فضائل ذوالنورین احادیث کی روشنی میں

اسلامی سال کا آغاز و اختتام قربانی پر
آغاز قربانیِ عمر فاروق……اختتام قربانیِ عثمان ذوالنورین رضی اﷲ عنہما

’’عثمان ‘‘کنیت ابو عمر اور لقب ذوالنورین ہے ۔ سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں نسب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرۂ نسب سے مل جاتا ہے۔ تاریخ اسلام آپ کی قربانیوں اور تبلیغِ اسلام کے تئیں آپ کی سخاوتوں کی شاہد ہے۔ آپ کو دربار رسالت علیہ التحیۃ والثناء میں خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ جس کا اندازہ اس امر سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحب زادیوں کو آپ کے نکاح میں دیا۔ جس سے آپ کا لقب ’’ذوالنورین‘‘ ہو۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے بعد پہلے شخص ہیں۔ آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ کاتبِ وحی ہیں۔ تمام صحابیہ میں مناسک حج کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ اپنی جان دے دینا مگر حضور کی امت پر تلوار نہ اُٹھانا آپ کا عظیم طرۂ امتیاز ہے۔ اسی لیے تمام صحابہ سب سے زیادہ صابر مشہور ہیں۔ صفات حسنہ اور وجاہت وخوب صورتی کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو قریش کی ہر شاخ میں اس حد تک محبوبیت اور ہر دل عزیزی حاصل تھی کہ عورتیں گھروں میں اپنے بچوں کو لوریاں دیتے ہوئے کہا کرتیں:’’ رب کعبہ کی قسم ! میں تجھ سے ایسی محبت کرتی ہوں ،جیسی قریش عثمان سے۔‘‘اسی وجہ سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش مکہ سے مذاکرات کے لئے حضرت عثمان کو روانہ فرمایا۔ اور پیر غلام رسول قادری نقشبندی تاریخ الخلفاء اور طبرانی کبیر کے حوالے سے آپ کے جمال و خوب صورتی سے متعلق رقم طراز ہیں کہ:
’’ تمام صحابہ میں سب سے زیادہ خوب صورت تھے، خواہ مرد ہوں یا خواتین۔‘‘ (خلفائے راشدین: پیر غلام رسول قادری،ص69، مطبوعہ سرگودھا)
الغرض کتبِ سیر وتاریخِ اسلام کے لب آپ کے کمالات، خدمات، احسانات، اور فضائل و مناقب سے تر ہیں۔ یہاں چند فرامینِ مصطفی جانِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم پیش کیے جاتے ہیں جو سیدنا عثمانِ غنی رضی اﷲ عنہ کے فضائل و مقام کا پتہ دیتے ہیں۔
حضرت مولا علی کرم اﷲ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:
’’میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سُناکہ اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے عثمان کے نکاح میں دیتا۔‘‘ (خلفائے راشدین: پیر غلام رسول قادری،ص70، مطبوعہ سرگودھا)

ترمذی شریف میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقام حدیبیہ میں بیعت رضوان کا حکم فرمایا اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے قاصد کی حیثیت سے مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے ۔لوگوں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔جب سب لوگ بیعت کر چکے تورسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم نے عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی طرف سے خود بیعت فرمائی۔ لہٰذا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مبارک ہاتھ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے لئے ان ہاتھوں سے بہتر ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے بیعت کی۔

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری علیہ الرحمۃ اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ سرکار اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضر ت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ قرار دیا ۔یہ وہ فضلیت ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ خاص ہے ۔یعنی اس فضیلت سے ان کے سوا اور کوئی دوسرا صحابی کبھی مشرف نہیں ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادی حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کا عقد نکاح آپ رضی اﷲ عنہ سے کیا تو آپ نے فرمایا:احسن زوجین راٰھما انسان رقیۃ و زوجھا عثمان۔’’بہترین جوڑا جسے انسان نے دیکھا ہے حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا اور ان کے خاوند حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ہیں ۔‘‘

جملہ فضائل وخصائص کے باوجود جس طرح کہ صداقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور عدالت حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کا امتیاز ہے ،اسی طرح حیاء حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ سے خاص ہو گیا ۔حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی صفتِ حیاء کے بارے فرمایا:عثمان احیٰ امتی و اکرمھا۔’’میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار اور بزرگ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ہیں ۔‘‘

حضرت زید رضی اﷲ عنہ کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’عثمان میرے پاس سے گزرے تو مجھ سے ایک فرشتے نے کہا کہ مجھے ان سے شرم آتی ہے کیونکہ قوم ان کو قتل کر دے گی تو آپ نے فرمایا کہ جس طرح حضرت عثمان خدا اور اس کے رسول سے حیاء کرتے ہیں ،فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں ۔‘‘

آپ کم سخن اور کم گوتھے ۔شہادت کے وقت جب محمد بن ابو بکر رضی اﷲ عنہما نے آپ کی داڑھی پکڑی تو اس وقت آپ نے محمد بن ابو بکر رضی اﷲ عنہما کے باپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ یار غار نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا حیاء کرتے ہوئے ان کے بیٹے کو فرمایا:’’اگر تیرا باپ تجھے یہ حرکت کرتا دیکھ لیتے تو کیا فرماتے؟‘‘

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں :’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے گھر میں اپنی پنڈلیاں کھولے بیٹھے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے حاضری کی اجازت چاہی ،حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں بلالیا اور اسی طرح لیٹے رہے ۔پھر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اجازت چاہی ،حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو بھی بلالیا اور اسی طرح لیٹے رہے ۔پھر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے اجازت چاہی ،تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور کپڑوں کو درست فرمالیا ۔ پھر جب لوگ چلے گئے تو میں (حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا) نے عرض کیا کہ ابو بکر آئے تو حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے جنبش نہ کی ۔اسی طرح لیٹے رہے پھر حضرت عمررضی اﷲ عنہ آئے حضورصلی اﷲ علیہ وسلم تب بھی لیٹے رہے اور پھر جب عثمان رضی اﷲ عنہ آئے تو حضورصلی اﷲ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور کپڑوں کو درست کر لیا ۔(تو اس کا کیا سبب ہے؟) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’میں اس شخص سے کیوں نہ حیا کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔‘‘

ایک اور روایت میں ہے :’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے فرشتے جس طرح اﷲ اور اس کے رسول سے حیا کرتے ہیں ،اسی طرح عثمان رضی اﷲ عنہ سے حیا کرتے ہیں۔اگر وہ اندر آجاتے تو تم میرے قریب ہوتیں تو وہ بات نہ کرتے اور اپنا سر اٹھاتے ۔حتیٰ کہ باہر چلے جاتے ۔‘‘

یہ شرم و حیاء کے پیکر نگاہِ نبوت میں ممتاز اس عظیم صحابی رسول کو بلوائیوں نے 40 ؍ دن تک محصور رکھا، دیگر اصحابِ کرام آپ سے اصرار کرتے رہے کہ ان سے مقابلہ کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ مگر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ ہی تھے جنہوں نے فتنوں کے ڈر سے قربت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو چھوڑ نا گوارا نہ کیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اپنے محبوب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شہر کو مسلمانوں کے خون سے رنگین ہونے سے بچا لیا اور اپنی عمر کے 82سال میں سے 12سال فریضہ خلافت نبھانے کے بعد 18ذی الحجہ 35ہجری کو جام شہادت نوش فرمایا اور حیاء سخاوت ،ایثار، صبر، حلم کی اعلیٰ روایات قائم کر گئے ۔

شہادت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ تاریخ اسلام کا عظیم ترین سانحہ ہے۔ اگر سوگ اسلام میں جائز ہوتا تو بڑے اعلیٰ پیمانے پر عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کا سوگ منایا جاتا۔ کچھ لوگ اپنے جھوٹے مذہب کی تشہیر کے لیے واقعہ کربلا کا سوگ مناتے ہیں۔ مگر اہل سنت کا یہ طریقہ نہیں۔ بعض اوقات مثال دی جاتی ہے۔ کہ اسلامی سال کا آغاز قربانی سے ہے، اور اختتام بھی قربانی سے۔ آغاز سے مراد واقعہ کربلا اور اختتام سے مراد عید قربان لی جاتی ہے۔ ہمیں یہ نقطہ بھی ملحوظِ نظر رکھنا چاہیے۔ کہ واقعہ کربلا سے پہلے یکم محرم کو حضرت فاروق اعظم کی شہادت سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اور عید قرباں کے بعد 18؍ ذوالحج کو حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کی شہادت سے اسلامی سال کا اختتام ہوتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اسوۂ صحابہ رضی اﷲ عنہم پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔آمین
AteequrRahman Razvi
About the Author: AteequrRahman Razvi Read More Articles by AteequrRahman Razvi: 14 Articles with 16321 views ایک میں کیا میرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
.. View More