الفاظ اپنی قیمت وصول کرتے ہیں

کل ایک لمبے عرصہ کے بعد مجھے اپنے عزیز دوست اور ہم جماعت مرزا مبشر بیگ سے ملنے کا موقعہ ملا تو دونوں نے کافی دیر اپنے ماضی ،حال اور مستقبل کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔ دوران گفتگو ان کے والد محترم اور میرے نہایت ہی شفیق ،مہربان استاد مکرم مرزا محمد طاہر بیگ اور مرزا اطہر بیگ کی زندگی کے گراں قدر مخفی گوشوں سے بھی آشنائی ہوئی۔مرزا اطہر بیگ کا شمار ہمارے ملک کے چند چوٹی کے سخن وروں میں ہوتا ہے۔مرزا اطہر بیگ ڈرامے بھی لکھتے ہیں لیکن انکی پہچان ناول نگار سے ہوئی۔ غلام باغ ، سمیت بہت سے دیگر ناول بھی لکھ چکے ہیں ۔

دوران گفتگو مرزا مبشر بیگ نے کہا کہ بھائی انور ! ’’ہماری زبان سے جو الفاظ ادا ہوتے ہیں وہ ہم سے انکی قیمت وصول کرتے ہیں‘‘ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں بار بار نصیحت کی گئی ہے اور ہم بھی اپنے بال بچوں کو یہ نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ ’’ زبان سے سوچ سمجھ کر بات کہا کریں ‘‘ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون سے گھڑی اور لمحہ قبولیت کا ہوتا ہے…… ایسا نہ ہو کہ ادھر زبان سے بات کہی اور ادھر سے پوری ہوجائے۔ ہمارا دین مبین بھی ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ کچھ کہنے سے پہلے سوچو بنا سوچے سمجھے کچھ نہ کہو کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کہے الفاظ آپ کے گلے پڑ جائیں۔

ایک نہیں دو نہیں بیشمار واقعات کتابوں میں بھرے پڑے ہیں کہ فلاں نے تکبرانہ انداز میں فلاں کو حقیر جانا اور چند ماہ بعد ہی وہ متکبر خود حقیر سا ہوگیا……ذوالفقار علی بھٹو نے احمد رضا قصور ی کے بارے میں ایف ایس ایف ( فیڈرل سکیورٹی فورس) کے ڈی جی مسعود محمود کو کہا کہ ’’ قصوری کو فکس اپ کردو‘‘ دیکھا سب نے بھٹو صاحب خود کیسے فکس اپ ہوگئے؟ جنرل ضیا الحق نے طاقت کے نشے میں مخمور ہوکر خلق خدا کو کیڑے مکوڑوں کی طرح ٹکٹکیوں کے ساتھ باندھا ان کی پیٹھوں پت کوڑے برسائے اور کوڑے لگنے سے مخلوق خداکی چیخیں عوام کو سنا کر خوف زدہ کرنے کے لیے ٹکٹکی پر باندھے شخص کے منہ کے ساتھ مائیک لگا دیا جاتا تھا،لیکن سب نے دیکھا خدا نے اسے دنیا جہاں کے لیے عبرت بنا دیا۔

جنرل ضیا نے اپنے دور میں نہ جانے کتنی ماؤں کے لخت جگروں کو ان سے جدا کیا اور انکا آج تک اتہ پتہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکا ……آج اسکی خود اولاد ٹکے ٹوکری ہوئی پھرتی ہے۔جنرل ضیا نے بے نظیر بھٹو اور انکی والدہ محترمہ بیگم نصرت بھٹو کو بے راہ رو اور گمراہ کہا زمانہ دیکھ رہا ہے کہ آج اسکا اپنا کنبہ سیاسی طور پر گمراہی کے گپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھر رہا ہے۔

عمران خاں کی جو آج پتلی حالت ہے اس کے ذمہ دار بھی اسکا متکبرانہ انداز گفتگو ہے۔ بے نظیر بھٹو سے نفرت اس لیے تھی کہ وہ انکی کلاس فیلو تھی مگر ان سے سیاسی طور پر آگے نکل گئیں تھیں بس یہ گنوارہ نہیں تھا ،اپنے خاں صاحب کو…… ایسا ہی طرز عمل سیدہ عابدہ حسین کا بھی تھا……خیال کیا کرتی تھیں کہ وہ بے نظیر بھٹو سے زیادہ لکھی اور پڑھی ہے، بے نظیر سے بڑی جاگیردار ہوں……مال پیسے کی بھی کمی نہیں ، لیکن بیگم عابدہ حسین بے نظیر بھٹو کی قیادت تسلیم کرکے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئیں بے نظیر بھٹو نے انہیں عزت دی تکریم بخشی …… آج دونوں میاں بیوی اپنی بیٹی صغرا امام سمیت سیاست کے افق پر دور دور دکھائی نہیں دیتے لیکن بے نظیر کا بیٹا پاکستان کے سیاست کے آسمان پر جگمگا رہا ہے۔

میں زندہ روشن مثال ہوں اور ایک کھلی ہوئی کتاب ہوں جو لوگوں کے بچوں کے نالائق کہتے نہ تھکتا تھا اور اپنے بچوں کو انتہائی لائق فائق ذہین اور فطین قرار دیتا تھا …… آج لوگوں کے بچے لائق ،فائق ،ذہین اور فطین بن گئے ہیں اور میرے بچے ……نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔انکا روگ لیے بیٹھا ہوں اور اپنے کہے ہوئے الفاظ کی قیمت ادا کر رہا ہوں…… مجھے اپنے دوست مرزا مبشربیگ کی باتوں پر پورا یقین ہے کہ الفاظ لازمی انسان سے اپنی قیمت وصول کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ جس انسان نے بھی متکبرانہ انداز گفتگو اپنایا اور دوسرے کو حقیر جانا……کسی کا غریب ہونے کے باعث تمسخر اڑایا …… اپنی دولت بے شک حرام کی کمائی ہی کیوں نہ ہو پر گردن میں اکڑا پیدا کیا تو اﷲ تعالی کی جانب سے اسے زبان سے کہے ہوئے اور اپنی باڈی لینگویج سے یا اپنے کردار کی زبان سے ادا کیے گئے الفاظ کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔

ابھی کل کی بات ہے کہ اسلام آباد پر قبضے کی خواہش دل میں لیے دھرنوں کے نام پر اسلام آباد میں داخل ہونے والے علامہ طاہر القادری اور کپتان عمران خاں اپنے جوش خطابت میں نہ جانے کیا کیا دعوے کرتے رہے ۔پھر واپس لیتے رہے آخر کار علامہ طاہر القادری سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کنیڈا پہنچ چکے ہیں اور عمران خاں پس و پیش کی صورت حال میں مبتلا ہیں۔

اس لیے ہمیں بار بار نصیحت کی گئی ہے کہ اپنی نظریں جھکا کر اور گردن کو لچک دیکر رکھو اس کے ساتھ ساتھ زبان کے استعمال میں بھی ایک تسلسل کے ساتھ احتیاط برتنے کی ہدایات موجود ہیں ۔لیکن اس سب کے باوجو د ہم ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں اور جو جی اور من میں آتا ہے آؤل فول بکتے جاتے ہیں…… لیکن جب الفاظ کی قیمت اپنی گرفت میں لیتی ہے تو پھر کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144191 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.