اقوام متحدہ اور پاکستان کا کردار

اقوام متحدہ ایک ایسا ادارہ جسے بین الاقوامی امن کے قیام اور جارحیت کو روکنے کے لئے ایک بڑی امید یا واحد سہارا سمجھا جاتا ہے۔کیونکہ اس ادارے کو قائم کرنے کا بنیادی مقصد ہی دنیا میں امن کی فضاء پیدا کرنا تھااور اگر کسی ملک میں جارحیت جاری ہے تو اس کی فوراً روک تھام کرنا ،وہاں کے امن کو بحال کرنا اور انسانی حقوق کا احترام کروانا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جس میں ایٹم بم اور تباہی پھیلانے والے دیگر خطرناک ہتھیاروں کا بھر پور استعمال کیا گیا اور انسانیت کا تقدس اور امن کی دھجیاں بکھیری گئی ۔ تو اس وقت کے حالات کے پیش ِنظر عالمی طور پر ایک ایسے بہتر اور موئثر ادارے یا تنظیم کی اشد ضرورت محسوس ہوئی کہ جس کے تحت دنیا میں امن کو فروغ دیا جائے ۔اور اس کے بنائے ہوئے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے انسان صحیح معنوں میں جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہ سکے۔چنانچہ بلا آخر 24 اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔اور اس کے تحت تمام ارکان ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ مذہب،ذبان،رنگ و نسل اور جنس کے فرق سے بالا تر ہوکرصرف انسانی حقوق کا احترام کریں۔اقوام متحدہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے جو کہ نیویارک (امریکہ ) میں واقع ہے۔اور اس وقت اس کے ممبرممالک کی تعداد 193تک پہنچ چکی ہے۔پاکستان اپنے قیام کے اگلے ہی ماہ یعنی 30 ستمبر 1947 ء کو اقوام متحدہ کا رکن بنا۔

1947ء میں ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہر سال 24 اکتوبر کو (یونائٹڈ نیشن ڈے) اقوام متحدہ کا دن عالمی طور پر منانے کا اعلان کیا۔تا کہ لوگ اس ادارے کا مقصد ،اسکی سرگرمیوں اور کامیابیوں کے بارے میں جان سکیں۔ اور 1971ء میں یو این جنرل اسمبلی نے اس بات کی منظوری دی کہ اس ادارے کے ممبران ملک اس دن کو سرکاری چھٹی کے طور پر منائیں۔اقوام متحدہ جس کے چھ بنیادی ادارے ہیں جن میں جنرل اسمبلی،سلامتی کونسل ، اقتصادی اور سماجی کونسل،ٹرسٹی شپ کونسل،بین الاقوامی عدالت انصاف اور سیکرٹریٹ شامل ہیں۔اس کے علاوہ دو درجن سے زائد ادارے اس کے انڈر کام کرتے ہیں جن میں چند بڑے ادارے جیسا کہ یونیسکو،ادارہ صحت ،محنت ،خوراک و زراعت اور مالی فنڈ وغیرہ شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے بنائے گئے اصولوں میں سے دو اہم ترین یہ ہیں کہ تمام ارکان بین الاقوامی تنازعات پرامن طور پر حل کریں گے تا کہ عالمی امن و سلامتی اور انصاف کے لئے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔اوردوسرا کہ تمام رکن ممالک اپنے بین الاقوامی تعلقات کے سلسلے میں کسی ریاست کی علاقائی سا لمیت یا آزادی کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے یا اسکی دھمکی دینے سے گریز کریں گے۔

پاکستان نے ممبر بننے سے لے کر آج تک اقوام متحدہ کے اصولوں کی بڑی سنجیدگی سے پابندی کی ہے اور بین الاقوامی معاملات میں پاکستان نے ہمیشہ امن پسندی کا ثبوت دیا ہے اس کے علاوہ اپنے علاقائی و دیگر تنازعات کو بھی پاکستان نے اقوام متحدہ کے مقاصد کی روشنی میں ہی حل کیا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی میں نسلی امتیاز کی مذمت کی اور اسے انسانیت کے خلاف قرار دیا۔محکوم قوموں کی آزادی اور ان کے حقوق کی بحالی کے لیے آواز بلند کی۔عالمی امن کے لئے بھی بھرپور جدوجہد کی اور فلسطین کے مسئلے پر کئی مرتبہ عالمی رائے عامہ کو ہلایا۔آج کے دور میں کئی ممالک بلخصوص ترقی یافتہ ممالک ایٹمی اسلحہ اور دیگر خطرناک ہتھیاروں کی تیاری میں خوب کوشیش میں مصروف ہیں اور یوں آئے روز عالمی امن کو خطرہ لاحق ہوتا جارہا ہے ۔لیکن پاکستان نے ایک امن پسند اور ایٹمی ملک ہونے کے باوجود ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی اقوام متحدہ کی پیش کردہ قراردادوں کی حمایت کی۔تا کہ ایٹمی توانائی کو ہمیشہ پر امن مقاصدکے لئے استعمال کیا جا سکے۔پاکستان نے فلاحی خدمات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے فلاحی اداروں سے وہمیشہ تعاون کیا اور جہاں کہیں اور جب کبھی بھی پاکستانی ماہرین کی ضرورت پیش آئی توہمارے ملک نے فراخدلی سے اپنی خدمات پیش کیں۔پاکستان نے ہمیشہ مظلوم اقوام کا ساتھ دیا ۔انڈونیشیا ،مراکش اور لیبیا ،فلسطین اور کشمیر وغیرہ کی آزادی کی تحریکوں کی پاکستان نے بھرپور حمایت کی اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔پاکستان نے کئی ممالک بلخصوص اپنے ہمسایہ ملک چین کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔پاکستان نے دنیا کے تمام ممالک کی حق خودرادیت کو ہمیشہ تسلیم کیا ۔بوسنیا میں مسلمانوں کو کھلم کھلا تشدد ،ظلم و ستم کا نشانہ بنانے پر پاکستان نے اقوام متحدہ کے تعاون سے اسکی پر ذور مذمت کی۔مسئلہ کشمیر کے معاملے میں کشمیر کی پہلی جنگ بندی کی قرار داد کو پاکستان نے فوری تسلیم کر لیا حا لا نکہ اس وقت پاکستان کا پلہ بھاری تھا لیکن پاکستان نے اقوام متحدہ کے بھیجے ہوئے کمیشن سے بھر پور تعاون کیا۔پاکستان نے نہ صرف اپنے ذاتی مسائل بلکہ مسئلہ فلسطین پر بھی عربوں کے موئقف کی ہمیشہ سے ہی حمایت کی اور اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم کی پر زور مخالفت کی تھی اور اسرئیلی ریاست کے قیام کو ایک سازش قرار دیا تھا۔ابھی حال ہی میں غزہ کی پٹی میں محصور ،معصوم فلسطینی جب اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے تو تمام اسلامی ممالک میں سے سب سے ذیادہ پاکستان نے آواز اٹھائی اور اسکی پر زور مذمت کی ۔آخر میں یہ کہ پاکستان نے اپنے وسائل سے بڑھ کر بھی جہاں تک ممکن ہو سکااقوام متحدہ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا اور آج تک کرتا آرہا ہے۔کیا اقوام متحدہ کا ادارہ بھی پاکستان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیتا ہے یا کہ محض ایک تماشا ہی دیکھتا ہے ؟اقوام متحدہ پاکستان کو سیاسی اعتبار سے توآج تک ذیادہ فائدہ نہ پہنچا سکا ۔کیونکہ اس کے مقاصدکاناکام پہلو مسئلہ کشمیر کی صورت میں نظر آتا ہے۔اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ادارہ کئی قراردادوں کی منظوری کے باوجو دبھی کشمیر کی مظلوم عوام کو بھارت کے تسلط سے آزاد کروانے میں ناکام رہاہے۔اب حال ہی میں اقوا م متحدہ کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے کہ اب وہ مسئلہ کشمیر پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے پر پہلے ہی کیوں خاموش رہا کیا اس کی خاموشی کے پیچھے کوئی ایسی خفیہ طاقتیں ملوث ہیں جو اس کی قوتِ گویائی چھین لیتی ہیں یا کہ یہ جانبداری کا مظاہرہ کرتا آیا ہے۔ کیونکہ آدھی سے زیادہ صدی گزرنے کے باوجود بھی یہ مسئلہ آج بھی ویسے کا ویسے ہی ہے اور آ ئے روز معصوم کشمیریوں پر ظلم و ستم بھارتی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستا ن نے کشمیر کے معاملے میں بارہا ثالثی کی تجویز اقوام متحدہ کے سامنے پیش کی لیکن بھارت اپنی بدنیتی کی وجہ سے اس بارے مزاکرات کرنے سے فرار اختیار کرتاآ رہا ہے ۔ ابھی گذشتہ دنوں سیالکوٹ کے کئی نہتے اور بے گناہ شہری تین چار روز تک بھارتی فوجیوں کی فائرنگ اور مارٹر گولوں سے بھارتی جارحیت کا نشانہ بنتے رہے ۔یوں بھارت نہ صرف کشیدگی کو بڑھا رہا ہے اور اس خطہ کے امن کو تباہ کررہا ہے۔ بلکہ اقوام متحدہ کے تمام اصولوں اور قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی کر رہاہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ بھارت ہوش کے ناحن لے اور اس ثالثی کی تجویز پر رضا مندی ظاہر کرے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر اسے اپنی اس جارحیت کا نتیجہ کسی بھیانک انجام کی صورت میں بھگتنا پڑے ۔اور اقوام متحدہ کے ادارے کو بھی چاہیے کہ وہ کسی ایک ملک کو خوش کرنے کی خاطر پاکستان کے مسائل پر خاموش تماشائی نہ بنے بلکہ عدل و انصاف سے کام لے تا کہ اس ادارے پر ایک اعتماد قائم رہ سکے ۔ بھارتی جارحیت کو روکنے اور کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے بارے اقوام متحدہ نے ایک بار پھر قدم تو اٹھایا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا یہ جوش و جذبہ کتنے دنوں تک قائم رہتا ہے یا وہ اس معاملے میں کتنے فیصد کامیابی حاصل کر پاتا ہے۔ ورنہ جس بڑے مقصد کی خاطر پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا اگر وہ مقصد ہی پورا نہ ہو سکے تو پھر پاکستان کے لئے ایسے ادارے کا وجود یا اس کی رکنیت کسی کام کی نہیں ۔
Majid Amjad Samar
About the Author: Majid Amjad Samar Read More Articles by Majid Amjad Samar: 17 Articles with 15831 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.