واہگہ بارڈر پر دہشت گردی‘ خفیہ ہاتھ بے نقاب کرنے کی ضرورت

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

لاہور میں واہگہ بارڈر کے قریب خودکش حملہ سے 60سے زائد افراد کے جاں بحق اور بیسیوں افراد کے زخمی ہونے وانے افسوسناک واقعہ نے اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کو شدید صدمہ سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ واقعہ آٹھ محرم الحرام کو ایسے وقت پیش آیا ہے جب پورے ملک میں ہائی الرٹ تھا اور تمامتر سکیورٹی ایجنسیاں اورا دارے تخریب کاری و دہشت گردی کے واقعات روکنے کیلئے پوری طرح مستعد تھے۔سکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ پر وزارت داخلہ نے تین چار دن پہلے ہی الرٹ جاری کیا تھا کہ دہشت گرد واہگہ بارڈر ، امام بارگاہوں اور دیگر مختلف حساس مقامات پر تخریب کاری کی کاروائیاں کر سکتے ہیں‘ تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اس خوفناک منصوبہ بندی کی اطلاعات منظر عام پر آنے کے باوجود دہشت گرد اپنے مشکل ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے محرم الحرام میں عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی بجائے واہگہ بارڈر تقریب دیکھنے کیلئے آنے والے محب وطن پاکستانیوں کو نشانہ بنایا اور ہر طرف تباہی پھیلا دی۔ دہشت گردی کی اس واردات میں پندرہ سے پچیس کلو وزنی دھماکہ خیز مواد پر مبنی خودکش جیکٹ استعمال کی گئی جس میں بال بیرنگ کی بڑی تعداد، لوہے کے کیل، پیچ اور ٹکڑے استعمال کئے گئے تھے جس کی وجہ سے اس قدر جانی نقصان ہوا۔ خودکش حملہ کے بعد ہر طرف انسانی اعضاء بکھر گئے اور خون و دھواں پھیل گیا‘ زخمی درد سے کراہتے اور چیخ و پکار کرتے رہے۔دھماکہ کی آواز کئی میل دور تک سنی گئی۔ اطلاعات کے مطابق واہگہ بارڈر پر پاکستانی پرچم اتارنے کی تقریب میں چھ ہزار سے زائد افراد موجود تھے۔ جونہی تقریب ختم ہوئی ‘ لوگ اﷲ اکبر اور پاکستان زندہ باد کی صدائیں بلند کرتے خو ش و خرم گھروں کی طرف واپس لوٹ رہے تھے کہ اس دوران خود کش جیکٹ پہنے بمبارنے خود کو دھماکہ سے اڑا لیا۔ اس افسوسناک سانحہ کی اطلاع ملنے پر رینجرز اہلکاروں، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور ریسکیو 1122کے رضاکاروں کی بڑی تعداد موقع پر پہنچ گئی اور لاشوں وزخمیوں کو گھرکی ٹرسٹ ہسپتال منتقل کر نا شروع کر دیا۔حادثہ اتنا بڑا تھا کہ گھرکی ہسپتال میں جگہ اور ڈاکٹروں کے عملہ کی شدید کمی دیکھنے میں آئی جس پر بیشتر زخمیوں کو شالامار، سروسز اور میو ہسپتال منتقل کیاجاتا رہا۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرؤف جو موقع پر پہنچ کر بذات خود تمامتر امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے رہے ‘میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کئی زخمیوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ ان کے جسمانی اعضاء شدید متاثر ہوئے ہیں‘ خون بہت بہہ چکا اس لئے جانی نقصان مزید بڑھ سکتا ہے۔واہگہ بارڈ پر پریڈ کی تقریب دیکھنے کیلئے لوگ دور دور سے یہاں آتے ہیں۔دھماکہ میں بھی جتنے لوگ شہید ہوئے ہیں ان میں سے پانچ کا تعلق کراچی، سات کا سمندری،تین کا پشاور،ٹنڈو آدم اوردوسرے علاقوں سے تھا۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی ہدایات پر ایف آئی ایف کی جانب سے کراچی و دیگر بیرون شہروں سے تعلق رکھنے والے نو افراد کی جامع مسجد القادسیہ میں نہ صرف نماز جنازہ ادا کی گئی بلکہ ان افراد کی نعشیں ان کے گھروں تک پہنچانے کا مکمل بندوبست کیا گیا جو کہ یقینا لائق تحسین امر ہے۔ گھرکی ہسپتال انتظامیہ کے مطابق فلاح انسانیت کے رضاکاروں کی جانب سے زخمیوں کیلئے خون کے عطیات دینے میں بھی بے مثال جذبہ کا مظاہر ہ کیا گیا۔ بہرحال اس حساس جگہ پر دھماکہ سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس بات کا بھی خدشہ ظاہرکیاجارہا ہے کہ دہشت گرد کسی قریبی گاؤں میں پہلے سے موجود تھے جنہوں نے واہگہ کی مکمل ریکی کی اور پھر منظم منصوبہ بندی کے بعد حملہ آور ہوئے۔اگر واقعی یہ بات اسی طرح ہے تو یہ مقامی افراد کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔آپریشن ضرب عضب اور تحریک طالبان میں پھوٹ پڑنے سے اس کے مزید گروہوں میں تقسیم ہونے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ دہشت گردوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کمزور ہو چکا ہے اور وہ اس قابل نہیں رہے کہ کسی جگہ پر کوئی بڑی کاروائی کر سکیں مگر حالیہ واقعہ نے ان تمام اطلاعات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ حالیہ خود کش حملہ کی ذمہ داری اگرچہ طالبان کے مختلف گروہوں جنداﷲ اور جماعت الاحرار وغیرہ نے قبول کی ہے مگر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ پاکستان میں فورسزپر حملوں، مساجدومدارس ، امام بارگاہوں اور پبلک مقامات کو نشانہ بنائی جانے والی ان کاروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی را، سی آئی اے اور موساد کے کردار کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔مختلف تنظیموں کا ذمہ داری قبول کرنا تحقیقاتی اداروں کو دھوکہ دینے کیلئے بھی ہو سکتا ہے۔بھارت میں جب سے ہندو انتہا پسندتنظیم بی جے پی برسراقتدار آئی ہے اور ہزاروں مسلمانوں کا قاتل نریندر مودی وزیر اعظم بنا ہے کنٹرول لائن پر جھڑپوں، آبی دہشت گردی، بلوچستان وسندھ میں تخریب کاری اور علیحدگی کی تحریکیں پروان چڑھانے کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔بھارت کو جب سے یہ یقین ہوا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے بری طرح شکست کھا کر واپس نکل رہے ہیں اس نے اتحادی ممالک کی شہ پر وطن عزیز پاکستان میں پراکسی وار تیز کر رکھی ہے اور بم دھماکوں و دہشت گردی کے ذریعہ عدم استحکام کی فضا پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ پاکستانی ادارے یہیں پر الجھے رہیں اوروہ اپنی سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔بعض عسکری ماہرین اس دھماکہ کے پلانٹنڈ ہونے کا بھی شبہ ظاہر کررہے ہیں اورا س بات کا بھی خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ بھارت سے آنے والے ٹرکوں میں سے کسی میں بارود کر نہ بھیج دیا گیا ہو یہی وجہ ہے کہ سکیورٹی ایجنسیاں بھارت سے تجارتی سامان لانے والے ٹرک ڈرائیوروں کے کوائف جمع کر کے تفتیش کا دائرہ وسیع کر رہی ہیں۔ جن تنظیموں کے ذمہ داری قبول کرنے کے حوالہ سے نام سامنے آرہے ہیں ان کے بھی بیرونی ایجنسیوں سے تعلقات کی باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔اس لئے ہمیں کسی قسم کی مصلحت پسندی سے کام لینے کی بجائے پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی کے حوالہ سے بھارتی کردار کو ان کیمرہ اجلاسوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اسے بین الاقوامی برادری کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے۔لاہور میں ہونے والے بم دھماکہ پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مگرمچھ کے آنسو ہیں۔ دو دن پہلے تک بھارتی حکومتی اہلکار اپنی زبانوں سے پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کیلئے جو دھمکیاں دیتے اور زہر اگلتے رہے ہیں قوم ابھی تک اسے بھولی نہیں ہے۔ پاک فوج اور دفاعی اداروں نے اﷲ کے فضل وکرم سے نائن الیون کے بعد بھارت، امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی سازشوں کا اکیلے مقابلہ کیا ہے۔جب جنگیں ہوتی ہیں تو نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مایوس اور پریشان ہونے کی بجائے قوم کے مورال کو بلند رکھنے کی ضرورت ہے۔ اتحادی شکست کھا کر یہاں سے محفوظ واپسی کے راستے تلا ش کر رہے ہیں۔ ان کے خطہ سے نکلنے کے بعد بھارت کو پاکستانیوں کے بہائے جانے والے خون کاحساب دینا پڑے گا‘ تخریبی کاروائیوں کے یہ سلسلے بہت جلد دم توڑ جائیں گے اور بھارت کے سر پر جس بات کا خوف سوار ہے وہ سب کچھ ان شاء اﷲ ہو کر رہے گا ۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 126599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.