چاول ‘برفی اور لڈو

ٹرین کے ایک پورے ڈبے میں برات بیٹھی تھی ایک غیر آدمی کو جب کہیں جگہ نہ ملی تو وہ بھی ٹرین کے اس ڈبے میں آکے بیٹھ گیا۔ ٹرین چل پڑی ۔کچھ دیر بعد براتیوں نے ایک ڈبا کھولااور اس میں سے میٹھے چاول نکالے اور ساری برات کو دیئے لیکن اس آدمی کو نہ دیے۔ وہ چپ کرکے بیٹھارہاکہ کوئی بات نہیں شاید انہوں نے مجھے دیکھانہیں۔کچھ دیر بعد براتیوں نے ایک اور ڈباکھولااور اس میں سے برفی نکالی اور ساری برات میں تقسیم کی لیکن اس آدمی کو نہ دی۔اسے بہت غصہ آیا کہ ایک میں باہر کا آدمی ہوں مجھے بھی دے دیتے تو کیاتھا۔لیکن وہ ضبط کر کے بیٹھارہا۔تیسری دفعہ براتیوں نے لڈو نکالے اور سب کو ایک ایک لڈو دیالیکن اس شخص کو نظرانداز کردیا۔اب تو اس آدمی کو بہت غصہ آیا وہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا ۔ اﷲ کرے اس ڈبے پر بجلی گرے اور تم سب مرجاؤ ۔ براتیوں میں ایک سیاناآدمی کھڑاہوا اور بولا’’اگر اس ڈبے پر بجلی گری تو تم کیسے بچ جاؤ گے؟ اس آدمی نے جو اب دیا ’’جیسے چاول ‘برفی اور لڈوؤں کی دفعہ بچ گیاتھا۔‘‘

اس میں دوتین سبق ہیں۔۔ا اس اقتدار کے کھیل میں عوام کو نہ میٹھے چاول ملتے ہیں نہ برفی اورلڈو تو پھر باباوہ ایسی صداؤں میں توشامل ہوگی ناں جس میں نشیمن پر بجلی گرانے کی باتیں ہونگی ۔ذرا آپ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے برفی بانٹنے کاانتظام کریں پھر دیکھتے ہیں کہ جلسے گاہوں کی رونق بننے والے ننھے اونٹ کس کروٹ بیٹھتے ہیں۔اقتدارکادسترخوان سجتاہے توتبھی کھرے اورکھوٹے کی پہچان ہوتی ہے ۔پنجابی ادب کی شان بابابلھے شاہ نے فرمایاتھا
سب نوں اپنی اپنی پے گئی
دھی ماں نوں لٹ کے لے گئی

مگر انتظامی مجبوریوں کے دلائل تو آپ کے پاس ہونگے لیکن ہمیں تو یہی لگتاہے آپ اس بزرگ کی طرح ہیں جو شادی ہو یافوتگی‘اسکی یہی خواہش ہوتی ہے کے دیگ پراسی کاکنڑول ہو ۔یعنی سب کے اوپراس کا احسان رہے ۔حالانکہ شادی کے موقع پر خرچہ دولہے کاہوتاہے اور فوتگی کہ موقع پر مختلف لوگوں کالیکن چودراہٹ اسی بوڑھے بزرگ کی ہوتی ہے جس کا ٹکہ بھی نہیں لگتا بس وہ اپنی نام نہاد انتظامی صلاحیت کی بناء پر مسلط رہتاہے اور دوسروں کا خرچ ہونے کے باوجود لوگ وقتی طور پر اسی کے ذریعے پلاؤ‘بوٹیاں ‘قورمہ کھاتے ہیں اور حقیقت جاننے کے باوجود اس کے شکرگزار ہوتے ہیں کہ اس نے نوازش کی۔مندرجہ بالا بابے کا قصہ دیہاتوں سے زیادہ تعلق رکھتاہے جیسے ہماری جمہوریت پرانے یورپ سے مماثلت رکھتی ہے۔

پچھلے دورحکومت میں جب پی پی پی نے وفاق کے زیرانتظام ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے کا اعلان کیا تھا تو میں اس وقت ایک صوبائی حکومت کے ملازم کے پاس اسکے میڈیکل سٹورپرموجود تھا۔ اس نے اعلان سنتے ہی کہا’’ دیکھو بھائی حصہ نکال دیا انہوں نے ۔وہ خود بھی کھاتے ہیں اور لٹاتے بھی ہیں تبھی انکی حکومت قائم ہیں ۔میاں صاحبان تو پولیو‘مردم شماری سے لے کر ڈینگی وائرس تک اساتذہ کوگسیٹھتے ہیں پھرکون انکی خیر مانگے گا‘‘۔جب چھوٹے چھوٹے ملازمین کو مستقل کرنے کیلئے حکومت حد سے زیادہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے گی‘نوجوان بے روزگارہوں گے اوردوسری جانب اقتدارمیں شریک افراد کروڑوں اڑائیں گے تو نفرت کا پھیلنایقینی امر ہے۔پھر اپوزیشن کیخلاف آپکے نعرے دم توڑ جائیں گے اور آپکے خلاف نعرے زبان زد عام ہوجائیں۔ ۔انگریزی مقولہ ہے۔a switch in time saves nineترجمہ :وقت پرلگایاہوا ایک ٹانکا بعد میں لگائے جانے والے ننانوے ٹانکوں سے بہترہے۔

تیسری اور آخری بات یہ کہ وزیراعظم یا وزیراعلی کے صوابدیدی فنڈ کے متعلق بھی مضبوط نظام آڈٹ کیلئے اگر موجودہ حکومت ایک اچھی سی ترمیم کرجائے تو اسکاعوام پراحسان ہو گا۔اوربہتر ہو گاکہ اگر اسکی limitمحدود کردی جائے کیونکہ اس میں اضافے کا مطلب یہی ہے کہ آپ اپنی پارٹی میں موجود باقی افراد کو لڈو‘برفی یا میٹھے چاول دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ آپ دس دس وزارتوں کے ذریعے خرچ بچانے کے بجائے وزراء کے اخراجات کم کردیجئے اور یہ وزارتیں برفی ‘لڈواورمیٹھے چاولوں کی طرح اپنی برات کے علاوہ بھی کسی کام کے آدمی کو دے دیجئے تاکہ آپ کے اورہمارے نشیمن پر بجلی گرانے کی بددعاکوئی نہ کرے۔وگرنہ آپ کی پارٹی کے سیانے آدمی کو بھی وہی جواب ملے گا جو برات کے سیانے آدمی کو ملاتھا۔اﷲ اس ملک کا حامی وناصرہو۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174685 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.