سمندری طوفانوں کے نسوانی ناموں کی حقیقت اور دلچسپ تاریخ

دنیا بھر میں سمندری طوفانوں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسے کہ آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندری طوفان “ نیلوفر “ کا شور برپا ہے- دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثریت سمندری طوفانوں کو خواتین کے ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے- ایک اتفاق یہ بھی ہے کہ مردانہ ناموں کے طوفان عموماً کمزور اور ناتواں ثابت ہوئے ہیں اور ان کا ذکر کم کم ہی سننے میں آتا ہے، جب کہ نسوانی ناموں کے کئی طوفان اپنی تباہ کاریوں کے سبب بڑا خوف و ہراس پھیلا چکے ہیں۔
 

image


کسی بھی طوفان کا نام رکھنے کے حوالے سے جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم سارک کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہے، جس کے تحت گزشتہ طوفان کا نام بھارت نے تجویز کیا تھا، اس مرتبہ پاکستان کی باری تھی اور آئندہ آنے والے کسی بھی طوفان کا نام سری لنکا تجویز کرے گا۔

مشہور سمندری طوفانوں میں اب تک کیٹرینا ، سونامی ،ہد ہد، باربرا، فلورنس، ہیزل، ڈولی شامل ہیں اور اب نیلوفر نامی طوفان دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہا ہے ۔ ماہرین اسے پہلے اے کیٹیگری کا طوفان گردانتے رہے مگر اب اس کی شدت مسلسل کمی واقع ہورہی ہے ۔

سمندری طوفانوں کے یہ عجیب اور منفرد نام رکھنے کی روایت تقریباً 100سال قبل پڑی اور اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ طوفان آنے کی صورت میں خطرات اور دیگر خبروں سے آگاہ رہنے میں آسانی رہے۔یعنی کوئی ایسا نام رکھا جائے جو زبان عام بھی ہو اور اس کی شدت کو بھی مانیٹر کیا جا سکے-

وائس آف امریکہ نے سمندری طوفانوں کے ناموں کی تاریخ کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ انیسویں صدی کے شروع تک سمندروں میں جنم لینے والے طوفانوں کا صرف ایک ہی نام ہوتا تھا۔۔۔ یعنی طوفان۔۔۔۔ لیکن بعد میں آسٹریلیا کے ایک سائنس دان کلیمنٹ لنڈلی ریگ نے پہچان کے لیے ان کے نام رکھنے شروع کیے۔ یہ نام یونانی الفاظ، الفا ، بیٹا اور گاما جیسے ہوتے تھے۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک نہ چل سکا۔
 

image

دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941 میں جارج سٹورڈ کے ناول ’سٹارم‘ نے بڑی شہرت پائی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ناول سمندری طوفانوں کے نسوانی نام رکھنے کی تحریک بنا۔ کسی طوفان کو ملنے والا پہلا نسوانی نام ’ایلس ‘ تھا جو 1953 میں رکھا گیا۔ اس کے بعد 1972 تک سمندری طوفانوں کے زیادہ تر نسوانی نام ہی رکھے جاتے رہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طوفانوں کے نسوانی نام ماہی گیروں سے متاثر ہوکر رکھے گئے کیونکہ ان کی زیادہ تر کشتیوں کے نام نسوانی ہوتے ہیں۔

لیکن 1973 میں اس فہرست میں مردانہ نام بھی شامل کردیے گئے۔ اور پھر آنے والے برسوں میں موسمیات کے عالمی ماہرین نے نام رکھنے کا ایک طریقہ کار وضع کیا، جس پر باقاعدگی سے عمل کیا جارہا ہے۔

ناموں کی موجودہ فہرست میں عورتوں اور مردوں کے ناموں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ چونکہ سال بھر کے دوران کئی طوفان متوقع ہوتے ہیں، ان کی شناخت کے لیے ماہرین نے ناموں کی ایک فہرست بنا رکھی ہے جسے حروف تہجی کی ترتیب سے استعمال کیا جاتا ہے۔

انگریزی حروف تہجی کے لحاظ سے بنائی جانے والی اس فہرست میں کیو، یو، ایکس ، وائی اور زیڈ سے شروع ہونے والا کوئی نام موجود نہیں ہے۔ چنانچہ یہ فہرست 21 ناموں پر مشتمل ہے۔
 

image

ایک سال کے دوران عموماً دس سے 12 تک طوفان آتے ہیں، لیکن اگر ان کی تعداد 21 سے بڑھ جائے تو پھر اس کے نام کے لیے یونانی زبان کے الفاظ الفا، بیٹا اور گاما وغیرہ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

سائنس دانوں نے بڑے سمندروں میں اٹھنے والے طوفانوں کے ناموں کی چھ سال کی فہرستیں مرتب کر رکھی ہیں جن میں سے ہر ایک میں 21 نام شامل ہیں۔ ساتویں سال پہلے سال کی فہرست دوہرائی جاتی ہے۔ گویا 2014 کی فہرست کے نام 2020 میں دوبارہ استعمال میں آئیں گے۔

موسم اور کئی دوسرے عوامل سے سمندروں اکثر میں ہیجان پیدا ہوتا ہے، مگر سائنس دان اسے طوفان کا نام اس وقت دیتے ہیں جب اس کی ہواؤں کی رفتار 39 میل فی گھنٹہ ہو جائے۔جس کے بعد اسے ترتیب کے مطابق اس سال کی فہرست کا نام دے دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سال کے پہلے طوفان کا نام اے سے ہوگا، جب کہ دوسرا طوفان کے نام بی سے اور تیسرے کا سی سے شروع ہوگا۔

جب سمندری طوفان میں ہواؤں کی رفتار 74 میل فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ جاتی ہے تو اس کا درجہ موسمی طوفان یعنی ٹراپیکل سٹارم سے بڑھا کر ہری کین کردیا جاتا ہے۔ ہری کین کے ناموں کی کوئی الگ فہرست نہیں ہے ۔ کیونکہ ٹراپیکل سٹارم ہی ہری کین بنتا ہے، اس لیے موسمی طوفان کا نام ہری کین سے جڑ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہرکین سینڈی، جو شروع میں ٹراپیکل سٹارم سینڈی تھا۔
 

image

بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے سمندری طوفان کا نام فہرست سے خارج کر کے اسی حرف سے شروع ہونے والا دوسرا نام رکھ لیا جاتا ہے۔ اس عمل کو نام کا ریٹائر کرنا کہا جاتا ہے۔ جیسے کیٹرینا اور الین کے نام ریٹائر کیے جاچکے ہیں۔ نام ریٹائر کرنے کا کوئی مخصوص پیمانہ مقرر نہیں ہے۔ عموماً 50 سے زیادہ انسانی جانیں نگلنے والے طوفان کا نام ریٹائر کیا جاتا ہے، لیکن اس کا فیصلہ ہر سال کے شروع میں موسمیات کے سائنس دانوں کی عالمی کانفرنس میں کئی پہلوؤں پر سوچ بچار کے بعد ہوتا ہے۔

قوانین کے مطابق ہر ملک اپنے قریبی سمندر میں طوفان کی صورت میں قبل از وقت نام بھجوا سکتا ہے ، عالمی محکمہ موسمیات اور طوفانوں کو مانیٹر کرنے والا ادارہ اس نام کو منظور کرتا ہے ۔ اب تک پاکستان نے اپنے ساحلی علاقوں کی جانب بڑھنے والے طوفانوں کے پانچ نام پیش کئے جن میں ایک نیلوفر بھی تھا۔ اسی طرح نرگس نامی نام بھی تجویز کیا گیا ہے جبکہ بھارت نے بجلی ، تہلکہ نامی نام تجویز کر رکھے ہیں ۔اسی طرح ہد ہد طوفان کا نام عمان نے تجویز کیا تھا۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Experience shows that the use of short, distintive given names in written as well as spoken communications is quicker and less subject to error than the older more cumbersome latitude-longitute identification methods. These advantages are specially important in exchanging detailed storm information between hundres widely scattered stations, coastal bases, and ships at sea.