گنجے منصف ،بے بال و پر صحافی اور کالی صحافت

حضرت شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ کسی گاؤں میں ایک درویش رہتا تھا وہاں کے لوگ بڑے مکار اور عیاش تھے وہ درویش کی باتوں کا مذاق اڑاتے تھے اور پھر انہوں نے باقاعدہ درویش کو تنگ کرنا شروع کر دیا ۔کبھی راہ روک کر چھیڑتے ،کبھی پتھر مارتے اور پاگل پاگل کی آوازیں کستے ۔رفتہ رفتہ لوگ درویش کے گھر تک پہنچ گئے اور اس کے گھر آ کر اس کو تنگ کرنا شروع کر دیا درویش اس ساری صورتحال سے گھبرا گیا اور پریشانی کے عالم میں اپنی مرشد کے پاس گیا اور اسے سارا معاملہ گوش گزار کیا ۔مرشد مسکرایا اور کہا جو اﷲ والا دنیا کی تکلیفوں اور لوگوں کی ذرا سی شرارتوں سے ڈر گیا وہ درویش نہیں ہو سکتا اس کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا کامل ایمان والے لو گ اپنے حال میں مست رہتے ہیں اور لوگوں کی پرواہ کیے بغیر اچھائی کی تلقین جاری رکھتے ہیں ۔

قارئین آج کا کالم کچھ عجیب و غریب کیفیات میں ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں جہاں رہبری کے نام پر رہزنی کی تمام بدمعاشیاں کی جاتی ہیں ہم ایسے ماحول میں زندہ ہیں جہاں موت زندگی سے کئی درجے بہتر اور آرام دہ ہے ہم ایسے زہر بھرے حالات میں زندگی کے نام پر مر رہے ہیں کہ اگر اس کی اصلاح نہ کی گئی تو کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری نسلیں کلوننگ کے عمل سے گزر کر بندر نما مخلوق نہ بن جائیں یہ تو اﷲ کے حبیب حضرت محمد ؐ کی اپنی اس امت کے لیے شفقت اور دعا ہے کہ جس کی وجہ سے ہم اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے ابھی تک بچے ہوئے ہیں ورنہ خدا کی قسم ہم نے تو کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔آج ہم اپنی قلمکار برادری کے متعلق کچھ باتیں آپ کی خدمت میں پیش کریں گے ۔

قارئین یہ باتیں آپ کے سامنے پیش کرنے سے قبل ہم ایک شاعر کا ایک شعر آپ کے سامنے دہراتے چلیں
خرد کا نام جنون رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
یا بقول ایک اور شاعر
وہ سیاہی جو میرے نامہء اعمال میں تھی
تیری ذلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

قارئین آج سے کچھ عرصہ قبل آزادکشمیر کے سب سے بڑے پریس کلب کشمیر پریس کلب میرپور میں موجودہ وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید نے ایک پریس کانفرنس کی تھی اور اس پریس کانفرنس میں شرکت کے بعد آخری سوال ہم نے کیا تھا اور وہ سوال یہ تھا کہ جناب وزیراعظم مالیاتی بحران کی وجہ سے کہیں یہ خطرہ تو نہیں ہے کہ آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز اور دیگر میگا پراجیکٹس کسی خطرے کا شکار ہو جائیں گے یہ سوال کرنا تھا کہ عزت مآب وزیراعظم چوہدری عبدالمجید غصے سے ہم پر برس پڑے اور ہمیں اپنی مخصوص ڈکشنری کے چنندہ الفاظ سے نوازتے ہوئے غصے کے عالم میں پریس کلب سے تشریف لے گئے ۔اس کے بعد چند دن گزرے تو وہی ہوا جس کا ہم نے خطرہ ظاہر کیا تھا کہ آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز پر پابندی عائد کر دی گئی خیر یہ پہلا موقع تھا کہ جب ہم نے اپنی صحافی برادری کو مظلوم ہونے کے باوجود دیکھا کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے نہ ہوئے ماسوائے روزنامہ شاہین کے چیف ایڈیٹر خالد چوہدری ،قمر حیات شاہ ،سجاد بخاری اور دیگر چند دوستوں کے کسی نے بھی ہمارا ساتھ نہ دیا اس موقع پر پاکستان کے معروف ٹی وی اینکر ڈاکٹر معید پیر زادہ ،تجزیہ کار مظہر عباس ،پی ایف یو جے کے مرکزی صدر افضل بٹ ،اے کے این ایس کے مرکزی صدر عامر محبوب ،ایڈیٹر ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما شہزاد راٹھور ،معروف کالم نگار الطاف مسعود وانی ،آصف راٹھور اور دیگر چند مخلص دوست سامنے آئے اور انہوں نے واشگاف الفاظ میں وزیراعظم آزادکشمیر کو وارننگ دی کہ وہ ایوان صحافت میں آ کر ’’ بازاری زبان ‘‘ استعمال کرنے سے پرہیز کریں ورنہ ان کے خلاف پورے پاکستان کی صحافتی برادری کو متحد کر کے کھڑا کر دیا جائے گا ۔ہمیں کشمیر پریس کلب میرپور کے صدر اور انتہائی مہربان دوست و استاد سید عابد حسین شاہ اور راجہ حبیب اﷲ خان نے جذبات پر قابو پانے کی نصیحت کی اور ان ڈائریکٹ طور پر وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کی معذرت بھی پہنچائی اور سید عابد حسین شاہ نے یہاں تک کہا کہ وزیراعظم آزادکشمیر میرپور آ کر تمہیں ناشتے پر مدعو کریں گے اور معذرت کریں گے سید عابد حسین شاہ کی یہ بات تو درست ثابت ہوئی کہ ہماری ’’ عزت افزائی ‘‘ کے بعد وزیراعظم درجنوں مرتبہ میرپور تو ضرور تشریف لائے لیکن نہ تو ہمیں ناشتے پر مدعو کیا اور نہ ہی ہم سے کسی قسم کی معذرت یا افسوس کا اظہار کیا خیر بقول عارف کھڑی میاں محمد بخشؒ
لسے دا کی زور محمد
رونا یا نس جانا

اس لیے ہم بھی چپ ہو گئے کچھ عرصہ گزرا تو میرپو ر میں میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو بغیر کسی چارج شیٹ کے پرنسپل کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا یہ ایک بہت بڑا طوفان تھا او رہمیں اطلاعات ملیں کہ اگر اس معاملے کو درست انداز میں ہینڈل نہ کیا گیا اور پروفیسر میاں عبدالرشید کو پرنسپل کے عہدے پر بحال نہ کیا گیا یا برطرفی کی چارج شیٹ کو عوام کے سامنے پیش نہ کیا گیا تو تمام میڈیکل کالجز میں کام کرنے والے سینئر پروفیسرز آزادکشمیر چھوڑ کر چلے جائیں گے اور یہ میڈیکل کالجز ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے ہم نے اپنے محسن ڈاکٹر معید پیر زادہ سے رابطہ کیا اور مدد کی درخواست کی اور پھر اس جدوجہد کے دوران سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری ،محترمہ فریال تالپور ،بلاول بھٹو زرداری ،ڈاکٹر عاصم حسین اور پیپلزپارٹی کی دیگر سینئر قیادت تک بھی جا پہنچے او ر دوسری طرف وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ،سنیٹر پرویز رشید ،وزیر امور کشمیر برجیس طاہرسے لے کر ہر اس دروازے پر گئے جہاں پر ہمیں انصاف ملنے کی توقع تھی ۔اس دوران ہمیں ’’ گنجے منصفوں ،بے بال و پر صحافیوں اور کالی صحافت کے علمبرداروں ‘‘ کی طرف سے ہمدردانہ اور غصیلے انداز میں دھمکیاں ملتی رہیں کہ باز آجاؤ ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔اس سلسلہ میں وزیراعظم آزادکشمیر کے میڈیا کے مختلف ’’ ایڈوائزر ز ‘‘ بھی پریشرائز کرنے کے لیے کشمیر پریس کلب میرپور کے مختلف بڑے عہدیداروں کو استعمال کرتے رہے لیکن ہم ہر دھمکی کے جواب میں مسکراتے رہے اور یہی کہتے رہے
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا کہ زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
دل میں طوفانوں کی ٹولی اور نسوں میں انقلاب
زندگی مہمان اپنی موت کی محفل میں ہے

قارئین خیر مختلف مرحلوں سے گزر کر پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید آخر کار با عزت طریقے سے پرنسپل کی حیثیت سے میرپور میڈیکل کالج میں دوبارہ تعینات ہو گئے لیکن ہمارے امتحانوں کا سفر جاری تھا اسی دوران میرپور میں ایک واقعہ پیش آیا کہ پی ایم اے کے سابق صدراور مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر امین چوہدری نے ایک مقامی صحافی شاہد مرزا پر اس بات پر غصہ کیا کہ انہوں نے ان کے مرحوم والد کے خلاف ایک متنازعہ کالم لکھا ہے یہ غصہ اتنا بڑا کہ ڈاکٹر امین چوہدری کے بیٹے واصف امین نے اپنے دوستوں کے ہمراہ مل کر شاہد مرزا حملہ کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اس پر کشمیر پریس کلب میرپور نے شدید احتجاج کیا ہم نے بھی اس احتجاج میں بھرپور غصہ لیااور پانچ انٹرویوز صحافی برادری کا موقف اجاگر کرنے کے لیے کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی پر نشر کیے اسی دوران ہمیں کچھ دوستوں نے درخواست کی کہ ایک پارٹی کاموقف تو ہم اجاگر کر رہے ہیں لیکن دوسری پارٹی کا موقف چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو اسے بھی پیش کرنا ہماری پیشہ وارانہ ذمہ داری ہے ہم نے اس پر ڈاکٹر امین چوہدری اور ڈاکٹر اکرم چوہدری کے تین انٹرویوز کیے کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے آخر ایسا کیوں ہونے دیا ۔ہم نے ان دونوں شخصیات کے انٹرویوز کرتے ہوئے ہر موقع پر شاہد مرزا کا موقف بھی لازمی طور پر لیا ۔اس پر ہم نے دو کالم بھی تحریر کیے ایسا کرنا تھا کہ کشمیر پریس کلب میرپور میں ایک طوفان برپا ہو گیا اور ہمیں ایک مجلس جس میں ڈاکٹر امین چوہدری اور شاہد مرزا کی صلح ہوئی صلح کے بعد ہونے والے اجلاس میں درجنوں صحافی مقررین نے مختلف القابات اور گالیوں سے نوازا اور ہمیں غدار قرار دیا ۔ابھی یہ سلسلہ شدت اختیار کر چکا تھا کہ اسی دوران جمعتہ المبارک کے دن ہمیں کشمیر پریس کلب میرپور کے صدر سید عابد حسین شاہ او ر مہربان دوست راجہ حبیب اﷲ خان نے درجنوں بار فون کر کے تاکید کی کہ ہم کشمیر پریس کلب میرپور پہنچیں اور میرپور ڈسٹرکٹ بار کے صدر چوہدری خالد رشید ایڈووکیٹ کی میڈیا کوریج کریں اور ان کا انٹرویو بھی ریکارڈ کریں ہم نے مذاقا شرط رکھی کہ ایک ہی شرط پر آئیں گے کہ ہمیں بھی تقریر کرنے کا موقع دیا جائے ہم پریس کلب گئے وہاں پر سینئر احباب حافظ محمد مقصود ،راجہ حبیب اﷲ خان ،سجاد خانپوری ،سجاد جرال ،سردار عابد سمیت مختلف شخصیات موجود تھیں اور صحافت اور وکالت کے متعلق زبردست گفتگو ہو رہی تھی ہمیں تقریر کا موقع ملا تو ہم نے صرف اتنا کہا کہ صحافت اور وکالت ایک جیسے پیشے ہیں اور اچھا وکیل اور صحافی وہی ہوتا ہے جو ظالم کو بے نقاب کرے اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو اور ایسے صحافی اور وکیل جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بناتے ہیں وہ شیطان کے ساتھی ہیں اس حوالے سے ہم نے اکبر الہ آبادی کا ایک شعر بھی نامکمل چھوڑ کر تقریر مکمل کر دی ۔ہمیں ضروری کام تھا ہم پریس کلب سے چلے آئے تھوڑی ہی دیر بعد ہمیں اطلاع ملی کہ کشمیر پریس کلب میرپور کے انتہائی ’’ پروفیشنل ،پڑھے لکھے ،تہذیب یافتہ ‘‘ سیکرٹری جنرل سجاد جرال نے یہ خبر جاری کی ہے کہ کشمیر پریس کلب میرپور نے ہماری رکنیت پانچ سال کے لیے معطل کرتے ہوئے پریس کلب میں ہمارے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے او رالزامات میں صرف یہ لکھا ہے کہ ہماری سرگرمیاں ’’ انتہائی پر اسرار ‘‘ ہیں ۔اس پر ہم نے پریس کلب کے آئین کی روشنی میں یہ بیان جاری کیا کہ پریس کلب کے کسی بھی معزز ممبر کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے معطل نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے شو کاز نوٹس ،جنرل کونسل کا اجلاس ،اپیل کا حق اور اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے جس کے لیے کم از کم چھ ماہ در کار ہوتے ہیں اور ہم قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں خیر ہم اپنی صحافتی اور پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں مصروف رہے اور ہم نے اس دوران سات ماہ کے عرصے میں وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید ،صدر آزادکشمیر سردار یعقوب خان ،وزیر امور کشمیر برجیس طاہر ،سیکرٹری کشمیر افیئرز و گلگت بلتستان شاہد اﷲ بیگ ،ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمن ،ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ،سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ،سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان ،سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان سے لے کر تقریبا ً دو سو سے زائد ہائی پروفائل شخصیات کے ٹی وی اور ریڈیو انٹرویوز ریکارڈ کر کے پوری دنیا میں نشر کیے اور اپنے کام سے ثابت کیاکہ صحافت کیا ہوتی ہے کچھ دوستوں کی کاوش سے رواں ہفتے خاکسار کی کشمیر پریس کلب میرپور کی معطل شدہ ممبر شپ بحال کی گئی اور ہمارے اچھے دوست کسٹوڈین کشمیر پریس کلب میرپور جنرل سیکرٹری سجاد جرال نے ہمارے سامنے دستخط کر کے ہمیں نوٹیفکیشن دیا جس کے مطابق یہ لکھا تھا کہ جنرل کونسل کے ممبران کی اکثریت نے تحریری طور پر ہماری رکنیت کی بحالی کی سفارش کی ہے اور ہماری رکنیت فوری طور پر بحال کی جا رہی ہے ہم نے اس پر سوشل میڈیا ،فیس بک اور ایس ایم ایس کے ذریعے پورے آزادکشمیر و پاکستان کے دوستوں کو اطلاع کی کہ ہماری پریس کلب کی ممبر شپ بحال ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ہم نے یہ جملہ تحریر کیا
’’ حق اور سچ کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے ‘‘ Truth always wins
اس پر دو روز قبل ہی ایک مقامی اخبار میں ہمارے انتہائی پڑھے لکھے ،پروفیشنل اور مہذب جنرل سیکرٹری کشمیر پریس کلب میرپور سجاد جرال نے ایک بیان شائع کروایا کہ جنید انصاری نے سوشل میڈیا اور اخبارات اور ایس ایم ایس کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ حق و سچ کی فتح ہوئی ہے اور پریس کلب کا موقف غلط تھا اور یہ حرکت پریس کلب کے قوانین کی خلاف ورزی ہے اس لیے جنید انصاری کی رکنیت ایک مرتبہ پر معطل کی جا رہی ہے ۔

قارئین بقول غالب ہم یہاں یہ کہتے چلیں شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلا ہوتا ہے
پرہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیئے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں اور بُرا ہوتا ہے
عشق کی راہ میں ہے چرخ مکوکب کی وہ چال
سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے

قارئین جس ملک میں کسی کا جرم جب منصفوں کی ذلف میں پہنچے اور حسن بن جائے ،جس دیس میں کالی صحافت اور پیلی جرنلزم کرنے والے نا خدا بن جائیں ،جس وطن میں حق کی آواز اٹھانے پر تازیانے اور کوڑے مقدر ٹھہریں اس وطن میں شاعر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے
اب یہ راز راز نہیں سب اہل گلشن جان گئے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام ِ گلستاں کیا ہوگا

قارئین علامہ اقبال ؒ نے اپنے شاہین بچوں کو یہ ہدایت کی تھی کہ
پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرہ افتاد
ایئر فورس سے تعلق رکھنے والے ہمارے بعض دوست اس شعر کو بدل کر کچھ یوں کہا کرتے تھے
کہ پر Featherدم Tailاگر جہاز میں ہو ں تو کریش لینڈنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا
ہمیں یوں لگتا ہے کہ آج کل کی کالی صحافت میں ایسے ہی لوگ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہوئے ایسے بے ہودہ انداز میں کام کر رہے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید قیامت تک اس دھرتی پر مونگ دلتے رہیں گے ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ فرعون ،قارون ،ہاماناور شداد جیسے لوگوں سے کوئی سبق سیکھیں رہی بات رکنیت کی بحالی کی یا معطلی کی تو بقول فیض یہ کہتے چلیں
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
نوجوان ادیب نے رسالے کے ایڈیٹر سے کہا کہ
’’ میں شائع کروانے کے لیے ایک کہانی لایا ہوں ‘‘
ایڈیٹر نے کہا
’’ پڑھ کر سنائیے ‘‘
نوجوان ادیب نے کہانی سنائی اورپھر پوچھا
’’ مجھے اس کے بدلے کیا ملے گا ‘‘
ایڈیٹر نے جل کر جواب دیا
’’ بھائی میں ایڈیٹر ہوں کوئی جج نہیں جو آپ کو سزاد وں ‘‘

قارئین ہمیں لگتا ہے کہ کشمیر پریس کلب میرپور کے عہدیداروں کی نشستوں پر صحافیوں کی جگہ جج بیٹھ گئے ہیں جو ہمارے جیسے گستاخوں کو سزا ئیں دیتے رہتے ہیں نہ وہ باز آئیں گے نہ ہم اپنی خو بدلیں گے ۔اﷲ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔آمین
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336260 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More