قہرِ ناگفتہ بہہ !اورہماری ذمہ داریاں

ماحولیاتی توازن بگڑنے کی وجہ سے پوری دُنیاکاموسمی نظام متاثرہورہاہے۔جنگلات کاکٹاﺅماحولیاتی توازن کے بگڑنے کی اسکی ایک اہم وجہ ہے ۔روز بروزجنگلات کے کم ہونے سے ماحولیاتی آلودگی میں روزافزوں اضافہ ہوتاچلاجارہاہے ۔جنگلات کی کمی کی وجہ سے ماحو ل میں بڑھتی ہوئی آلودہ اورزہریلی گیسیں جذب نہ ہورہی ہیں جس کے منفی اثرات ماحولیاتی توازن پرپڑرہے ہیں جس کے سبب بھونچال اورسیلاب جیسی آفات کے خطرات پوری دُنیاپرمنڈلارہے ہیں۔غیرمناسب وقت پربارشیں ہونااب معمول بن چکاہے اورجنگلات نہ ہونے کی وجہ سے زمینی کٹاﺅبڑے پیمانے پربارشوں سے ہورہاہے۔ماہ ستمبر2014کے پہلے ہفتے میں ریاست جموں وکشمیرمیں بھی بے وقت موسلادھاربارشوں کاسلسلہ شروع ہواتھا(جوکہ اب تھم چکاہے )جس نے آہستہ آہستہ سنگین سیلاب کی شکل اختیارکرلی ۔لگاتارموسلادھاربارشوں کی وجہ سے ندی ،نالوں اوردریاﺅں میں طغیانی آگئی اورریاست کے دونوں صوبوں جموں اورکشمیرمیں حالات نازک ہوگئے ۔ندی ،نالوں اوردریاﺅں میں سطح آب خطرے کے نشان سے اوپرہوگئی اورگردونواح کی زمین کے کٹاﺅکاسلسلہ تیزہوگیا۔دریاﺅں اورندی نالوںمثلاً دریائے چناب،دریائے جہلم،دریائے جموںتوی،دریائے اوج وغیرہ کے کناروں پہ رہ رہے لوگوں کوسیلابی ریلوں نے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ۔افراتفری کے عالم میں بہت سے لوگ محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اوربہت سے لوگ سیلابی ریلوں کی زدمیں آکرجاں بحق ہوگئے ۔پوری ریاست میں نظام زندگی درہم برہم ہوگیا۔موسلادھاربارشوں کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں محصورہوکررہ گئے ۔شروع میں سیلابی صورت صوبہ جموں میں زیادہ اثردارتھی مگرموسلادھاربارشیں جاری رہنے کی وجہ سے وادی کے بیشتراضلاع بالخصوص سرینگرضلع تالاب کی صورت اختیارکرگیااوربیک وقت صوبہ جموں اورکشمیرمیں ایک جیسی صورتحال پیداہوگئی۔حکومت کانام ونشان نہ رہا،سرکاری آفسران،وزراء،وزیراعلیٰ سمیت تک کی خبرنہ مل رہی تھی۔پوری ریاست میں وقت سے پہلے بھیانک قیامت برپاتھی۔خاص کروادی کشمیرکے لوگوں سے ٹیلی مواصلات کانظام ٹھپ ہونے سے ریاست کاہرشہری ایک عجیب طرح کے کرب سے گذررہاتھا، جہاں وادی سیلاب سے متاثرتھی وہیں صوبہ جموں کے ریاسی،ڈوڈہ،کشتواڑ،رام بن،کٹھوعہ،سانبہ، ادھمپور،راجوری پونچھ اضلا ع میں بھی صورتحال بھیانک تھی ۔ تیزموسلادھاربارشوں کی وجہ سے سڑکیں ،پل اوردیگررابطے درہم برہم ہونے سے دوردرازعلاقہ جات کارابطہ تحصیل وضلع ہیڈکوارٹروں سے مکمل طورپرمنقطع ہوگیاتھا۔پوری ریاست کے 4سے 5ہزاردیہات زیرآب آگئے تھے۔لوگ بجلی ،پانی ،موبائل جیسی سہولیا ت سے مکمل طورپر محروم ہوچکے تھے اورلوگوں کواپنی موت اپنی آنکھوں کے سامنے نظرآرہی تھی۔کئی روزتک لگاتارہونے والی موسلادھاربارش کی وجہ سے ریاست بھرمیں آئے سیلاب نے ہزاروں (ابھی اعدادوشمارواضح نہیں ہوئے ہیں )قیمتی انسانی جانیں تلف ہوئیں ۔ہزاروںلوگ بے گھرہوئے،کسانوں کی فصلیں اورسینکڑوں کنال زمین سیلاب کی زدمیں آکربہہ گئیں ۔اوریوںلاکھوں کنبوں کےلئے موسلادھاربارشیں قدرتی قہرثابت ہوئیں اوران سے ان کے اپنے بچھڑگئے ۔ہرطرف آہ وپکارکاسماں تھا۔ریاست کے سنگین حالات کودیکھتے ہوئے ریاستی وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے اس آفت سماوی سے نمٹنے کےلئے ہنگامی طورپرمیٹنگ طلب کرکے ریاست کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کومحترک کرتے ہوئے سیلاب متاثرہ علاقوں میں پہنچ کرلوگوں کی امداداورپریشانیوںکودورکرنے کےلئے اقدامات کویقینی بنایا۔اورسیلاب متاثرہ لوگوں کےلئے 20کروڑروپے کاامدادی پیکیج واگذارکرنے کی منظوری کااعلان کیااورسیلاب کی زدمیں آکرمرنے والے افرادکے لواحقین کوایکس گریشیاریلیف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ریاستی وزیراعلیٰ نے فوج اورایئرفورس سے بھی تعاون حاصل کیا۔ریاست کی سول وپولیس انتظامیہ کے علاوہ فوج کی مددسے بچاﺅکاروائیوں کوتیزکیا۔وزیراعلیٰ نے بذات خودسیلاب متاثرہ علاقہ جات میں جاکرلوگوں کی خبرگیری کی اورانہیںہرممکن امدادکی یقین دہانی کرائی۔وزیراعظم نریندرمودی نے بھی ریاست جموں وکشمیرکے سنگین حالات کودیکھتے ہوئے نہ صرف مرکزی وزیرراج ناتھ سنگھ کوریاست کے حالات کاجائزہ لینے کےلئے یہاں بھیجابلکہ بذات خودریاست کاہوائی دورہ کیااورریاستی سرکار سے ریاست میں سیلاب سے ہوئی تباہی ونقصانات کی تفصیلی رپورٹ حاصل کی۔نریندرمودی نے ریاستی سرکارکو1100کروڑروپے کااضافی امدادپیکیج دینے کابھی اعلان کیااوراس امدادکوامدادی پیکیج کی قسط اول قراردیااوربہ بانگ دہل یہ تسلیم کیاکہ ریاست جموں وکشمیر میں آیاسیلابی قہرایک قومی سطح کی آفت تھی ۔اوریہ کہاکہ اتراکھنڈ،اڑیسہ جیسی تباہی کی طرزپرقومی آفت سے متاثرجموں وکشمیرکی بازآبادکاری کےلئے ہرممکن مالی تعاون دیاجائے گا۔ دہلی پہنچنے کے بعدنریندرمودی نے بچاﺅکاروائیوں کے ماہرفوجی دستوں،بری اوربحری فوج کی اضافی ٹکڑیوں کوریاست جموں وکشمیرمیں بھیجا۔فوج نے لاکھوں لوگوں کووادی کشمیرمیں محفوظ مقامات پرپہنچایا،مگرپہلے تین یاچارروزتک انتظامیہ کے آفیسروں،وزراءکے رشتہ داروں ،سیلانیوں کوہی وادی کشمیرسے نکالاجس کی وجہ سے وادی کشمیرکی مقامی آبادی کوفوج سے مایوسی ہوئی اورریسکیوآپریشن پہ سوالیہ لگا۔وادی کشمیرکے لوگوں کے مطابق جب فوج کی بچاﺅکاروائیاں جانبدارانہ رُخ اختیارکرگئیں تومقامی جانبازوں نے سامنے آکرلاکھوں کوبچاکریہ ثابت کیاکہ وادی کشمیرکے نوجوان پتھربازنہیں بلکہ جانبازہیں۔مشکل گھڑی میںریاست کی سول وپولیس انتظامیہ میڈیا(ریڈیو،ٹیلی ویژن اوراخبارات )اورخصوصی ہیلپ لائنوں کے ذریعے سیلاب سے پریشان حال عوام سے متواترجڑی رہی اور وادی کشمیرکے علاوہ ریاسی،مہور،ادھمپور،راجوری،پونچھ ،سرنکوٹ ،جموں،کٹھوعہ،سانبہ ،رام بن ،ڈوڈہ،کشتواڑاورسرینگرکے مختلف اضلاع میں سیلاب میں پھنسے ہوئے سینکڑوں لوگوں کوبچاﺅکاروائیوں کے ذریعے بچانے اورسیلاب متاثرہ لوگوں تک امدادپہنچانے کےلئے اقدامات اُٹھائے۔

وادی کشمیرمیں سیلاب کے بعدجوصورتحال وہ نہایت ہی خوفناک مناظرپیش کررہی ہے ،ہرطرف سے لاشیں ہی لاشیں نکل رہی ہیں اوروادی کشمیر لاشوں کا ڈھیربن جانے سے سسکیوں اورآہوں کی وادی بن گئی ہے ۔لاشوں کی بدبوسے وادی کشمیرمیں بیماریاں پھیلنے کاخدشہ ہے محکمہ صحت کوچاہیئے کہ وہ بیماریوں کی روکتھام کےلئے موثراقدامات اُٹھائے اورجولوگ سیلاب کی زدمیں آکرہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں ان کابہترڈھنگ سے علاج ومعالجہ کیاجائے ۔سیلابی تباہی کے بعداب سیاستدانوں نے بھی سیلاب متاثرین کی مددکرنے کے بجائے ان کی مجبوری اوربے بسی کاناجائزفائدہ اُٹھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جوکہ غیراخلاقی اورغیرمہذب حرکت ہے۔اگرکوئی سیلاب متاثرین کی امدادکرناچاہتاہے تووہ داہنے ہاتھ دے بائیں ہاتھ کوپتہ نہ چلے کے مترادف سیلاب متاثرین کی مددکرے نہ کہ سیلاب متاثرین کانام ،سیلاب متاثرہ علاقوں کانام نمایاں طورپراخبارات میں شائع کرکے اپنے نام کوچمکانے کی کوشش کرے۔سیاستدانوں کوچاہیئے کہ وہ اس مشکل وقت میں سیلاب زدہ ریاست کے معصوم لوگوں پہ سیاست کرنے سے گریزکریں ۔اب ریاست کے ہرشہری اورہرسماجی ،سیاسی ودیگرقسم کی تنظیموں کافرض بنتاہے کہ وہ ایسی قدرتی آفات مثلاً بھونچال یاسیلاب کے سنگین حالات میں اپناتعاون سرکاراورانتظامیہ کوپیش کرے اوراپنی خدمات رضاکارانہ طورپرپیش کرنے کےلئے آگے آئے تاکہ سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری یقینی طورپرہوسکے۔سرکارکوچاہیئے کہ وہ بیرونی ریاستوں وممالک سے آنے والی امدادکوبغیرکسی رکاوٹ کے سیلاب متاثرین تک پہنچنے دے ۔چندروزپہلے کے سیلاب سے جہاں سینکڑوں لوگوں کی قیمتی انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں ،وہیں بھاری پیمانے پرمکانات منہدم ہونے کے علاوہ زمینی سیلابی ریلوں میں بہہ جانے سے ریاست عوام کوکروڑوں روپے مالیت کانقصان پہنچاہے جس کی بھرپائی میں ایک عرصہ لگے گا۔

حالیہ سیلاب کوذہن میں رکھتے ہوئے ریاستی سرکارکوچاہیئے کہ وہ سیلاب یابھونچال ودیگرقسم کی آفات سماوی سے نمٹنے کےلئے ایک ٹھوس ،جامع اورمربوط پالیسی تشکیل دے اورماضی میں نکاسی کے نظام کےلئے انتظام نہ کرنے کی غلطی کوسمجھناچاہیئے اورآئندہ کےلئے مربوط حکمت عملی تیارکی جانی چاہیئے تاکہ مستقبل میں ایسی صورتحال کاسامناکرنے میں آسانی ہوسکے اورکم ازکم انسانی جانوں اوراملاک کانقصان ہو۔اس پالیسی کے تحت حکومت کوخاص طورپردریاﺅں اورندی نالوں کے کنارے موجودزمینوں پرانسانی آبادی کی رہائش اوردیگرسرگرمیوں پہ پابندی عائدکرنی چاہیئے ۔اورسیلاب کی وجہ سے جن سڑک رابطوں اورپلوں کونقصان پہنچاہے ان کی فوری مرمت کویقینی بناناچاہیئے اورنقصانات کاتخمینہ لگاکرلوگوں کوراحت پہنچانے کےلئے خصوصی امدادفراہم کرنی چاہیئے۔ریاستی حکومت کوچاہیئے کہ وہ شہریوں کوماحولیاتی توازن کوبرقراررکھنے کےلئے اپناکردارنبھانے کے فوائدکی جانکاری ،سیمیناروں،بیداری پروگراموں کے انعقادذریعے لوگوںکوفراہم کرے اورلوگوں پہ زوردیاجائے کہ وہ جنگلات کی کٹائی کیخلاف مہم چلائیں اورزیادہ سے زیادہ پیڑوں کولگائیں ۔حکومت کوجنگلات کی کٹائی میں ملوث سماج دشمن عناصرکیخلاف ٹھوس کاروائی کرنی چاہیئے تاکہ ماحولیاتی توازن کی برقراریت یقینی بن سکے اورآئندہ عوام جموں وکشمیرسیلاب جیسی صورتحال کاسامنانہ کرناپڑے۔موجودہ سیلاب ایک قدرتی قہرتھاجوکہ نہ صرف ماحولیاتی توازن کاعندیہ دے رہاتھابلکہ انسان کی بدکرداری کااشارہ بھی کررہاتھا۔

ریاستی سرکارکوچاہیئے کہ جن لوگوں نے سیلاب میں پھنسے ہوئے لوگوں کی جانوں کوبچایاان کی حوصلہ افزائی کےلئے جانبازوں کی نشاندہی کرکے ان کواعزازات سے نوازے اورممکن ہوتولوگوں کی جان بچانے والے بے روزگارنوجوانوں کوریسکیوٹیموں میں بھرتی کیاجائے ۔ساتھ ہی ساتھ جوامدادمالی اوربطورراشن اوردیگراشیائے ضروریہ پہ مشتمل وافرمقدارمیں ریاست جموں وکشمیرکےلئے آرہی ہے اس کولوٹ کھسوٹ کاشکارنہ ہونے دیاجائے بلکہ ایک باضابطہ میکنزم(طریقہ کار) کے تحت امدادسیلاب متاثرین تک پہنچائی جائے ۔انسان نے آج بے ایمانی کواپناشعاربنالیاہے اس کااندازہ اس بات سے ہوجاتاہے کہ جن لوگوں کاسیلاب سے نقصان ہی نہ ہواوہ انتظامیہ کی جانب سے سیلاب متاثرین کی تیارکی جانے والی فہرستوں میں بے ایمانی کرکے سرفہرست آرہے ہیں۔پٹواریوں،نائب تحصیلداروں،تحصیلداروں،ضلع ترقیاتی کمشنروانتظامیہ کے دیگرآفیسران کوچاہیئے کہ وہ سیلاب متاثرین کی نشاندہی غیرجانبدانہ طریقے سے کریں اوراس بات کویقینی بناناچاہیئے کہ نقصانات کی رپورٹ تیارکرنے والی ٹیمیں دیانتداری کامظاہرہ کریں ۔بے شک ریاست جموں وکشمیرمیں آیاسیلاب تاریخ کی المناک تباہی تھی ۔اب مرکزی اورریاستی حکومت کوچاہیئے کہ وہ اپنے ذمے عائدذمہ داریوں کواحسن طریقے سے انجام دے اورآئندہ کےلئے موثراورکارگرحکمت عملی اپنانی چاہیئے اورعوام کوبجلی ،پانی ،راشن اوردیگرسہولیات بہم پہنچانے کےلئے انتظامیہ کوجنگی سطح پرمتحرک کرناچاہیئے ۔اب عیدقریب ہے اس لیے ہم سب کوچاہیئے کہ عیدکی خوشیوں میں سیلاب متاثرین کوبھی شامل کریں اورسیلاب متاثرین کی بھرپورامدادکریں ۔اگرآپ نے سیلاب متاثرین کے چہروں پہ خوشی اورمسکان بکھیری تواسی صورت میں آپ نے حقیقی عیدمنائی۔اللہ تعالیٰ سے دُعاگوہوں کہ بنی نوع انسان کی عقل پرپڑے پردے کوہٹائے اوراسے اپنے اعمال درست کرنے کی توفیق عطافرمائے تاکہ مزیدایسی تباہی اورقہرکاسامناہمیں نہ کرناپڑے۔آمین۔
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 53331 views Ehsan na jitlana............. View More