خانہ خراب

سوچ قوموں کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہےکوئی قوم کیسی ہے اس کا اندازہ اس کی سوچ سے لگایا جا سکتا ہے۔ آفاقی سوچ کی حامل اقوام کم وسائل کے باوجود دنیا میں اپنا نام پیدا کرتی ہیں اور گھٹیا سوچ قوموں کو وسائل کی بہتات کے باوجود تاریکی کی پستیوں میں لے جاتی ہے۔

دوسروں کے بارے میں جاننے سے پہلے ہم اپنے گھر کا پتا لیتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی سوچ کیسی ہے؟ مختلف عوامی مقامات ایسے ہیں جہاں لوگ مل بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف معاملات پہ گفت و شنید کرتے ہیں۔ آپ بھی کسی ایسی ہی ایک جگہ کا انتخاب کریں جہاں چند لوگ بیٹھےباتیں کررہے ہوں اور اُن کے درمیان جا کر بیٹھ جائیں ۔ بس چُپ کر کے اُن کی حرکات کا جائزہ لیں اور باتوں کو سنیں آپ پوچھے بغیر سب کچھ جان جائیں گے ۔ میرا مشاہدہ بتا تا ہے کہ اس قوم کے 90 فیصد لوگوں کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں، وہ کیا کررہے ہیں ، کس طرف جارہے ہیں ، اُن کا مستقبل کیا ہو گا؟ اُنہیں اس کاکچھ پتا نہیں اور شانِ بےنیازی کا عالم یہ ہے کہ وہ اس بارےمیں جاننا بھی نہیں چاہتے۔ ایسے لوگ اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں اور شب وروز اس منصوبہ بند ی میں لگے رہتے ہیں کہ دوسروں کی ٹانگ کھینچ کر خود آگے کیسے بڑھنا ہے، اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہےتو اس میں سے کیڑے کیسے نکالنے ہیں اور کام کیے بغیر سرکار سے تنخواہ کیسے بٹورنی ہے؟

سنا تھا نوجوان قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں مگر آج تک یہ جاننےسے قاصر رہا کہ وہ کون سے ایسے نوجوان ہیں جو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں ؟ کیونکہ اس قوم کے نوجوان طبقے کا تو خانہ ہی خراب ہے اور وہ کن کن خرابیوں میں ملوث ہیں اس کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں۔

اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے مگراس ملک میں اسلام کا پیروکار ہے کون ؟ اس ملک کے لوگوں نے تو کم و بیش اسلام کی کوئی 100 سے زائد شاخیں بنا رکھی ہیں اور ہر کوئی اپنے فرقے کو سچا ثابت کرنے کے لیے سارا سارا دن فضول باتوں میں گزار دیتا ہے۔ اس ملک میں اتنے نئے اسلام آچکے ہیں یوں لگتا ہے کہ "اسلام" پتا نہیں کب کا یہ ملک چھوڑ چکا ؟

مشکل سے کوئی 1 فیصد یااس سے بھی کم لوگ ایسے ہیں جن کے پاس اچھی سوچ ہے، جو محنت و لگن کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ، وہ اس ملک کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتے ہیں اور گاہے بگاہے دوسرے لوگوں کو بھی اس نیک کام کی دعوت دیتے رہتے ہیں مگر اُن کی سنتا ہی کوئی نہیں وہ جب بھی کسی سے ترقی کی بات کرتےہیں تو سامنے والے کہتے ہیں :
"جاؤ بھائی یہ رام کہانی کسی اور کو سناؤ تم ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے نہیں ہو"۔

اگر مختصر یہ کہوں تو بے جانا ہو گا کہ اس قوم کے ہر فرد کی سوچ ذات سے شروع ہوتی ہے اور ذات پہ ہی آکر ختم ہو جاتی ہےاسں سے زیادہ سوچنا اُس کے بس کی بات نہیں۔

ایسے لوگوں کو حیوان بھی نہیں کہا جاسکتا اُن میں بھی ایک اچھی بات ہوتی ہے چاہے وہ اپنی ذات تک سوچتے ہیں مگر جب اُن کاپیٹ بھر جاتا ہے تو پھر کمزوروں کے پیٹ کا بھی خیال رکھتے ہیں لیکن انسان ایک ایسی مخلوق ہےجس کا پیٹ بھر بھی جائے تب بھی کہتا ہےکہیں سے تھوڑا بہت اور مل جائے۔
مغربی سوچ کا ایک واقعہ بتانا چاہوں گا چاہے انہوں نے یہ سوچ مسلمانوں سے ہی چُرائی ہے مگر وہ اب اس کے حامل ہیں۔

یورپ کی ایک یونیورسٹی میں ایک نوجوان سے ملاقات کا حال جو کسی ایسے مرض پہ تحقیق کر رہا تھا جس کا علاج موجود نہیں ۔ جب اُس سے پوچھا گیا:
"اے نوجوان کیا تم اپنی زندگی میں اس کا علاج دریافت کر لوگے"؟
اُس نوجوان نے جو جواب دیا وہ اُس قوم کی سوچ کا عکاس ہے۔ نوجوان نےمسکراتے ہوئے کہا:
"میں یہ کام اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے کررہا ہوں، میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا کہ میں اس کا علاج پاسکوں اور اگر میں ایسا نا کرسکا تو بھی مجھے افسوس نہیں ہوگا کیوں کہ میں نے انسانیت کے لیے پوری ایمانداری کے ساتھ کام کیا جتنا مجھ سے ہوسکااور بعد میں آنےوالا کوئی اور اسےآگے جاری رکھے گا۔ مجھے امید ہے کہ میں نہیں تو میرے بعد آنے والا اس کا علاج ضرور دریافت کر لے گا"۔

قارئین! افسوس اُنہیں ہوتا ہے جو اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں جو اس چھوٹی سوچ سے باہر نکل آتے ہیں پوری کائنات اُن کی خضرِ راہ بن جاتی ہے۔
 
Shah Faisal Naeem
About the Author: Shah Faisal Naeem Read More Articles by Shah Faisal Naeem: 36 Articles with 31432 views Student of BBA (Honors)
Institute of Business Administration (IBA), University of the Punjab, Lahore.
Blogger at:
http://www.express.pk/blog/
http
.. View More