تحریک تکمیل پاکستان

معروف دانشور جناب حسنین کاظمی نے تحریک پاکستان کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ لکھا تھا کہ مولانا حسرت موہانی مسلم لیگ کے مخالف تھے اور انھوں نے تحریک پاکستان سے اپنے آپ کو الگ رکھا ہوا تھا ۔لیکن پھر انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور قائد اعظم سے ملاقات کے لیے اپنے شہر سے روانہ ہوئے تو ایک ساتھی نے پوچھا کہ اچانک یہ کیا ہو گیا کل تک تو آپ مسلم لیگ کی مخالفت کررہے تھے ۔انھوں نے جوب دیا مجھے خواب میں نبی کریمﷺ نظر آئے تھے انھوں نے یہ ہدایت کی ہے کہ میں پاکستان کے لیے کام کروں چنانچہ اس کے بعد حسرت موہانی بڑی سرگرمی سے تحریک پاکستان کے لیے متحرک ہو گئے ۔1946میں جب حسرت موہانی نے مسلم لیگ کو خیر باد کہا تو اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ کے اہم اجلاس میں انھوں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم پاکستان کا آئین پہلے سے تیار کرلیں تاکہ نئے ملک میں اول روز سے ہی آئین نافذ ہو جائے اجلاس میں ان کی یہ تجویز منظور نہیں ہوئی ،کہا گیا کہ ابھی ہم یکسوئی کے ساتھ جدوجہد کر کے پاکستان کے لیے زمین تو حاصل کرلیں پھر بعد میں اس میں آئین بھی بنالیں گے ۔حسرت موہانی نے کہا کہ بعد میں یہ کام نہیں ہوسکے گا اور اگر ہوگا بھی تو بہت مشکلات پیش آئیں گی ۔حسنین کاظمی صاحب لکھتے ہیں کہ اگر حسرت موہانی کی اس تجویز کو مان لیا جاتا تو آج ہمارا ملک سانحہ مشرقی پاکستان سمیت کئی اور سانحات سے محفوظ رہتا۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پوری امت مسلمہ ایک ایسے سانحے سے دو چار ہوئی جس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کی نفسیات پر بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں پر بالخصوص گہرے اثرات مرتب کیے وہ سانحہ خلافت کا سقوط تھا گو کہ اس سقوط میں اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا عمل دخل بھی تھا لیکن عام مسلمانوں کی خلافت کے ادارے سے چاہے وہ جیسا کچھ بھی تھا ایک جذباتی وابستگی قائم تھی ترکوں کی خلافت ختم ہوجانے کا جتنا غم خود ترکوں کو تھا اس سے کچھ کم یا زیادہ برصغیر کے مسلمانوں کو اس کا غم تھا یہاں پر اس سانحے کی شدت اتنی زیادہ تھی برصغیر کے مسلمانوں نے باقاعدہ تحریک خلافت کا آغاز کیا اور اس تحریک کی سربراہی گاندھی جی کے سپرد کی گئی بظاہر تو یہ بڑی عجیب بات لگتی ہے کہ مسلمانوں کی خلافت کا احیاء ایک ہندو کے ذریعے ہو لیکن اس وقت کے برصغیر کے جو سیاسی حالات تھے کہ انگریزوں کی حکومت تھی اور آزادی کی جدوجہد ہندو مسلمان دونوں مل کے کرتے ۔اس لیے یہ سوچا گیا کہ اگر صرف مسلمان یہ تحریک چلاتے ہیں تو انگریز سرکار انتہائی چالاکی سے اسے ہندو مسلم فساد میں نہ تبدیل کردے ۔خلافت تحریک ایک بھرپور تحریک تھی اور اس میں برصغیر کے مسلمانوں نے جان ومال کے ساتھ اس میں تعاون کیا لیکن کچھ عرصے بعد یہ تحریک ناکام ہو گئی جس کی وجہ سے بر صغیر کے مسلمانوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ۔

ان حالات میں آزادی کی جدوجہد بھی اپنے عروج پر تھی تحریک خلافت کی ناکامی کے اسباب کیا تھے یہ ہمارا موضوع نہیں ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ اگر ایک طرف مسلمان تحریک خلافت کی ناکامی پر افسردہ تھے دوسری طرف انھیں ہندوستان کی آزادی کی جدو جہد میں بھی اپنا مستقبل کچھ زیادہ روشن نظر نہیں آرہا تھا ،کہ اگر آزادی مل بھی گئی تو ہم ہندو اکثریت کے غلام ہو جائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ کچھ اور بھی چھوٹی چھوٹی تحریکیں چلیں جن میں ریشمی رومال تحریک ،خاکسار تحریک ،وغیرہ لیکن ان کے اثرات بہت محدود تھے اور یہ بری طرح ناکام بھی ہوئیں ۔ایک طرف ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا گلیمر دوسری طرف انگریزوں کی غلامی اور تحریک خلافت سمیت تمام چھوٹی بڑی کاوشوں کی ناکامی نے برصغیر کے مسلمانوں کو شدید قسم کی احساس کمتری میں مبتلاء کردیا تھا ۔

مسلمانوں کے اس نفسیاتی پس منظر میں جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو جیسے برصغیر کی مسلم اجتماعیت میں خوشگوار جذباتیت کی ایک لہر دوڑ گئی ۔اس تحریک پاکستان میں عام مسلمانوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر ساتھ دیا حالانکہ اس وقت مسلمانوں کی دینی و سیاسی قیادتیں دونوں مسلم لیگ کے خلاف تھیں لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہا اور پھر آزدی سے پہلے برصغیر میں جہاں بھی جو بھی اور جیسے بھی انتخابات ہوئے اس میں مسلم لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملنے لگی ۔برصغیر کی تقسیم کے جو اصول طے کیے گئے اس میں یہ تھا کہ مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان کو ملیں گے اور ہندو اکثریت والے ہندوستان کو ۔لیکن جو ریاستیں تھیں اس میں یہ طے ہوا کہ اس ریاست کا راجہ کوئی بھی ہو اس ریاست کے باشندوں کی اکثریت جو ہوگی اس کے مطابق اس ریاست کا الحاق ہو گا ۔ریاست حیدرآباد میں والی ریاست مسلمان تھا لیکن چونکہ آبادی کی اکثریت ہندوؤں کی تھی اس لیے یہ علاقہ بھارت کو ملا جب کے اس کے برخلاف ریاست کشمیر کا مہاراجا ہندو تھا جب کے آبادی کی اکثریت مسلمانوں کی تھی اس لیے اصول کے مطابق کشمیر پاکستان کو ملنا چاہیے تھا لیکن ریڈکلف ایوارڈ میں مسلم لیگ کی طرف سے کمزور نمائندگی جو ایک قادیانی کے ہاتھ میں تھی کی وجہ سے گورداس پور کا علاقہ ہندوستان کو دے دیا گیا جہاں سے ہندوستان نے اپنی فوجیں داخل کر کے کشمیر پر قبضہ کرلیا اور پاکستان کی شہ رگ کو پاکستان سے کاٹ دیا گیا ۔اس طرح سے ایک نامکمل پاکستان آزاد ہوا۔

تحریک پاکستان جن نعروں کی بنیاد پر چل رہی تھی اس میں ایک اہم نعرہ یہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اﷲ قانون ریاست کیا ہوگا محمد الرسول اﷲ ۔لے کے رہیں گے پاکستان بٹ کے رہے گا ہندوستان ۔مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔اس طرح پاکستان کا قیام دراصل ایک نظریاتی مملکت کا قیام تھا کہ اﷲ کے نام پر جو سرزمین حاصل کی جارہی ہے اس میں اﷲ کا قانون نافذ ہو گا ۔نظریاتی طور پر یہ ایک مکمل پاکستان کی تصویر تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد کلمہ کی بنیاد پر اس ریاست کا قیام ایک خواب ہی رہا اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو جس نظریے کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا ۔وہ نظریہ نافذ نہ ہو سکا اس لیے اس اعتبار سے بھی یہ ایک نامکمل ملک ہے ۔

قیام پاکستان کے بعد اپنوں کی سازشوں اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے چوبیس سال بعد یہ ملک ٹوٹ گیا اور ہمار ایک بازو ہم سے کٹ گیا ۔اس طرح کشمیر کے نہ ملنے کی وجہ سے سے ایک نامکمل پاکستان اور آدھا ہو گیا ۔

21,22,23نومبر کو مینار پاکستان لاہور میں جماعت اسلامی کا جو تین روزہ اجتماع عام ہو رہا ہے جس میں پورے ملک سے لاکھوں افراد شریک ہو ں گے ،اس کا عنوان ہی تکمیل پاکستان رکھا گیا ہے اس اجتماع سے ایک تحریک کا آغاز ہو گا جو تحریک تکمیل پاکستان کی تحریک ہو گی ۔

آج پاکستان اپنی نظریاتی اور جغرافیائی حدود دونوں کے اعتبار سے نامکمل ہے جغرافیائی اس طرح کے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہے کشمیر جو پاکستان کو ملنا چاہیے تھا وہ بھی بھارت کے قبضے میں ہے اور نظریاتی اعتبار سے اس طرح کے اسلام کے نام پر اس ملک کو حاصل کیا گیا تھا اور ابھی تک اسلام نافذ نہ ہو سکا امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق نے اس اجتماع کی بنیادی تھیم اسی چیز کو رکھا ہے ہے کہ اس وقت نہ نئے پاکستان کی ضرورت ہے نہ کسی اور پاکستان کی بلکہ ضرورت ہے تو ایک مکمل پاکستان کی۔ اس اجتماع عام کے بعد تحریک تکمیل پاکستان کی مہم چلائی جائے گی اصلاَ تو اس مہم کا بنگلا دیش سے آغازہو گیا کہ آج وہاں جن لوگوں کو پھانسی کی سزائیں دی جارہی ہیں ،وہ تکمیل پاکستان ہی کی سزا ہے کہ جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنماؤں پر یہی تو الزام ہے کہ انھوں نے ایک مکمل پاکستان کی بقا کے لیے جدو جہد کی تھی اور آج اسی جدوجہد کی وجہ انھیں پھانسی کے پھندوں کو چومنا پڑرہا ہے ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37620 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.