مسلم معاشرہ اورعلم کی طلب و جستجو

اسلامی نکتہ نظر سے علم وہ دولت لازوال ہے ہے جو آدمیت کو حقیقی شرف انسانیت سے آگہی عطا کرتا ہے۔ جملہ حیوانات میں انسانی شرف و امتیاز کی بنیادی وجہ بھی علم ہے۔دور حاضر اور ماضی قریب کے احوال و واقعات پر نگاہ دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم دنیا علم کے میدان میں دیگر معاشروں سے بہت پیچھے ہے۔ اس کی وجوہات اور اسباب میں ایک یہ بھی ہے کہ علم (Science) کی تعریف، غرض و غایت اور افادیت کو سمجھنے میں بھی ہم الجھن کا شکارنظر آتے ہیں۔ دینی مدارس میں علم سے مراد فقط قرآن و حدیث اور فکرِآخرت سے متعلقہ علوم و معارف ہیں تو دوسری طرف کے تعلیمی اداروں میں فقط دنیوی وعصری معلومات کا نام علم ہے۔ نتیجہ یہ کہ اول الذکر مسجد کی طرف منہ کرے تو جدید کالجز اور یونیورسٹیز کی طرف پیٹھ ہو جاتی ہے جبکہ فریق ثانی ان اداروں کی طرف منہ کرکے مسجد کی طرف پیٹھ کردیتا ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مثبت تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں مگر ابھی تک ناکافی ہیں۔ ہوا یہ کہ برصغیر میں برطانوی راج کے دوران مسلمانوں کو علوم اسلامیہ سے نابلد کرنے کیلئے کئی طرح کی حکمت عملیوں کو اختیار کیا گیا۔

(Lord mekale) لارڈ میکالے 2 فروری 1835 ؁ء کو برٹش پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں
"I have traveled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief. Such wealth I have seen in this country, such high moral values, people of such calibre, that I do not think we would ever conquer this country, unless we break the very backbone of this nation, which is her spiritual and cultural heritage, and, therefore, I propose that we replace her old and ancient education system, her culture, for if the Indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own, they will lose their self-esteem, their native self-culture and they will become what we want them, a truly dominated nation."
” میں نے انڈیا کے طول و عرض کا سفر کیا ہے۔ مجھے کوئی بھکاری یا کوئی چورنظر نہیں آیا۔ یس ملک میں بے بہا دولت ہے۔ ان لوگوں کی اخلاقی اقدار بہت بلند ہیں۔ یہ اتنے ذہین اور قابل لوگ ہیں کہ شاید اس وقت تک ہمارے لیے ان کو محکوم بنانا ناممکن ہو گا جب تک کہ ہم ان کی backbone(ریڑھ کی ہڈی) نہ توڑ دیں اور وہ ان کا روحانی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ اسی لئے میری تجویز یہ ہے کہ ہم ان کا موروثی اور پرانا نظام تعلیم اور کلچر تبدیل کردیں۔ یہاں تک کہ اس خطے کے رہنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ باہر سے آیا ہوا انگریزی کلچر اور تعلیم ہماری اپنی تعلیم اور کلچر سے کئی درجے ارفع و اعلیٰ ہے۔ اس طرح وہ اپنی عزت نفس، خود اعتمادی اور اپنی تہذیب و ثقافت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور ایسے ہی ہو جائیں گے جیسے ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہوں۔ اس طرح حقیقی معنوں میں وہ ہماری محکوم قوم بن جائیں گے“
جبکہ قرآنِ عزیز میں غور و حوض کرنے سے ایک دلچسب صورت حال سامنے آتی ہے کہ قرآن میں لفظ ”آیات“ عمومی طور پر دو معنوں میں آیا ہے۔ ایک تو چند مقامات پر قرآن پاک کی 6,666 ”آیات“کیلئے لیکن زیادہ تر یہ لفظ ِ ”آیات“ اس کائناتِ رنگ و بو اور زمین و آسمان میں بکھری ہوئی قدرت کی بیشمار نشانیوں کیلئے آیا ہے۔ پہلی ”آیات“ پر تحقیق و جستجو کے نتیجے میں دینی علوم و فنون میں مہارت نصیب ہوتی ہے اوردوسری ”آیات“ پر غور وتدبر کے نتیجے میں کیمسٹری، فزکس، بیالوجی، اسٹرانومی، جیالوجی، زووالوجی اور بیشمار دیگر علوم کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہ دونوں طرح کے علوم نہ صرف منشا قرآنی کے مطابق ہیں بلکہ ان کی طرف متوجہ ہو کرمشاہدات و تجربات اور تحقیق و تدبر کرنے کا بھی ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ شاید امت مسلمہ کے عروج سے زوال کے اسباب میں ایک یہ حکم عدولی بھی ہو۔ کہ ہم نے قرآن کی آیات کو تو آیات سمجھا لیکن دیگر آیات سے روگردانی کے مرتکب ہوئے۔
حضرت آدم علیہ السلام کے شرف و کرامت کو بھی علم کی طرف منسوب کرتے ہوئے ارشاد قرآنی ہے کہ ” اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو جملہ اسماء کا علم عطا فرمایا“۔ اسی طرح نبی کریمﷺ کے اعلان نبوت سے قبل کا معاشرہ بیشمار لغویات اور گمراہیوں میں مبتلاتھا۔ مذہبی حوالے سے بت پرستی عام تھی تو سماجی ابتری کی حالتِ زار یہ کہ اپنے ہی گھر میں پیدا ہونے والی بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتاتھالیکن ان کے ماتھے پہ پسینہ آتا اور نہ دل میں احساس ندامت تھا۔ حلال و حرام کی تمیز مٹ چکی تھی۔ کفر و شرک سمیت ان تمام برائیوں اور خرابیوں کیلئے ہمیشہ سے مورخین اور سیرت نگاروں نے اس دور کیلئے جو جامع لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے ”زمانہ جاہلیت“ (Time of ignorance)۔ اور اعلانِ نبوت کے بعد والا دو ر ”زمانہ اسلام“ کے نام سے موسوم ہوا۔ گویا اسلام کی اصل ضد ہے ہی جاہلیت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، جہاد اوردیگر احکامات کی حد درجہ اہمیت کے باوجود آغازِ وحی کیلئے ان میں سے کسی بھی حکم کی بجائے حکیم و خبیر رب ذوالجلال نے جس لفظ کا انتخاب کیاوہ ہے ” اقراء“ (Read)۔ گویا قرآن کا پہلا نازل ہونے والا لفظ ہی امت مسلمہ کے ہر فرد کو علم کی طلب و جستجو کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

نبی کریمﷺکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے احد پہاڑ کو سونا بنا دینے کی پیشکش ہوئی لیکن آپﷺ نے فقرِاختیاری کو پسند کیا اور فرمایا ”الفقر فخری“ کہ فقر و درویشی میں ہی میرا فخر ہے لیکن حکم ربانی سے جب دستِ دعا اٹھایا تو عرض کہ ” اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما ‘‘ (سورہ طہ۔ آیت 114)۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ” کہ ہم نے آپ کوہر اس چیز کا علم دے دیا جو آپ نہیں جانتے تھے“ علم کی عظمت ِشان کو واضح کرتے ہوئے ارشادِقرآنی ہوا کہ ”علم والے اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے“ حضرت علی شیرخدا رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے۔ رضینا قسمۃالجبار فینا لنا علم وللجہال مال ”کہ ہم اللہ کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ ہمیں علم سے نوازا اور جاہلوں کو مال دیدیا“ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے“

جب غزوہ بدر کے غیر مسلم قیدی مسلمانوں کے پاس آئے تو ان کی رہائی کیلئے آپﷺ نے ایک فیصلہ یہ فرمایا کہ دس دس مسلمان بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کردیں تو ان کو رہا کر دیا جائے گا۔ ظاہر ہے وہ علمِ دین تو نہیں جانتے تھے کیونکہ تھے ہی غیر مسلم۔ انہوں نے دنیوی علوم ہی لکھنا پڑھنا سکھانا تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کی اسلام میں علم کا مفہوم بہت وسیع ہے۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 219916 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More