کیامیرے مُلک میں اِنسان اور ہیں اور اِنسانیت کسی اور چیز کا نام ہے ....؟؟

اگرچہ آج دنیا میں بسنے والاہر اِنسان اپنی شکل و صُورت ،سوچ و سمجھ، رہن وسہن، تہذیب و ثقافت، بول وچال، رنگ ونسل، زبان و مذہب، علاقہ و سرحداور اپنی جسمانی خدوخال کے لحاظ سے دوسرے اِنسان سے مختلف ضرور ہے مگر اِسے اِس سے انکار نہیں کرناچاہئے کہ اِس کو تخلیق کرنے والی صرف اﷲ رب العزت کی ہی ایک ذاتِ عظیم ہے جس نے اِسے تخلیق کیا اور دنیا میں بھیج دیااَب یہ اور بات ہے کہ بحیثیت اِنسان کوئی یہ نہ مانے کہ وہ رب کائنات اﷲ رب العزت کی تخلیق کردہ ہے اور ایک ہی باواآدم علیہ السلام کی اُولادہے،اور یہ سب مان لینے اور جان لینے کے باوجود بھی اپنی اکڑ اور اپنی ضداور اِنا کی بدولت اپنی پیدائش کی نسبت طرح طرح کے خودساختہ مضروضوں اور خیالات سے نتھی کرتاپھرے ،اور اپنی ساری عمراپنے ہی خیالی اور تصوراتی مضروضوں کوسچ گرداننے میں گزارکرخود بھی ایک دن دنیا سے ہی گزرجائے، اورپھراِس کا ساراکیا دھرایہیں دنیاہی میں رہ جائے اور اِس کا ساراغروراور گھمنڈخاک میں مل جائے پھربھی وہ اِس سے انکاری رہے کہ اِس کا تخلیق کارکون ہے...؟ایسے اِنسانوں کو فناہونے سے قبل اتنی سی بات سچے دل سے مان لینی چاہئے کہ اِنسان کی جو ایک اٹل حقیقت ہے وہ بس یہی ہے کہ اِسے اﷲ نے تخلیق کیاہے اور اِس کے کارخانے قدرت میں یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اورابد تک چلتارہے گااور جب تک یہ دنیاقائم رہے گی اوراِس روئے زمین کے جس خطے میں بھی اِنسان پیداہوتے رہیں گے سب اﷲ کے ہی پیداکئے ہوئے ہوں گے اور وہ ایک ہی باواآدم علیہ السلام کی اولادکہلائے جاتے رہیں گے۔

بہرحال....!آج میں جس معاشرے میں سانس لے رہاہوں اِسے مایوسیوں کی سیاہ چادر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے،جدھر بھی نظرجاتی ہے سوائے طرح طرح کے مسائل اور بحرانوں کے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتاہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ جیسے میر ے مُلک کے حکمرانوں اورکرتادھرتاؤں نے اپنی ناقص حکمت او رنادانی سے مُلک اور معاشرے کے ہر عمرکے لوگوں کو نااُمیدی اور مایوسی کے گہرے اندھیرے کنوئیں میں ڈھکیل دیاہے تب ہی میرامعاشرہ دوطبقات میں بٹ گیاہے ایک وہ طبقہ ہے جو اپنی چاپلوسیوں اور خوشامدسے حکمرانوں سے نوازہ ہوا ہے تو دوسراوہ غریب اور مفلوک الحال طبقہ ہے جِسے حکمران اِنسان ہی نہیں سمجھتے ہیں اَب ایسے میں مجھے اپنے اردگردسوائے چند ایک کے سب ہی اِنسان ، اِنسانوں کے روپ میں بھیڑیئے نظرآتے ہیں ،اورلگتاہے کہ جیسے میرے معاشرے میں بسنے والے اِنسانوں کا ایک دوسرے پر سے اعتباراُٹھ ساگیاہے، اَب اِن میں نہ تو کوئی اِنسان دکھائی دیتاہے اور نہ ہی میرے معاشرے میں کہیں اِنسانیت ہی نظرآتی ہے، مفادپرستی، عیب جوئی، سیاسی واخلاقی اور سماجی برائیاں جیسے کرپشن، اقرباء پروی، قتل وغار ت گری، لوٹ مار، ملاوٹ اورایسی ہی بہت سی دوسری برائیاں میرے معاشرے میں بسنے والے اِنسانوں کی رگوں میں رس بس گئیں ہیں،اور آج مجھے اِس سے بھی انکار نہیں ہے کہ میرے معاشرے میں ہراِنسان کے منہ میں 32دانتوں کے درمیان جو ایک گزبھر کی لمبی سی زبان ہے جِسے اُس کاکام جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرنے میں ہی گزرجاتاہے، یہ بھی معاشرے میں فساد کی سب سے بڑی جڑ بن گئی ہے۔

یہاں مجھے حضرت سعدیؒ کی کتاب حکایاتِ گُلستانِ سعدیؒ کی ایک حکایت یادآگئی ہے میں چاہتاہوں کہ اُسے اپنے پڑھنے والوں کے لئے بیان کروں حفرت شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک زمانے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ نے کسی بے گناہ قیدی کے قتل کا حکم دیازندگی سے مایوس ہوکرموت کی سزاپانے والابادشاہ کو بے تحاشاگالیاں دینے لگا،بادشاہ نے اپنے وزیروں سے پوچھایہ کیاکہتاہے، وزیروں میں سے ایک وزیرباتدبیرنے عرض کیاـــ’’ جہاں پناہ یہ کہتاہے کہ جو لوگ اپنے غصے کو مارتے ہیں اور آدمیوں کی خطابخشتے ہیں وہی دونوں جہاں میں محبوب ہیں، اﷲ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسندفرماتاہے‘‘اِس پر دوسرے وزیرنے جو پہلے وزیرسے دل میں کدورت اور بغض رکھتاتھااِس نے دوقدم آگے بڑھ کرچاپلوسی کے انداز میں کہا’’ جہاں پناہ...!بات ایسی نہیں ہے جیسی یہ میرے ساتھی وزیر بیان کررہے ہیں یہ آپ کا نمک کھاکرآپ سے جھوٹ بول رہے ہیں ، موت کی سزاپانے والے نے توآپ کو بڑی گندی گندی گالیاں دی ہیں‘‘دوسرے وزیر کی بات سُن کر( بادشاہ حیران ہونے کے بجائے) اِس نے جواب دیا’’ہمیں اِس کا جھوٹ پسندِ خاطرہے، وہ جھوٹ جس میں صلح اور اصلاح کی آمیزش ہواِس سچ سے بہترہے جو فسادبرپاکرے، اِس قیدی نے جو کچھ کہاہے اُس میں اِس کاکوئی قصورنہیں کہ زندگی سے مایوس ہوکرآدمی آگاپیچھانہیں دیکھتا،جو زبان پر آئے کہہ دیتاہے اور جو جی میں آئے کرگزرتاہے‘‘

معاف کیجئے گا...!آج میرے اِس مُلک اور معاشرے میں جہاں چندہی اِنسان اور اِنسانیت کے معیارپر پورااُترنے والے لوگ بستے ہیں اِنہیں اپنے مُلک اور معاشرے میں رہنے والے اِنسانوں کی صلح اور اصلاح کے لئے آگے آنے کی اَشدضرورت ہے تاکہ میرامُلک اور معاشرہ اِنسان اور اِنسانیت کا گہوارہ بن جائے پھر جہاں نہ فسنہ فساد ہوں اور نہ ہی کسی قسم کی ایسی سیاسی اور اخلاقی بُرائیاں جنم لینے پائیں جیسی کہ اِن دِنوں موجود ہیں، آج جب میں اپنے مُلک میں اِنسانوں کی سوچ وفکراور اِن کے حالاتِ زندگی پر نظرڈالتاہوں تو مجھے ایسے محسوس ہوتاہے کہ جیسے میرے مُلک میں بسنے والے اِنسان کسی اور دنیا (یادورِ جہالت یا ظہورِ اسلام سے قبل کے اِنسانوں) سے تعلق رکھنے والے افرادکے ہجوم پر مشتمل ہیں اِن نہ تو کوئی اِنسان ہے اور اِن میں نہ ہی کہیں سے اِنسانیت پائی جاتی ہے اَب ایسے میں میرے ذہن میں ایک سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ کیااِنسان اور ہیں اور اِنسانیت کسی اور چیزکا نام ہے...؟قارئین حضرات ...!میراآپ سے یہ سوال ہے اگر آپ کے پاس کوئی جواب ہے تو براہِ کرم مجھے ضرورمطلع کیجئے گا۔ (ختم شُد)

 
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889266 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.