سٹیٹ سی سی اور عیدالاضحی

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عباس ؓ فرماتے ہیں حضرت عمر ؓ میرے بڑے گہرے دوست تھے جب ان کا انتقال ہوا تو میں سال بھر اﷲ سے دعا کرتارہا کہ اﷲ تعالیٰ خواب میں حضرت عمر ؓ کی زیارت کرا دے آخر سال گزرنے کے بعد میں نے انہیں خواب میں دیکھا کہ وہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہے ہیں ۔ میں نے کہا اے امیر المومنین ! آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ انہوں نے کہا اب میں (حساب سے )فارغ ہوا ہوں اگر میرا رب شفقت اور مہربانی کا معاملہ نہ کرتا تو میری عزت اور وقار سب گر جاتا۔

دو موضوعات پر آج سب پڑھنے والوں کے سامنے ایک مختصرسا کالم پیش کر رہے ہیں محکمہ سماجی بہبود و ترقی نسواں کی وزیر محترمہ فرزانہ یعقوب نے جب سے اس محکمہ کا چارج سنبھالا ہے تب سے مختلف دلچسپ قسم کی پیش رفت جیسی چیزیں دیکھنے میں آرہی ہیں پہلے مرحلہ میں ہم نے دیکھا کہ آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں سماجی بہبود اور ترقی نسواں کے نام سے دو علیحدہ شعبے متعارف کرائے گئے ان دونوں شعبوں کے ڈائریکٹرز سرفراز احمد عباسی اور سردار لیاقت خان ہیں جبکہ سابقہ سیکرٹری راجہ عباس خان نے محکمہ کو نئی بنیادوں پر استوار کرنے کے بعد شعبہ تعلیم کی طرف رخت سفر باندھا اور ان کی جگہ وزیراعظم آزاد کشمیر کے سابق پرنسپل سیکرٹری احسان خالد کیانی نے لے لی جو ایک انتہائی پروفیشنل قسم کے بیوروکریٹ ہیں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ آزاد کشمیر کے تمام اضلاع کی تمام تحصیلوں میں پہلے مرحلے میں ’’تحصیل کوارڈنیشن کونسلز‘‘ اور دوسرے مرحلے میں ’’ڈسٹرکٹ کوارڈنیشن کونسلز‘‘ بنائی گئیں ان کونسلزمیں پورے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والی رضا کار تنظیموں یعنی این جی اوز کے عہدیداروں کو مختلف ذمہ داریاں سونپی گئیں ۔ تحصیل میرپور میں ڈاکٹر طاہر محمود صدر انجمن فلاح ِ بہبود انسانیت کڈنی ڈائلاسز سنٹر کو صدارت کی ذمہ داری دی گئی جبکہ راقم جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔ ڈسٹرکٹ سی سی میں معروف میر جنرل سیکرٹری جموں وکشمیر نیشنل ہیلپ سنٹر کو صدارت کا عہدہ دیا گیا اور محترمہ سعیدہ اکبر کو جنرل سیکرٹری کی ذمہ داریاں دی گئیں ۔ میرپور میں سماجی بہبود کی مختلف اکٹیوٹیز ڈاکٹر اصغر ، سہیلہ اعجاز ، سردار شکیل خان اور آفاق احمد قریشی گزشتہ دو سالوں سے رضا کارانہ انداز میں انتہائی انقلابی طریقہ سے کروا رہے ہیں سردار شکیل خان سے ہمارے دو تعلق ہیں وہ ہمارے اچھے دوست بھی ہیں اور زمانہ طالب علمی میں جب ہم زرعی یونیورسٹی راولاکوٹ میں بی ایس سی آنرز فائنل ائیر فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طالب علم تھے تو بائیو کیمسٹری جیسے ٹیکنیکل مضمون کو پڑھانے کیلئے سردار شکیل خان نے یونیورسٹی کو جائن کیا وہ بھی ایک نوجوان لکچرار تھے اور ہم بھی ایسے دوست نما استادوں کے مداح تھے ۔ یہ تعلق آج بھی قائم و دائم ہے ۔ خیریہ تو ضمنی بات تھی یہیں پر ہم یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ اسے اتفاق کہیے یا کچھ اور کہ محکمہ سماجی بہبود کے موجود ڈائریکٹر سردار لیاقت خان نے بھی گریجویشن ہمارے مضمون یعنی فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے کی تھی ۔

قارئین ! گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں محکمہ سماجی بہبود و ترقی نسواں نے آزاد کشمیر کے تمام اضلاع کے نمائندگان کو ایک مقامی ہوٹل میں ’’ سٹیٹ کوارڈینیشن کونسل ‘‘ مرتب کرنے کیلئے دعوت دی سردار لیاقت خان نے اس موقع پر نیشنل کوارڈینٹر جاوید احمد ، سوشل ویلفیئر آفیسر مختاراعوان کی موجودگی میں تمام حاضرین کو اس کونسل کے قیام کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا میرپور سے ڈاکٹر طاہر محمود ، محمد معروف میراور سعیدہ اکبر نے اس کانفرنس میں شرکت کرنا تھی لیکن سی ڈی پی کے آفیسر چوہدری یاسر بشیر اور دیگر دوستوں کے اصرار پر ڈاکٹر طاہر محمود نے ہماری ڈیوٹی لگائی کہ ہم محمد معروف میر کے ہمراہ اس کانفرنس میں میرپور کی نمائندگی کریں ۔ اس لئے ’’حکمِ حاکم‘‘ کی تعمیل کرتے ہوئے ہم نے رات دو بجے محمد معروف میر کی سربراہی میں رخت سفر باندھا اور براستہ مری میرپور سے مظفرآباد روانہ ہو گئے ۔ سردارلیاقت خان کی بریفنگ میں ہم دونوں میرپور کی نمائندگی کر رہے تھے جبکہ دیگر شرکاء میں لیاقت حسین گیلانی آر سی ایس او حویلی فاروڈ کہوٹہ ، چوہدری عبدالعزیز اسلامیہ کمیٹی ہٹیاں بالا ، خواجہ نذیر احمد ایگل ویلفیئر ایسوسی ایشن مظفرآباد ، سلطان اقبال عباسی انجمن اصلاح معاشرہ مظفرآباد ، راجہ آفاق احمد دان ویلفیئر مظفرآباد، عبدالشکور قریشی ایل ایس او کوٹلی، محترمہ سیدہ نجمہ شکورویمن ویلفیئر آرگنائزیشن آف پونچھ راولاکوٹ، راجہ پرویز پہلوان جے کے ڈبلیو اے راولاکوٹ، نثار عادل سوشل سروسز راولاکوٹ، غلام مصطفی طاہر ہٹیاں بالا ، محمد شبیر ہٹیاں بالا ، خرم شاہد ایس ڈی او وادی نیلم شاردہ ، خواجہ ریاض قیوم سی ڈی او وادی نیلم اٹھ مقام، مشتاق احمد شیخ شاہین یوتھ باغ، عبدالخالق راٹھور مون ویلفیئر فاؤنڈیشن حویلی ممتاز آباد ، ایم سعید خان عباسی چراغِ منزل دیر کوٹ باغ، راجہ محمد نصیر سٹار فاؤنڈیشن باغ ، محمد فضل الحق این ڈبلیو ایف کھوئی رٹہ کوٹلی ، شیخ اشفاق احمد ایف ڈبلیو ٹی ڈی سی سی باغ، خواجہ خورشید احمد گاش ویلفیئر سوسائٹی ہٹیاں بالا ، مقصود احمد کشمیر ویلفیئر شاردہ نیلم ، ظہیر عزیز سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ مظفرآباد ، محمد اقبال سوشل ویلفیئر آفیسر نیلم ، ثناء شفیق کمپیوٹر آپریٹر مظفرآباد سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ، محمد جاوید خان سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ راولاکوٹ نے بھی شرکت کی ۔ اس بریفنگ میں ڈائریکٹر سردار لیاقت خان نے حکومت آزاد کشمیر کی اس نیک خواہش کا اظہار کیا کہ آزاد کشمیر میں کام کرنے والی تین سو ساٹھ سے زائد این جی اوز کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنے کیلئے جہاں تحصیل و ضلع کے لیول پر کوارڈینیشن کونسلز کا قیام عمل میں آیا ہے اب آخری مرحلہ میں ان تمام کوششوں کو مربوط کرنے کیلئے ’’ سٹیٹ کوارڈینیشن کونسل ‘‘ کا قیام عمل میں لا رہے ہیں جس کے سلسلہ میں تمام آزاد کشمیر سے لوگوں کو یہاں اکٹھا کیا گیا ہے سردار لیاقت خان کی اس بریفنگ کے بعد نیشنل کوارڈینٹر جاوید احمد نے شرکاء اجلاس کو فرائض و ذمہ داریوں سے آگاہ کیا ۔ اس اجلاس میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ دنیا بھر کی امداد کرنے والی رضا کار تنظیمیں اور ادارے اس وقت پاکستان و آزاد کشمیر میں بھی پسماندہ علاقوں کو ترقی دینے کیلئے یہ چاہتی ہیں کہ این جی اوز کو ہی فنڈنگ کی جائے تاکہ احتساب کا ایک بہترین نظام بھی ترتیب پا سکے اور آؤٹ پٹ اور ان پٹ میں ایک توازن عملی طور پر سامنے آئے جس کا غریب عوام کو فائدہ ہو ۔ اقوام متحدہ ، یوایس ایڈ ، یو کے ، ایف آئی ڈی ، اے ڈی بی پی سمیت دنیا بھر کی نامور تنظیمیں اس سلسلہ میں آزاد کشمیر میں کام کر رہی ہیں اور وہ ہر علاقہ کی اصل تنظیم کے ذریعے آپریٹ کرنا چاہتی ہیں یہاں ہم پڑھنے والوں کی دلچسپی کیلئے تحریر کرتے چلیں کہ 2005ء کے تباہ کن زلزلے کے وقت بین الاقوامی اداروں نے پاکستان و آزاد کشمیر میں تباہی پھیلانے والے نقصان کو سمیٹنے کیلئے دل کھول کر ڈونیشن بھی دی اور عملی امداد کیلئے بذات خود بھی یہاں پہنچے ہم نے اس حوالہ سے ایرااور سیرا کے ذمہ دار ترین لوگوں سے مختلف انٹرویوز ریڈیو آزاد کشمیر ایف ایم 93کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘ میں کیے ان انٹرویوز میں چیدہ چیدہ شخصیات میں موجودہ صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب خان ، موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ، موجودہ سیکرٹری کشمیر افیئرز و گلگت بلتستان شاہد اﷲ بیگ، سابق صدر و وزیراعظم سردار سکندر حیات خان، سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان ، سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ، موجودہ سیکرٹری پلاننگ ڈاکٹر آصف، موجودہ سیکرٹری سیرا سردار رحیم خان سمیت دیگر بہت سے احباب شامل ہیں ان تمام دوستوں سے ہونے والی گفتگو میں یہ انکشاف بھی ہمارے سامنے آیا کہ اس زلزلہ کے بعد ہونے والے نقصان کا تخمینہ چھ سو ارب روپے کے قریب لگایا گیا تھا اور اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار سکندر حیات خان نے مظفرآباد دارالحکومت میں بیٹھ کر بین الاقوامی میڈیا کے سامنے یہ جملہ دوہرا یا تھا کہ ’’ میں ایک قبرستان کا وزیراعظم ہوں ‘‘ اس نقصان کے ازالے کیلئے بین الاقوامی اداروں نے 800ارب روپے سے زائد کے عطیات نقدی کی شکل میں دئیے جبکہ ترکی ، سعودی عرب، ایران ، امریکہ ، برطانیہ سمیت دنیا کے درجنوں مسلم و غیر مسلم ممالک نے کنسٹرکشن کے منصوبوں، انفراسٹرکچر کی فراہمی ، ریلیف سرگرمیوں کیلئے جو امداد کی اس کا آج تک تخمینہ نہیں لگایا جا سکالیکن وہ رقم بھی کئی سو ارب روپے بتائی جاتی ہے ۔ اس سب کے باوجود سیکرٹری آزاد کشمیر حکومت سردار رحیم خان نے انکشاف کیا تھا کہ آج بھی کئی منصوبے پچاس فیصد تکمیل تک بھی نہیں پہنچے اور سکولوں ، ہسپتالوں و دیگر عمارتوں کی تعمیر کیلئے فنڈز درکار ہیں ۔ ہم اس پر یہ تبصرہ تو نہیں کرتے اس کا ذمہ دار کون ہے اور خدانخواستہ رقم خردبرد ہوئی ہے لیکن یہ بات صاف ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ایسا ہوا ہے کہ یہ منصوبے ابھی بھی مکمل نہیں ہو سکے ۔ اس حوالہ سے موجودہ سیکرٹری سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ احسان خالد کیانی و ڈائریکٹرز سردار لیاقت خان اور سرفراز احمد عباسی اپنے محکمے کی وزیر محترمہ فرزانہ یعقوب کی سربراہی میں آزاد کشمیر کی تین سو ساٹھ سے زائد این جی اوز کو ایک پلیٹ فارم ’’سٹیٹ سی سی ‘‘ (سٹیٹ کوارڈینیشن کونسل) پر اکٹھا کر کے رضا کارانہ تنظیموں اور رضا کاروں کو مربوط کرنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ یہاں ہم بقول چچا غالب یہ کہتے چلیں
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
خدایا جذبہ دل کی مگرتاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مجھ سے
وہ بد خو، اور میری داستان ِ عشق طولانی
عبارت مختصر ، قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے
اُدھر وہ بدگمانی ہے ، ادھر وہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے
سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیال ِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
تکلف برطرف ، نطنارگی میں بھی سہی لیکن
وہ دیکھا جائے ، کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے
ہوئے پاؤں ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے ، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالب
وہ کافرجو خدا بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے

قارئین!کچھ باتیں یہاں ہم آزاد کشمیر و پاکستان میں آنے والی زرد زرد ، سوگوار، لہو لہو عیدالاضحی کے متعلق بھی کرتے چلیں ۔ سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے عید کے موقع پر 8اکتوبر 2005کے زلزلہ کی سوگوار یاد بھی آرہی ہے اور اس عید پر مقبوضہ کشمیر میں آنے والے خوفناک سیلاب کے نتیجہ میں پھیلنے والی تباہی کے اثرات بھی ہر کشمیری و پاکستان کے قلب و ذہن پر چھائے ہوئے ہیں ۔ اس سیلاب کے نتیجہ میں آزاد کشمیر اور پاکستان میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے اور لاکھوں متاثر ہوئے لیکن سب سے زیادہ تباہی مقبوضہ کشمیر میں ہوئی اور پورا سرینگر پانی میں ڈوب گیا ، محتاط اندازے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں کئی لاکھ افراد سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے تو مگر مچھ کے آنسو بہائے لیکن کشمیریوں کی عملی مدد کیلئے بھارت نے انٹرنیشنل این جی اوز کو بھی کام کرنے کی اجازت نہیں دی اور خود بھی مناسب ریلیف نہیں پہنچائی جس کی وجہ سے تباہی کا دائرہ روز بروز وسیع ہو رہا ہے ۔ ریڈیو آزاد کشمیر اور ایف ایم 93میرپور نے سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی سربراہی میں ’’ ہم سب سری نگر ہیں‘‘ کے عنوان سے میرا تھن ٹرانس میشن کے ذریعے پوری دنیا کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی اور آزاد کشمیر کے ٹریڈ روٹ کو مقبوضہ کشمیر جانے والے ایڈ روٹ میں بدلنے کی تجاویز بھی پیش کیں۔ دیکھتے ہیں کہ پوری عالمی برادری اور بھارت ان تجاویز کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ ہم 2005ء کے زلزلہ متاثرین کے ساتھ ہیں اور شہداء کیلئے دعا گو ہیں اور تمام دوستوں سے اپیل کرتے ہیں کہ 2014ء مقبوضہ کشمیر میں آنے والے سیلاب متاثرین کی مد دکیلئے جو کردار بھی ادا کر سکتے ہیں اس عید کے موقع پر وہ کردار ضرور ادا کریں۔ آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
عاشق نے اپنی محبوبہ سے پوچھا۔
’’ اگر یہ سب دولت میرے پاس نہ رہے تو کیا تم تب بھی مجھ سے محبت کروگی ‘‘
محبوبہ نے برجستہ جواب دیا ۔
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں میں تمہیں ساری زندگی یاد رکھوں گی ‘‘

قارئین ! بدقسمتی سے رضا کاروں کے نام پر اور خیر خواہوں کے نام پر بعض لوگ دکانیں کھول کر بیٹھے ہیں اور لکشمی ختم ہوتے ہی یاد ہی باقی رہ جاتی ہے ان کا وجود ختم ہو جاتا ہے ۔ اﷲ تمام این جی اوز کو سچے جذبوں کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336288 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More