گائے سے مکالمہ

رات کے سناٹے میں ھمارے دروازے پر بندھی پڑوسیوں کی گائے نے’’باں،باں‘‘ کر کے جب کوئی دسویں گیارہویں مرتبہ نیند کا بیڑہ غرق کیا تو ہم تلملا کر بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے ـ سونٹی پکڑی کٹ کھنے بیل کی طرح دوڑتے ہوئے گھر سے باہر نکل آئے ـ سوچا تو یہ تھا کہ گائے کو دو سونٹیاں جڑ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کریں گے ،لیکن پھر خیال آیا کہ ’’گائے بندھی ہے تو کیا ہوا ،پڑوسی تو کھلے ہیں ـ لہازا ہم نے ارادہ تبدیل کر دیا ـاور غصہ اور بے بسی کے عالم میں گائے کو گھورنے لگے ـ ابھی ہم اسے آنکھوں ھی آنکھوں میں بوٹی بوٹی کر کے کھا رہے تھے کہ اچانک ایک نسوانی آواز آئی ، ’’ایسے کیا دیکھ رہے ہیں ، کسی مونث کو تو چھوڑ دیا کریں ـ‘‘

اکثر شادی شدہ حضرات کے اصرار کے باوجود ہمیں چڑیلوں پر یقین نہیں ورنہ رات کے سناٹے میں آنے والی یہ آواز ہماری روح کی قفس عنصری سے پرواز کے لئے کافی تهی ۔ ہم نے حدود آرڈینینس کی حدود میں آنے والے ایک خیال کے تحت آواز '' منبع" کی تلاش میں چاروں طرف نظریں دوڑانا شروع کر دیں ۔ دور دور تک ہو کا عالم ، آدم نہ آدم ذات ۔پهر '' یہ سریلی آواز کہاں سے آئی '' ابهی ہم یہ سوچ ہی رہے تهے کہ وہی جادو سا جگاتی ہوئی آواز دوبارہ سماعت سے ٹکرائی ۔'' ادهر ُادهر کیا دیکه رہے ہیں ،حیرت کیسی ، ہم بهی منہ میں زبان رکهتے ہیں ۔'' اب جو ہم نے غور کیا تو پتہ چلا کہ گنگ و جمن میں ُدهلی اردو ہمارے سامنے کهڑی گندگی میں لتهڑی گائے بول رہی ہے ۔ ہم نے پوچها '' بهئی آپ نے یہ طوطے کی طرح بولنا کیسے اور کہاں سے سیکها ۔''

گائے : کافی عرصے ایک شاعر کے کهونٹے سے بندهی رہی ہوں ۔ وہاں چارہ کبهی کبهار ہی ملتا تها ، لہزا جگالی کا سلسلہ برقرار رکهنے کے لئے گهر میں موجود سارے ایوان اور ُلغتیں چبا ڈالیں ۔ میری خوش قسمتی کہ شاعر مجهے بهی اپنے مضامین کی طرح لاپرواہی سے باندهتا تها اور میں ایک جهٹکے سے رسی کهول کهال سارے گهر میں '' کتب خوری '' کرتی پهرتی تهی ۔
M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 26729 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.