سیور رات کو جلا ییا کر تا تھا ۔ ایک پانی کی سپلائی کے لیے پمپ استعمال ہو تا تھا جو ایک ہارس پاور کا تھا ۔ ہر ماہ ڈھائی تین ہزار بل آتا تھا ۔ اچانک ستمبر کے مہینے میں(75)ہزار کا بل آگیا ۔ جو مجھے دو دن میں ادا کرنا تھا ۔ بہت تگ و دو کی مگر بل کی تصیح ممکن نہ تھی کہ جو بل ایک دفعہ جاری ہو جائے واپس نہیں ہو سکتا۔ بڑی کوششوں کے بعد ایک سینئر افسر نے مہربانی کی اور ہدایت کی کہ بل کو پچھلے تمام مہینوں میں برابر بانٹ دیا جائے اُس سے سلیب کے فر ق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بل چار پانچ ہزار کم ہو جائے گا مگر جو آ گیا ہے وہ جمع کرانا ہو گا ۔ مجبوراََ عدالت کا سہارا لیا ۔ جج صاحب نے فرما یا کہ دیکھتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کیا زیادتی ہو تی ہے ۔۔۔۔۔عرض کی کہ ایس ڈی او صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ بل غلط ہے بل پر میٹر ریڈنگ صفر ظاہر کی گئی ہے مگر بل پچھتر (75) ہزار روپے کیوں ۔ آپ انہیں بلائیں ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا جج صاحب نے فر ما یا ۔ عدالت کے کچھ ضابطے ہیں وہ آپ کے حکم کی محتاج نہیں ۔ اُسے انصاف بہت کچھ دیکھنے کے بعد کرنا ہے ۔ فی الحال آپ بل کا تیسرا حصہ مبلغ پچیس (25)ہزار روپے جمع کر دیں پھر آپ کی بات سنی جائے گی ۔ عرض کیا حضور پچیس (25)ہزار بہت زیادہ ہیں ۔ میں ایک استاد ہو ۔ کچھ خیا ل اگر کریں تو مہربانی ہو گی ۔ بڑا سوچ کر اور میرے وکیل کا یہ کہنے پر کہ یہ میرے بھی استاد ہیں ۔ انہوں نے چوتھا حصہ مبلغ انیس (19) ہزار روپے جمع کرانے کا کہا ۔ واپڈا کے ریونیو دفتر نے انیس (19) ہزار کے ساتھ چھ ہزار روپے جر ما نہ بھی وصول کیا کہ جرمانہ نہ تو ٹل سکتا یہ اور نہ ہی کم ہو سکتا ہے ۔ اب میں پچیس ہزار دے کر گذشتہ تین سال سے تاریخیں بھگت رہا ہوں ۔تین سال بعد پچھلے ماہ رسمی طور پر میری گواہی ہوئی ہے اور دو دن پہلے جرح۔ جرح کے دوران انصاف کا قتل کرنے کے ماہر وکیل صاحب کے سوالات اس قدر عجیب تھے کہ ہنسی آتی ہے۔بل کتنے بجے آیا؟، کس نے وصول کیا؟ کتنے دن میں ادا کرنا تھا ؟اور ان گنت ایسے سوالات ۔لیکن ہمارا نظام انصاف ، کیا کہا جائے۔ البتہ گواہی اور جرح کے روز دونوں دن کمیشن کے نام پر ایک نیا وکیل موجود تھا جس کا معاوضہ بھی مجھے ادا کرنا پڑا ۔ابھی کیس کتنا عرصہ چلے گا اور مجھے کیا کیا بھگتنا ہو گاکچھ معلوم نہیں۔ بہرحال آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

یہ تو سرکار کے معاملات ہیں مگرعوام کو نشانہ بنانے میں پرائیوٹ سیکٹر بھی سرکاری محکموں سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں ۔ ایک موبائل فون کے اشتہارات کی ٹی وی پر بڑی دھوم تھی ۔ اسی دھوم نے میرے ایک عزیز کو بہت متاثر کیا اور اُس نے وہ فون خرید لیا ۔ دو چار ماہ تو فون ٹھیک چلا پھر یکا یک اُس کی سکرین غائب ہونا شروع ہو گئی ۔ تھوڑی چھیڑ چھاڑ سے سکرین ٹھیک ہو جاتی مگر ایک دن مکمل غائب ہو گئی ۔ بیچنے والوں سے رجوع کیا کہ بھائی آپ نے ایک سال کی وارنٹی دی تھی جواب ملا ۔ ورانٹی میں یہ نقص شامل نہیں ۔ اس کے لیے آپ کو قیمت ادا کرنا ہو گی ۔مرتا کیا نہ کر تا ۔ سارے پیسے ضائع ہونے سے بچانے کے لیے جو قیمت انہوں نے مانگی وہ ادا کی اورپندرہ بیس دن انتظار کے بعد فون ٹھیک ہونے کے بعد وصول کیا ۔ گو فون ٹھیک ہے مگراب بھی کسی کسی دن آنکھ مچولی کھیلنا اُس کا مشغلہ ہے ۔ صارفین کو ایسے بہت سے مسائل کا سامنا ہے کمپنیاں بات سننے کو تیار نہیں۔گوصارف عدالتیں ایسے مسائل میں صارفین کی بہت مدد کررہی ہیں مگرایک تو وکلا نے وہاں پہنچ کر کورٹ کا انداز بدل دیا ہے دوسرا عام آدمی کے لئے اتنا وقت نکالنا اور اتنے دن ضائع کرنا ایک مشکل کام ہے ۔ حکومتی سطح پر ایسے اداروں کے خلاف بھر پور کاروائی کی ضرورت ہے ۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444546 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More