سوچیں ، وسوسے اوراندیشے

سوچیں، وسوسے، اندیشے موجودہ سیاسی حالات میں ہر شخص کی طرح اک گرداب کی صورت میرے ذہن میں سمائی ہیں اور میں کوشش کے باوجود ان پر قابو نہیں پا رہا۔ سوچتا ہوں نعرے تو سبھی نے لگائے ایک اکیلا ارجمند تو نہیں تھا۔ مگر ارجمند کے شاید دو قصور تھے ایک یہ کہ وہ اس کوریئر کمپنی کا ملازم تھا کہ جس کمپنی کو اپنے کام کی وسعت کے لئے ہر وقت حکومتی امداد کی ضرورت ہوتی ہے اور کمپنی کسی بھی صورت میں حکومت اور حکومتی اشرافیہ کو ناراض نہیں کر سکتی۔ دوسرا وہ فقط ارجمند تھا کسی وی آئی پی یا کسی بڑے آدمی کا فرزند ارجمند نہ تھا۔ میرے جیسے مڈل کلاسیوں کا بیٹا یا بھائی۔ جس کی اوقات اتنی ہی ہوتی ہے کہ نوکری سے نکال دیا تو چپ چاپ گھر کو سدھارے۔ ارجمند کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ نعرے بازی کا دن تو خیریت سے گزرا۔ اگلی صبح وہ کام پر آیا تو ایک پروانہ موصول ہوا کہ اب تمہاری کمپنی کو تمہاری ضرورت نہیں۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ارجمند کو فارغ خالصتاً میرٹ پر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں تمام بڑی کمپنیوں کی یہ خوبی ہے کہ وہ بھرتی تو میرٹ پر نہیں کرتیں مگر فارغ خالص میرٹ پر کرتی ہیں۔

سوچتا ہوں شاید اسی لئے PIA کا نعرہ ہے۔ باکمال لوگ لاجواب سفر۔ اس دن بھی PIA کی پرواز PK-370 صرف اور صرف دو گھنٹے لیٹ تھی اس لئے کہ کچھ باکمال لوگ جو اس فلائٹ میں سفر کر رہے تھے ابھی تک تشریف نہیں لائے تھے۔ مسافر پریشان تھے اور چیخ چیخ کر پوچھ رہے تھے کہ طیارہ روانہ کیوں نہیں ہو رہا؟ لیکن کوئی جواب دینے کو تیار نہیں تھا۔ مسافر ہر طرف سے لاجواب، اپنے لا جواب سفر کی امید پر جہاز کے کھلے دروازے کو دیکھ رہے تھے کہ شاید کوئی جواب آئے۔ پہلے ایک جواب آیا کہ فنی خرابی ہے مگر خرابی ہو تو اس کے ازالے کی سعی بھی ہوتی ہے جو نظر بھی آتی ہے مگر ایسے کچھ حالات نظر نہیں آ رہے تھے۔ چونکہ یہ پہلا اتفاق نہیں تھا۔ PIA میں تو یہ روٹین کا مسئلہ ہے۔ مسافروں میں بہت سے لوگوں کو اندازہ تھا کہ کچھ معززین تشریف لانے والے ہیں اور جہاز ان کے انتظار میں لیٹ کیا جا رہا ہے۔ پہلے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے جناب کمار صاحب تشریف لائے۔ ایک مسافر نے نعرہ لگایا تو سبھی جذباتی ہو گئے۔ MNA صاحب کو تھوڑی سی بدتمیزی برداشت کرنا پڑی مگر وہ جان بچا کر جہاز سے غائب ہو گئے۔ اس کے فوراً بعد سابق وزیر داخلہ اورموجودہ جرگے کے اہم رکن جناب رحمن ملک تشریف لائے۔ وہ جہاز کے دروازے سے ابھی کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ عوام کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر واپس بھاگ گئے۔
سوچتا ہوں کسی ایک عوامی نمائندے کے ساتھ بدتمیزی تو پوری جمہوریت کے ساتھ بدتمیزی ہے۔ پوری پارلیمان کے ساتھ گستاخی ہے۔ اسے خاموشی سے پی جانے سے جمہوریت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے جمہوریت کو خطرے سے بچانے کے لئے ارجمند جیسے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک گستاخ کوسزا دینا بنتی تھی۔ بس سزا کے طور پر ارجمند کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ مجھے یقین ہے کچھ اور گستاخ بھی اگلے چند دن میں اس قربان گاہ پر بھینٹ چڑھائے جائیں گے تاکہ جمہوریت پوری طرح محفوظ ہو جائے۔

سوچتا ہوں رحمن ملک بھی کمال آدمی ہیں۔ وی آئی پی بننے کے لئے انہوں نے بہت لمبا اور کٹھن سفر طے کیا۔ ان کے محنت کے ابتدائی دنوں کے بارے میں ان کے آبائی علاقے کے لوگ بہت خوبصورت کہانیاں سناتے ہیں۔لوگ بڑے ظالم ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو کہانیاں بنا کر اچھے بھلے شخص کی حجامت بنا دیتے ہیں۔ ملک صاحب بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی کے انچارج تھے۔ مگر زرداری صاحب سے ان کا خاص تعلق تھا۔ وہ اس وقت بھی بی بی سے زیادہ زرداری کے وفادار تھے۔ بی بی جب شہید ہوئیں اس وقت بھی یہ وہیں موجود تھے۔ کل کا مورخ اس جانکاہ حادثے کے ساتھ ساتھ رحمان ملک کی زرداری صاحب کے لئے ان تمام خدمات کا بھی سنہری الفاظ میں ذکر کرے گا جو آج کسی وجہ سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔
سوچتا ہوں زرداری صاحب بہت ذہین آدمی ہیں۔ انہوں نے اپنے عہد میں میرٹ کو بہت کمال فروغ دیا۔ وہ ہر پوسٹ پر اسی آدمی کو تعینات کرتے تھے جس کا اس شعبے میں طویل تجربہ ہواور اس کی دستاویزات اس کی گواہی دیتی ہوں۔ سنا ہے ان کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت میں ایک انتہائی اہم پوسٹ پر کسی سائنس سے وابسطہ نامور شخصیت کی پوسٹنگ کرنی تھی۔ بہت سے لوگوں نے اپلائی کیا۔ ان میں کوئی ریاضی دان تھا، کسی کا تعلق فزکس سے تھا، کسی کا کیمسٹری سے، کسی کا زوالوجی سے، کسی کا باٹنی سے۔ مگر زرداری نے اس شخص کو سائنس سے تعلق رکھنے والی اس اہم پوسٹ پر تعینات کیا کہ جس کی ڈگری پر واضح سائنس کے الفاظ درج تھے۔ منتخب ہونے والے موصوف پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر تھے۔ کمال میرٹ ہے۔ بلکہ میرٹ کی انتہا ہے۔

سوچتا ہوں رحمن ملک کو جب وزیر داخلہ بنایا گیا تو ان کا میرٹ بھی داخلہ ہی تھا۔ مجھے بہت سے دوستوں جو اس حقیقت سے پوری طرح واقف تھے یہ بات بتائی تھی۔ داخلے کے بارے میں ان کا بے پناہ تجربہ اور سب سے زیادہ داخلہ دینے والوں سے تعلقات ،یہی میرٹ تو زرداری صاحب کو پسند آیاتھا۔ سنا ہے زرداری صاحب نے پاس بیٹھے رحمن ملک کو پوچھا وزیر داخلہ کسے لگائیں کسی ایسے شخص کا بتاؤ جو میرٹ پر پورا اترتا ہو اور اسے میرٹ پر وزیر داخلہ لگایا جاسکے۔ رحمن ملک پہلے شرمائے پھر عرض کی جناب اگر آپ برا نہ منائیں تو عرض کروں؟ زرداری صاحب نے ارشاد فرمایا کہ بغیر کسی جھجک کے کھل کر بات کرو۔ رحمن صاحب نے فرمایا کہ داخلوں کے سلسلے میں مجھ سے زیادہ تجربہ کار بندہ آپ کو کوئی دوسرا نہیں ملے گا۔ میں نے FIA میں کئی سال رہنے کے باوجود کبھی خود کو مقدمات کی تفتیش جیسے فضول معاملے میں خود کو نہیں الجھایا۔ صرف اور صرف افسروں کی خدمت کی ہے۔ ان کے تمام بچوں کو شہر بھر کے بہترین سکولوں میں داخلہ لے کر دیا ہے اور یہ کوئی دس بیس یا سو بچے نہیں، ان بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن کے داخلے کا میں نے اہتمام کیا ہے۔ ان میں ایسے ایسے نایاب گوہر بچے بھی ہیں جنہیں کوئی ادارہ داخلہ دینے کو تیار ہی نہیں تھا مگر میری محنت کے نتیجے میں وہ بچے شہر کے بہترین سکولوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ زرداری صاحب نے بڑھ کر رحمن ملک کو گلے لگا لیا کہ افسوس انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ وزارت داخلہ کے لئے ایسا ہونہار شخص ان کے پاس ہی موجود ہے۔ پس رحمن ملک میرٹ پر وزیر داخلہ ہو گئے۔

سوچتا ہوں جاوید ہاشمی ہمیشہ سے لوٹا تھا مگر میں نے محسوس نہیں کیا یاوہ لوٹا نہیں تھا مگر اب اتفاقاً لوٹا اس کے دماغ میں گھس گیا ہے۔ جاوید ہاشمی کا بیان ہے کہ جنرل پاشا کے حوالے سے اس کے پاس بہت سی کہانیاں ہیں۔ کل ایک دوست ملا تھا۔ اس کے ہمراہ ایک فوجی تھا۔ تعارف ہوا تو میرا دوست بتانے لگا فوج سے ریٹائرڈ بہت بڑے افسر ہیں۔ پوچھا کرنل تھے یا جنرل؟ جواب ملا بہت بڑے افسر تھے۔ بھائی کوئی رینک تو ہو گا۔ جواب ملا رینک کو چھوڑ جنرل پاشا کے اردلی یعنی خاص کارندے۔ میں نے ہنس کر کہا اردلی اور بڑا افسر۔ فوجی برا مان گیا۔ کہنے لگا آپ مجھے بڑا افسر نہیں مانتے۔ آپ کے بڑے بڑے نامورسیاستدان جب میرے دفتر آتے ہیں تو میں ان سے اسی طرح کام لیتا ہوں جس طرح جنرل پاشا مجھ سے لیتے تھے۔ اردلی اگر چھوٹی بات ہو تو وہ میرے ذاتی اردلی بن کر میرے دفتر میں کیوں بیٹھے رہتے تھے؟ جنرل پاشا تو ان کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے ان کی نوے فیصد کہانیاں مجھ سے ملاقات کے بعد ہی جنم لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ذہن میں اک وسوساابھرا ہے ۔۔۔۔ ہمارے جاوید ہاشمی بھی کہیں اس اردلی کے۔۔۔نہیں ۔ نہیں۔۔۔۔ وسوسے تو عام طور پر بس وسوسے ہی ہوتے ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 445751 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More