نوبل انعام کا شور اور لاشوں پر سیاست

سوات کی گل مکئی المعروف ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام ملنے پر ہر سو چرچا ہے ذرائع ابلاغ اسے پاکستان کی خوش قسمتی،اعزاز کی بات سمجھ کر اسکی خوب تشہیر کر رہا ہے الیکڑانک میڈیا میں تو وقفہ وقفہ سے اسکی تشہیر جاری ہے ملالہ یوسف زئی 9نومبر 2012سے پہلے گم نام تھی سوات میں طالبان کی طرف سے غیر شرعی حرکات،طالبان کی جاسوسی کرنے پر اس پر حملہ کیا گیا اس کے ساتھ دو مزید لڑکیاں زخمی ہوئیں مگر میڈیا ،قوم،حکمران،سیاست دان،ساری قوم نے آج تک ان کانام نہ لیا تب سے ملالہ ملالہ کی رٹ میں لگی ہوئی ہے دوسری دو لڑکیوں کا کوئی نام پتہ نہیں آخر کیوں ؟ ملالہ کے والد یوسف زئی کے بارے میں یہ بات سامنے اسوقت آئی جب اس پر حملہ ہوا کہ اسکا والد امریکی سآئی اے کا کارندہ اور جاسوس ہے جو طالبان کی جاسوسی کرتا ہے ملالہ کو بطور آلہ استعمال کر رہا ہے اسکی تفصیل انہی ایام کے قومی اخبارات میں دیکھی جاسکتی ہے شائد ملالہ کے نظریات سے قوم آگاہ نہ ہو پاتی اگر اس نے آئی ایم ملالہ کتاب نہ لکھی ہوتی اسمیں سنت رسول ﷺ داڑھی سے نفرت،اسلامی تہذیب وتمدن سے بیزاری، قائداعظم ؒاورعلامہ اقبالؒ کے نظریات،نظریہ پاکستان سے بغاوت کی بدبو اب بھی دیکھی جاسکتی ہے ان نظریات اور خدمات کے پیش نظر ملالہ کو عالمی شہرت یافتہ شخصیت بنانے کیلئے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے اس وجہ کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی قوم جمہوریت سے عدم اعتماد کرچکی ہے اپنے نظام حکومت کو بچانے اور اپنا نیوورلڈآڈر ایٹمی پاکستان دنیا پر قائم کرنے کیلئے عالمی کفریہ طاقتیں پاکستان میں عمران خان،طاہرالقادری کے بعد ملالہ کو بطور مستقبل قریب میں قائد کے طور پر تیار کررہی ہیں وگرنہ ملالہ نے کوئی ایسا بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا جس پر انھیں انعام دیا جاتا میں سیاست دان بنوں گی ملالہ کے اپنے نہیں بلکہ انھی قوتوں کے کہلوائے ہوئے الفاظ ہیں جنھیں ملالہ نے اپنے خطاب میں بیان کیا ملالہ کو کامیاب سیاست دان بنانے کے لئے ہوسکتا ہے یہی قوتیں کسی جماعت کے نوجوان سیاست دان سے شادی کروا کر ملالہ کی منزل کو قریب کردیں اور اپنے عزائم کی تکمیل کرلیں (اﷲ نہ کرے) ، مغربی نظام تعلیم کی وکالت میں جو کام ملالہ نے کیا ہے وہ اسکا نہیں بلکہ انھی قوتوں نے کیا جو انعام دینے والی ہیں اگر نوبل انعام پاکستان میں ملنا چاہیے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان، عبدالستار ایدھی جیسی بے شمار غیر متنازعہ شخصیات ہیں جو اس انعام کی حقدار ہیں انھیں اسلئے یہ انعام نہیں دیا گیا کہ انکے نظریات ،خیالات اسلام اور پاکستان کے ساتھ وفاواری پر مبنی ہے ملک پاکستان کو جنھیں یہ انعام دیا گیا وہاں اغیار کے ایجنڈے کے حامل لوگ ہیں تاکہ پاکستان کو سیکولر ملک بنانے میں یہ لوگ اپنا رول پلے کریں ملالہ کے نوبل انعام پر خوشیوں کے شادیانے بجانے والے ایک دن ملالہ کے مکمل عزائم کھل کر سامنے آنے کے بعد یقینا خفت،شرمندگی محسوس کریں گے اپنے شادیانے بجانے والے دن پر۔۔۔۔ اور یہ لوگ اسوقت کہیں گے کہ کاش! یہ دن آیا ہی نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔۔۔۔۔۔

٭قو م کے ساتھ مذاق در مذاق ہو رہا ہے اب یہ مذاق لاشوں کی سیاست تک پہنچ گیاہے جس کا نظارہ قوم نے اپنی آنکھوں سے گذشتہ دن ملتان میں تحریک انصاف کے جلسے میں دیکھا اس سے جاوید ہاشمی کے انکشافات کی تصدیق ہورہی ہے سچ کی تلقین کرنے والی تحریک انصاف اب خود جھوٹ پر جھوٹ بولنے میں اپنی آفیت سمجھ رہی ہے تحریک انصاف کے ذمہ داران نے ملتان کی سرکاری انتظامیہ کو لائٹنگ، سیکیورٹی،انتظا م خود کرنے کے عہد کئے مگر ایک معروف ٹی وی چینل اور اخبارات کی رپورٹس کے مطابق تحریک انصاف کی انتظامیہ نے اس جلسے کے انتظامات ذمہ داری سے ادا نہیں کئے مرد عوام کیلئے ایک گیٹ مختص کرنا تحریک انصاف کی قیادت کا پلان تھا جست ٹی وی اور اخبارات پردوسرے دن نشر بھی کیا گیاتحریک انصاف کی طرف سے سیکیورٹی ناقص ہونے کی وجہ سے دوران جلسہ بے شمار لوگ اسٹیج پر چڑھ گئے جبکہ حکومت سے اجازت لینے والوں نے سرکاری انتظامیہ کو یقین دلایا تھا کہ اسٹیج پر غیر ضروری لوگ نہیں آئیں گے مگر ایسا بھی نہ ہو سکا۔ جس پر عمران خان نے اظہار برہمی بھی کیا مگر اسوقت کافی دیر ہوچکی تھی تقریروں کے دوران ہی نوجوان اسٹیج کے قریب بے ہوش ہونا شروع ہوگئے تھے جس کے اعلانات اسپیکر کنٹرول نے کئے مگر قیادت نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات سنی ان سنی کردی جلسہ ختم ہونے کے بعد عوام کو باہر نکلتے وقت دقت کا سامنا کرنا پڑا اور سانس ،دم گھٹنے کی وجہ سے افراد ہلاک جبکہ 3درجن کے قریب لوگ شدید زخمی ہوگئے انسانوں کی قیمتی جانیں بچانے کیلئے 1122نے پانی مظاہرین پر پھینکا جلسے کے فوری بعد لائٹیں بند ہوگئیں کیوں ؟ کیا تحریک انصاف کی قیادت نے گیٹ پر لائٹنگ کا انتظام کیا تھا ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ کیا جلسہ گاہ کے گیٹ پر روشنی کرنا تحریک انصاف کی ذمہ داری نہیں تھی؟ تحریک انصاف کو ان امور پر غور کرنے کی ضرورت تھی مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا بلکہ سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سرکاری لائٹیں بند کرنا سازش تھا یا لوڈشیڈنگ شیڈول ۔۔ اس پر حکومت کو تحقیق کرکے قوم کے سامنے لانا ہوگا اس خوف نا ک سانحہ کے بعد جنازے ادا کئے گئے ان جنازوں میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت شریک نہ ہوئی بلکہ جاوید ہاشمی وہاں نمایاں نظر آئے ان حقائق کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور قاری اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ اس سانحہ کا ذمہ دار کون ہے ؟ اس پر ہمیں لکھنے کی اب ضرورت نہیں رہی اسوقت اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت دیکھنے کو ملے گی کہ حکومت انڈیا کے حملوں کے نتیجے میں ایک درجن قیمتی جانیں قربان کروانے کے باوجود انڈیا کو سخت پیغام کی بجائے نرم پیغام دے کر اور تحریک انصاف اپنی غلطیوں کو ماننے کی بجائے منفی پروپیگنڈا کرکے لاشوں کی سیاست کر رہی ہے یہ سلسلہ کب ختم ہوگا ؟ یہ گھناونہ مجرمانہ فعل تب تک جاری و ساری رہے گا جب تک اسلام،پاکستان،پاکستانی قوم ،مسلمانوں کی ہمدرد قیاد ت مہیا نہیں ہو جاتی یہ مخلص قیادت صرف اور صرف اسلام،قرآن کے نظام خلافت کا مطالبہ کرنے والوں کے سوا کسی جماعت کے پاس نہیں ۔۔۔ آپ کو حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اسلام قرآن کہتا ہے کہ عہدہ،امارت و قیادت ایک ذمہ داری ہے جس کے ایک ایک لمحے کا جواب حاکم وقت کو اﷲ کے حضوردینا ہوگا جبکہ جمہوریت کا اصول ہے عہدے جاہ و جلال،رعب اور دب دبے کیلئے ہوتے ہیں اسی لئے تو خلیفہ دوئم سیدنا فاروق اعظم ؓ نے فرمایا تھا کہ اگر دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر ؓ سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔۔۔ آج تک کسی جمہوری حکمران نے ایسے خوف خدا سے لبریز جملے ادا نہیں کئے وجہ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہم تو انسانی لاشوں کی سیاست کرتے ہیں جانور تو ہمارے کھاتے سے باہر ہیں ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245520 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.