جمہوری نظام کو تابناک ماضی کون دے گا ۔۔؟؟؟

جب انقلاب اور تبدیلی کا نعرہ بلند ہوا تو میں نے لکھاتھا کہ
تڑپ اٹھے گا یہ دل یا تڑپنا بھول جائے گا
دل بسمل کا اس در پر تماشا ہم بھی دیکھیں گے

میرے اس کالم کو کافی تنقید سہنا پڑی مگر وقت نے ثابت کیا کہ میں نے درست کہا تھا کہ انقلاب ایک مسلسل عمل کا نام ہے ،یہ جمہوریت کا نام نہیں ہے ،یہ ارتقاء کا نام ہے ۔۔!!!اور ویسے بھی انقلاب کے لیے حالات اور جزبات بھی ہونے چاہیئے اور میرے عوام صابرو شاکر عوام ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ سب کچھ مقدر میں ثبت ہے جس کو بدلنا ناممکن ہے ،اس لیے نہ آواز بلند کرتے ہیں اور نہ کوشش کرتے ہیں۔اوراگر سوال کیا جائے تو فقط اتناکہتے ہیں
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ،تیرا غم تیری جستجو بھی نہیں

او ر صبر کا قصہ یہی ختم نہیں ہوتا ،جب ان حالات پر نئی نسل، بیزاری کا اظہار کرے تو یہ کہا جاتا ہے کہ
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

اوروہ کرے بھی تو کیا کرے کہ عوام نے آمریت کے ماتھے پر ہی ہمیشہ جمہوریت کوکندھا پایا ۔مہنگائی ،لوڈ شیڈنگ ،پانی ،سوئی گیس ،دہشت گردی ،افراط زر میں کمی اور اضافے جیسے گوناں گو مسائل نے ان سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی چھین لی ہے اوراب وہ انہی ناگفتہ بہ حالات میں خوش ہیں، اورجب جب میں اپنے عوام کا صبرو استقامت دیکھتی ہوں تو مجھے وہ قدیم کہانی یاد آتی ہے جو میرے والدِمحترم اکثر ہمیں سنایا کرتے ہیں کہ جس میں ایک شخص کے پاس ایک غلام تھا ۔وہ آدمی خود تو چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتا تھا مگر اپنے غلام کو اسی آٹے سے نکلا ہوا چھلور کھلاتا تھا ۔چھلور کھا کھا کر وہ غلام اپنے مالک سے بہت تنگ تھا اسی بنیاد پر اس نے اپنے مالک سے فروخت کر دینے کا مطالبہ کیا ۔اس کی خواہش پر اس کے مالک نے اسے فروخت کر دیا ۔جس آدمی کے پاس وہ پہنچا وہ خود تو چھلور کھاتا تھا اور اس میں سے بچ جانے والے ،بھوسے کی روٹی اسے کھلاتا تھا وہ غلام یہاں سے بھی تنگ آگیا ۔اور فروخت کر دینے کا مطالبہ کیا ۔اب کی بار وہ فروخت ہو کر جہاں پہنچا اس کا مالک نہ خود کچھ کھاتا تھا نہ اسے کچھ کھلاتا تھا ۔الٹا مالک نے اس کا سر منڈوا کر اس کو چراغ رکھنے کی جگہ بنا دیا ۔جہاں وہ رات ہوتے ہی چراغ میں بتی جلا کر اس کے سر پر رکھ دیتا ۔یہاں رہتے ہوئے اسے کافی عرصہ ہو چکا تھا ۔مگر اس نے خود کو فروخت کرنے کا کوئی مطالبہ نہ کیا تھا ۔اس کے جاننے والوں نے جب وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میں اس لیے چپ ہوں کہ میرا مالک کہیں اب کے ایسا نہ ہو جو میری آنکھ میں تیل ڈال کر، اسے بطور دیوا استعمال نہ کرے ۔تو اس خوف سے میں نے مطالبہ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے میں ایسے ہی خوش ہوں ۔یہی حال میرے عوام کا ہے وہ نام نہاد نعروں اور گھسے پٹے دلکش وعدوں سے اکتا چکے ہیں ۔اور خود کو حالات کے حوالے کر چکے ہیں ۔گزشتہ تقریباً دو ماہ سے ایسے ہی حالات کے خلاف تحریکیں چلائی جا رہی تھیں جو کہ پس پردہ اپنے ہی مضموم مقاصد اور حصول اقتدار لیے ایک کاوش تھی کیونکہ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی تحریکیں حکومتوں کے خلاف اپوزیشن لیڈروں نے چلائیں، بسا اوقات ان کا اختتام بالآخر کسی اور ہی ٹیبل پر ہوا ،اور خسارہ اور خجالت صرف ملک و قوم کے حصے میں آیا ۔افسوس یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے ،اورحالات نے اس قدر ہمیں بے بس کر دیا ہے کہ ہم ہرانسان کو اپنا مسیحا سمجھ لیتے ہیں ،یہ سوچے بنا کہ اس مفاد پرست نظام میں کوئی مخلص کیسے ہو سکتا ہے ۔

موجودہ حالات کی کوئی بھی توجیہہ کی جائے حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ سیاسی ہلچل یوں نہیں رکے گی اس کے نتائج دور رس ہو نگے ۔یہ مثبت بھی ہو سکتے ہیں اور منفی بھی ۔سوال یہ ہے کہ یہ حالات کیا مڈ ٹرم الیکشن کے لیے راہ ہموار کریں گے اور کیا عمران خان اس الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو تسلیم کر لیں گے یا ان کا سونامی بھی بہہ جائے گا ۔فل وقت لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ
لے اڑی بوئے گل راز چمن بیرون چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن

حریف نے ہماری خامیوں کو جان لیا اور اس نے ہم پر طاقت آزمانا شروع کر دی ہے ،مگر شاید وہ بھی ماضی کو بھول گیا ہے کہ جب جب اس نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ اٹھائی اسے منہ کی کھانا پڑی ۔شاید وہ نہیں جانتا کہ اس ملک کا ہر بچہ یہ عزم لیکر جوان ہوتا ہے کہ
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
ترے بیٹے ترے جانباز چلے آتے ہیں

یہ تاریخ کے واضح اور معلوم حقائق ہیں کہ ہم نے بھارت سے، دوستانہ روابط کی متعدد کوششیں کیں ہیں اور کئی بار پہل کی ہے ،جس کی شہادت بھارتی با شندے بھی دے سکتے ہیں ،بھارت ہمارا قریبی ہمسایہ ہے ،ہم اس سے دوستانہ مراسم قائم کر کے امن سے رہنا چاہتے ہیں اور یہ تاریخی حقائق ہیں کہ ہر برسر اقتدار حکمران نے یہ کوشش کی اور بھارت کو پیغام دیاکہ بھارت اور پاکستان کو، اپنے معاملات کا تصفیہ کر لینا چاہیئے تاکہ ہماری فوجیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء نہ ہوں ۔یہ وہ حقائق ہیں جن کو ہر گز جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔مگر ایسا مثبت قدم کبھی بھی بھارت کی طرف سے نہیں اٹھایا گیا ۔اور اب پھر مبینہ سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر کے مسلسل سرزمین پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے اور اس پر نادم بھی نہیں ہے ،بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ’’ پاکستان سے بولی (ان سے بات کرنے )کا نہیں گولی سے جواب دینے کاوقت ہے ۔اور ہم پاکستان کی مبینہ دہشت گردی کا بھرپور جواب دے رہے ہیں اس کا منہ توڑ کر رکھ دیا ہے‘‘ ۔اور بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے سیز فائر کی خلاف ورزی پر یہ بیان دیا گیا کہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بننے والا ملک ،ہم پر جارحیت کا الزام لگا رہا ہے ،یہ بات تو طے ہے کہ بھارت کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ایسی جنگ میں مصروف ہے جس کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا اور اپنی برتری کو ثابت کرنا ہے ،مگر وہ اس حقیقت سے بے خبرہے کہ ان مکاریوں سے اس کا اپنا ہی نقصان ہوگا ۔کیونکہ ہماری پاک افواج نے ہمیشہ بہادری اور دلیری کے ساتھ اس ملک کی حفاظت کی ہے اور اس کے سامنے ہمیشہ اسے منہ کی کھانا پڑی اور ہمارے جوانوں نے ہمیشہ ثابت کیا کہ وہ اس مٹی کے لیے اپنی جان کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے ۔وہ ہمیشہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند سرحدوں پر سینوں پر گولی کھانے کے لیے تیار کھڑے ہیں ۔جہاں تک بات ہے بھارت کی اس نے ہمیشہ سے تمام معاہدوں کی خالف ورزی کی ہے اور وہ اس روش پر قائم ہے ۔ اس کی موجودہ جارحیت سے کئی بے گناہ پاکستانی شہری اور فوجی جوان شہید اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں ،ایسے کشیدہ حالات میں اقوام متحدہ کی خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے۔۔۔ !!بھارت نے ہمارے حکمرانوں کے دوستانہ عمل کو ان کی کمزوری سمجھ لیا ہے ۔اس لیے حکمرانوں کو اب چاہیئے کہ وہ امن کی آشا کا علم اب گرا دیں گے اور مصلحتوں کا دامن تھامنا چھوڑ دیں،ہم نے ایسی تجارت سے کیا لینا جس میں عزت اور جان داؤ پر لگ جائے ، بنیادی تنازعات کو پہلے ختم کریں پھر دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔

آج سوال تو یہ ہے جب اندرون خانہ سیاسی خلفشار پر بھی آپ مہر بلب تھے اور اب سرحدیں جب محفوظ نہیں رہیں آپ اس پر بھی مٹھائیاں بیج رہے ہیں ،آپ کی حکمت عملی کی ناکامی کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ جمہور کو بھی تحفظ حاصل نہیں ،گڈ گورنس کا بھی فقدان ہے اور سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو گئی ہیں اورآپ کی طرف سے کوئی مؤثر آواز نہیں اُٹھ سکی ،آپ اس معاملے میں بھی پاک فوج کا منہ دیکھ رہے ہیں ،ہرکام ہماری فوج نے ہی کرنا ہوتا ہے تو یہ پارلیمنٹ کس مرض کی دوا ہے ۔۔؟قصۂ مختصر موجودہ حالات سے پاکستان کا ہر شہری موجودہ حکومت سے خائف نظر آتا ہے اورآج ہر آنکھ کا صرف ایک ہی سوال ہے کہ جمہوری نظام کو تابناک ماضی کون دے گا ؟؟؟
Ruqquya Ghazal
About the Author: Ruqquya Ghazal Read More Articles by Ruqquya Ghazal: 50 Articles with 34084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.