میرا مُرشد (میرا استاد)

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
آجکل کے دور میں لفظ ـمُرشِداس قدر بدنام ہو چکا ہے کہ عوام ُالناس میں اس کا پرچار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔معاشرے میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کی وجہ سے لوگ لفظِ مُرشد کو فِقہی بُنیادوں پہ ماپنا شروع کر دیتے ہیں۔لیکن یہاں مرشد سے میری مراد ایک ایسا شخص ہے جس کے بارے ہم کبھی بھی یہ نہیں سوچتے کہ اُسکو مرشد کہنا چاہئے یا نہیں۔ ۔ ۔ حالانکہ میرے نزدیک اس سے اچھا کوئی مرشد نہیں۔مرشد تو وہ ہوتا ہے جو رشد و ہدایت سے نوازتا ہے،جوانسان کے لیے صحیح اور غلط کے راستوں میں فرق کرتا ہے اور ہمیشہ اچھے اور صحیح راستے کا انتخاب کرتا ہے اور وہ تمام ضروری ہدایات فراہم کرتا ہے جوانسان کے لیے اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی سودمند ہو۔ایک با عمل اُستاد میرے نزدیک ایک مرشد ہے۔جو اپنے شاگردوں کو تمام راہنُمائے کامل مہیا کرتا ہے تا کہ شاگرد کے قول و فعل سے اس کے استاد(مرشد) کی تربیت کا عکس نظر آئے۔

استاد کی عظمت بہت بلند ہے۔استاد کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے جیون خاں نے اپنی کتاب جیون دھارا میں واضح طور پر اپنی تمام تر کامیابیوں اور کامرانیوں کو اپنے اساتذہ کی توجہ اور ہمدردی کی مرہونِ منت قرار دیا ہے۔اسی طرح میں نے جب بھی استاد کے بارے میں سوچا تو میرے ذہن میں آیا:
؂استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تولواستاد تو ہر دور میں انمول رہا ہے۔

استاد معاشرے کا ایک اہم ترین رُکن ہے جو عوام الناس میں ایسے ہوتا ہے جیسا تاریک اور اندھیری دُنیا میں روشنی کا ایک مینار۔ ۔ ۔ ۔ جو خود بھی نمایاں ہوتا ہے اور دنیا کو بھی بغیر کسی غرض و غایت کے نور سے مُنور کرتا ہے۔

استاد کا مقام:
اگر ہمارے سامنے ماں اور باپ دونوں بیک وقت آ رہے ہوں تو ہم کہتے ہیں کہ وہ ہمارے والدین آ رہے ہیں لیکن اگر استاد ہمارے سامنے آ رہا ہو تو ہم برملا یہ کہ سکتے ہیں کہ وہ میرے والدین ہیں ہم والدین کی وجہ سے عالم ِبالا سے زمین پر آئے جبکہ استاد (مرشد) کی مہربانیوں کی وجہ سے زمین سے آسمان تک جا سکتے ہیں۔استاد کی عظمت کا اندازہ ہم یوں بھی کر سکتے ہیں۔

حضرت محمدﷺ خود فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘

استاد کا اور علم کا آپس میں ایک اہم اور گہرا تعلق ہے جوطالب کو مطلوب تک اور پیاسے کو کنویں تک لے آتا ہے۔علم حاصل کرنے کے حوالے سے فرمایا گیا ہے۔
’’الطلبُ العم فریضۃ علی کلِ مسلم‘‘
ترجمہ:علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد عورت) پر فرض ہے۔
پھر کہا گیا ہے۔
’’العلم نورٌ‘‘
ترجمہ:علم نور ہے۔

اس نور کو پانے کے لئے ہمارے پاس ایک مکمل نظام موجود ہے جس کے ذریعے ہم اس فیض سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ایک وقت تھا کہ جب علم حاصل کرنے کیلئے متعلمین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور سخت تگ و دو کرنا پڑتی تھی لیکن آج وہ دور نہیں ہے۔یہ روشنی کا دور ہے جس میں جہالت ختم ہو چکی ہے۔حالانکہ پہلے وقتوں میں حصول ِعلم کی اہمیت کے بارے کہا جاتا تھا:
’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘
(نوٹ:یہ عربی مقولہ کا ترجمہ ہے حدیث نہیں)

معزز قارئینِ کرام!
یہ میرے اساتذہ کرام اور مرشدانِ محترم کی عنایات کا نتیجہ ہے کہ آج میں اس قابِل ہوا ہوں کہ اپنے خیالات کا اظہار کر کے آپ سب کو استاد کا ادب کرنے ،حصول ِعلم اورعلم کی اہمیت کے حوالے دعوتِ پیغام دے رہا ہوں۔
Safdar Awan
About the Author: Safdar Awan Read More Articles by Safdar Awan: 5 Articles with 23036 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.