نصیحت نامہ برائے وھیل اور ڈولفن

وھیل اور ڈولفن کو بَدھائی ہو کہ انھیں انسانی حقوق ملنے کا امکان ہے۔ ایک خبر کے مطابق فلسفے، قانون اور اخلاقیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا ایک گروپ ان آبی مخلوقات کو اس بنا پر انسانی حقوق دلوانے کے لیے کوشاں ہے کہ یہ ذہانت رکھتی ہیں۔ یہ گروپ انھیں شکار سے بچانے کے لیے قانون سازی کا خواہاں ہے۔

اگر یہ قانون سازی ہوگئی تو بی بی وھیل اور ڈولفن خاتون انسانی حقوق کے منشور کے تحت غلامی سے محفوظ ہوجائیں گی اور تالابوں میں انسانوں کو تماشے دکھانے کی بیگار سے نجات حاصل کرلیں گی۔ ان کی نجی زندگی میں دوسروں کی تاک جھانک کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اب پتا نہیں ان ننگی پَتنگی مخلوقات کی ’’نجی زندگی‘‘ ڈھانپنے کے لیے انھیں کپڑے فراہم کیے جائیں گے یا سمندر میں ان کے لیے چادر اور چار دیواری کا انتظام کیا جائے گا۔ انھیں نقل مکانی کا حق بھی مل جائے گا۔ سو جس طرح جنگل کا بادشاہ انڈا دے یا بچہ، اسی طرح وھیل اور ڈولفن کی مرضی ہوگی کہ سمندر میں رہیں چاہے خشکی پر بسیں۔ انھیں شادی کرنے کی آزادی بھی مل جائے گی، چناں چہ ضروری نہیں ہوگا کہ ان کی نوع کے نر اور مادہ آپس ہی میں بیاہ رچائیں، بل کہ وھیل اور ڈولفن کی مرضی ہوگی کہ وہ مَگرمچھ سے ناتا جوڑے یا اس کے جیون ساتھی بنیں ہاتھی گھوڑے۔ اور تو اور اگر وہ ذات پات اور اونچ نیچ پر یقین نہ رکھتی ہوں تو انسانوں سے بھی عقد فرما سکتی ہیں۔ ویسے انسان نما ایسے مگرمچھوں کی بھی کمی نہیں جو وھیل اور ڈولفن کے اچھے جیون ساتھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو ثانیہ مرزا کی طرح کتنی ہی ڈولفنیں اور وھیلیں بھابھی بنی پاکستان آرہی ہوں گی اور ہماری ’’قومی نند برائے غیرملکی دُلہناں‘‘ فردوس عاشق اعوان سمندر سمندر سفر کرکے بھابھیاں لارہی ہوں گی۔

انسانی حقوق کے منشور کی رو سے ان سمندری مخلوقات کو تنظیم سازی کا حق بھی مل جائے گا۔ چناں چہ ان کی، سماجی تنظیمیں، ٹریڈ یونینیں اور سیاسی جماعتیں قائم ہوجائیں گی، جیسے ’’وھیل ورکرز ایسوسی ایشن‘‘، ’’انجمن فلاحِ ڈولفناں‘‘، ’’تنظیمِ اصلاحِ اخلاقِ وھیلاں‘‘ وغیرہ۔ ظاہر ہے سیاسی جماعتیں بھی ’’دشت تو دشت تھے، دریا بھی نہ چھوڑیں گے ہم‘‘ کہہ کر وھیلوں اور ڈولفنوں میں اپنے ونگ قائم کرلیں گی۔ کیا منظر ہوگا جب دریائے سندھ میں تیرتی اندھی ڈولفنوں کے گروپ جلوسوں کی صورت میں نعرے لگاتے تیر رہے ہوں گے۔ کوئی گروپ بھنور کی سمت جاتے ہوئے نعرہ زن ہوگا، ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف ، ہم تمھارے ساتھ ہیں۔‘‘ کوئی گروہ مگرمچھوں کو دیکھ کر پُرجوش نعرے لگائے گا،’’اک زرداری سب پر بھاری۔‘‘ چند ڈولفنیں پانی میں ڈبکی لگائے ’’روس نے بازی ہاری ہے، اب امریکا کی باری ہے‘‘ کی گردان کررہی ہوں گی۔ اور کچھ بھٹکتی ڈولفنوں کے منہ پر نعرہ ہوگا،’’ہم کو منزل نہیں راہ نما چاہیے۔‘‘

ڈولفن اور وھیل کی زندگی میں سب سے بڑا انقلاب یہ ہوگا کہ انھیں اظہار رائے کی آزادی بھی میسر آجائے گی۔ اور یہی معاملہ سب سے نازک ہے۔ تو سُنو بھئی ڈولفن اور وھیل! اب تم انسانی حقوق سے سرفراز ہوکر ہماری برادری میں دستاویزی طور پر شامل ہورہی ہو توہمارا فرض ہے کہ تمھیں مانُس جاتی کے معاملات اور عالمی سماج کی اونچ نیچ سے آگاہ کردیں۔ وھیل اور ڈولفن بہنا! دیگر انسانی حقوق کے ساتھ تو تم جو بھی سلوک کرو مگر اظہار رائے کی آزادی کے معاملے میں محتاط ہی رہنا۔ ایسا نہیں کہ تمھارے اظہار رائے پر کوئی زیادہ قدغنیں ہوں گی، بالکل نہیں، بس کچھ ’’شجر ہائے ممنوعہ‘‘ ہیں جن سے تمھیں دور دور رہنا ہوگا، اگر کہیں ان اشجار کی جَڑ پر پاؤں رکھ دیا ، تنے پر خراش بھی ڈال دی یا شاخوں پر جھولنے کی کوشش کی تو یہ شجر ہائے ممنوعہ ایسی ہائے ہائے کریں گے کے دنیا بھر میں ہاہا کار مچ جائے گی اور عین ممکن ہے کہ اس جُرم کی پاداش میں تمھارے انسانی حقوق واپس لے کر تم سمیت سمندر بُرد کردیے جائیں۔ دیکھو! کسی بھی اہل مذہب کے پیش وا کی جی بھر کے تنقیص کرو، کسی کے مذہبی شعائر کا مذاق اُڑاؤ، تحقیق کے ذریعے لیلیٰ کو مرد اور مجنوں کو عورت ثابت کردو یا کالے کو سفید اور سفید کو کالا کر دکھاؤ، مگر خبر دار ’’ہولو کاسٹ‘‘ پر ہولا ہاتھ بھی نہ رکھنا اور اس کے بارے میں ذرا سا شک بھی دل میں آئے تو ہولے سے لاحول پڑھ کے خود پر پھونک لینا۔ ہولو کاسٹ کے متاثرین کے بارے میں کبھی یہ سوال نہ اُٹھانا کہ ’’کتنے آدمی تھے وہ‘‘ نہ گیس چیمبروں کی تعداد کی جستجو کرنا ۔ بس نازیوں کے متعلق ہالی وڈ کی فلمیں دیکھنا اور ان پر ایمان لے آنا۔ اور خبردار جو کبھی ہٹلر ملعون کی تعریف میں ایک لفظ بھی کہا۔ خود ہٹلر تو کجا اس کی پتلون، قمیص، جوتے اور بنیان کے بارے میں بھی کوئی نیک کلمہ تمھارے منہ پر نہ آئے۔ یوں بھی نہ کہنا کہ ہٹلر کی پھوپھی ساس کی نند کے خالو کے ساڑھو کا بھتیج داماد شریف آدمی تھا۔ بس:
تمھیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہو اتنا
کہ ہٹلر بس یہودی کُش تھا، ظالم تھا، جفا جو تھا

البتہ تم دیگر ہٹلر صفت حکم رانوں جیسے چنگیز خان، ہلاکو خان، نادرشاہ، جارج ڈبیلو بُش وغیرہ کی شان میں قصیدے بھی کہہ سکتی ہو۔

ایک بات اور ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ کو اسی نام سے پُکارنا اور اس کے دہشت گردی کے خلاف جنگ ہونے میں کوئی شک دل میں نہ لانا۔ ایسے بے تُکے سوال پوچھنے نہ بیٹھ جانا کہ نائن الیون میں مرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی یا عراق، افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں میں زیادہ لوگ مارے گئے۔ جانوں کی وقعت اور انسانی حقوق کا فرق ہمیشہ ذہن میں رکھنا۔

بس ان چند باتوں کا خیال رکھا تو تم مزے سے انسانی حقوق ’’انجوائے‘‘ کرتی رہو گی، بل کہ دنیا بھر کے کروڑوں انسان، جیسے فلسطینی، عراقی، افغان، کشمیری اور پاکستان کے چھترول زدہ اور مصائب کی زمین پر ماہیِ بے آب کی طرح تڑپتے عوام مطالبہ کریں گے کہ ہمیں ’’وھیلی‘‘ اور ’’ڈولفنی‘‘ حقوق دیے جائیں۔
M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 26764 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.