حکمرانوں کا آئندہ لائحہ عمل

دھرنوں اور جلسوں سے پورے ملک کی فضا متاثر ہورہی ہے۔اگرکوئی بات سچ ہے تو اس کاتو ایک ہی دفعہ کہنا کافی ہوتا ہے۔لیکن جھوٹ کو باربار دھرانے سے کچھ لوگو ں پر اثر ضرور ہوجاتا ہے۔نظر یہی آرہا ہے کہ دھرنوں کے دونوں لیڈر اپنی تحریک کو اسلام آباد تک محدود نہیں رکھیں گے۔بلکہ اب جلسوں کے ذریعے ملک کے طول وعرض میں پھیلائیں گے۔عمران خان نے تو اسلام آباد سے باہر نکل کر کراچی اور گزشتہ رات لاہور میں جلسہ کر ڈالا ہے۔دونوں جلسوں کو بڑے جلسے ہی کہا جارہا ہے۔اب میانوالی اور ملتان کا اعلان ہوگیا ہے۔اس کے بعد ملک کے باقی شہروں کا رخ کیاجائے گا۔طاہر القادری صاحب بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔اس تمام صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اب موجودہ حکمرانوں کو اپنا آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیئے۔اگر جلسوں اور ریلیوں کا جواب اسی انداز سے دیاجائے تو یہ صورت حال ملک کو انتشار کی طرف لے جائے گی۔وزیراعظم نواز شریف کو اپنے پارلیمانی ساتھیوں سے ملکر کوئی آئیندہ کی حکمت عملی بنانی چاہیئے۔دونوں لیڈروں کی طرف سے جو زہریلا پروپیگنڈکیا جارہا ہے۔اس کاتوڑ سوچنا ضروری ہے۔صرف پارلیمنٹ کی تقریریں اس پروپیگنڈے کا توڑ نہیں ہوسکتیں۔تمام سیاسی پارٹیوں کے مشترک جلسے شاید ماثر ثابت ہوں۔اس بارے سوچ بچار ہونی چاہیئے۔دیہاتوں اور شہروں کے عام لوگوں کو اس زہریلے پروپیگنڈے سے محفوظ رکھنے کے لئے عوام کی خدمت کے بلاواسطہ پروگرام ترتیب دینے چاہیئے۔فوری مسلۂ تو سیلاب متاثرین کی بحالی کا ہے۔اس کے لئے پنجاب حکومت کافی توجہ دے رہی ہے۔یکم اکتوبر2014ء سے ہر متاثرہ خاندان کو25000روپے کی ادائیگی بہت ہی مناسب پروگرام ہے۔عوام اس رقم سے اپنے مکانات کو پہنچنے والے چھوٹے چھوٹے نقصانات کا ازالہ کرسکیں گے۔اور کچھ نہ کچھ خوراک کا انتظام بھی ہوسکے گا۔اس کے بعد فصلوں اور مکانوں کا سروے کیاجائے گااور دوسری قسط کی ادائیگی20اکتوبر یا اس کے بعد کسی بھی تاریخ کو شروع کردی جائیگی۔یہ کام تینوں حکومتوں یعنی آزاد کشمیر،پنجاب اور سندھ کو ترجیحی بنیادوں پر کرنا ضروری ہے۔نادرا کا ریکارڈ اس کام میں ضرور معاون ہونا ہوگا۔پہلی قسط کے بعد رقم اتنی دینی چاہیئے جس سے ان کے تباہ شدہ گھر واقعی تعمیر ہوجائیں۔ادائیگی سے پہلے سخت سکروٹنی ضروری ہے۔تاکہ امداصرف حقدار تک پہنچے۔جنکی فصلیں ضائع ہوگئی ہیں ان کا بھی خیال رکھاجائے۔حکومت نے جو ترقیاتی بجٹ بنایاتھا۔اس پر بھی دوبارہ نظر ڈالنی چاہیئے۔ترقیاتی بجٹ چاہے قومی ہوں یا صوبائی یہاں سے رقم نکال کر شعبہ خوراک پر لگانی چاہیئے۔یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان میں افراط زر اب 8فیصد سالانہ ہے۔لوگوں کی قوت خرید اس افراط زر سے دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔اور خوراک خریدنا مشکل ہورہا ہے۔ایسے طریقے اختیار کئے جائیں کہ پاکستان میں خوراک کے نرخ کم ہونے شروع ہوجائیں۔بہتر طریقہ خوراک کی سپلائی بڑھانے میں ہے۔جہاں خوراک پیدا ہوتی ہے وہاں سہولیات میں اضافہ کیاجائے۔اجناس،سبزیوں اور پھولوں کی پیداوار میں اضافے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیاجائے۔گندم کی فصل کی کاشت کا موسم قریب ہے۔بہت سے کھیتوں میں ابھی پانی کھڑا ہے۔انہیں نکالنے کے لئے پمپنگ سسٹم اختیار کیاجائے۔ایسے علاقوں کی طرف نکالا جائے جو فصلوں کے لئے استعمال نہ ہوتے ہوں۔کسانوں کو درآمدی بیج فراہم کئے جائیں۔یا اپنے ملک کے بیج مفت فراہم کئے جائیں۔گندم کے ساتھ دوسری فصلوں جیسے چاول اور کپاس کی طرف بھی توجہ دی جائے۔لگتا ہے کہ کپاس کو اس سیلاب سے کافی نقصان پہنچا ہے۔زرعی آفیسرز کو سبزیوں کی کاشت کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیئے۔ایسے ہی لائیو سٹاک کو بیماریوں سے بچانا ضروری ہے۔صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے ترقیاتی فنڈز کا رخ خوراک میں اضافہ کے لئے موڑنا ضروری ہے۔اگر آزاد کشمیر،پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے سیلاب زدگان کی صحیح خدمت کی اور ان کے مسائل حل کر دیئے تو لوگ دھرنا لیڈروں کی باتوں پر توجہ نہیں دیں گے۔رہائش اور خوراک کے بعد جو شعبہ اہم ہے وہ تعلیم ہے ۔سیلاب سے بہت سے سکول ضرور متاثر ہوئے ہونگے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے کی تعلیمی سرگرمیاں بھی متاثر ہوچکی ہیں۔اسلام آباد میں بھی طلباء کا تعلیمی نقصان ہوا ہے۔ان مخصوص علاقوں کی طرف توجہ دینا صوبائی حکومتوں کے لئے ضروری ہے۔تعلیم کے شعبہ میں ہم دنیا میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے فنڈز تو خرچ کرنے ہی ہیں۔مرکزی حکومت کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیئے۔لاہور۔کراچی موٹروے جیسے میگاپروجیکٹ کو فی الحال ملتوی کردینا چاہیئے۔ایسے ہی گوادر سے چین تک کی راہداریوں کے پروگرام کی طرف توجہ کم کرکے پاکستان کے لوگوں کو خواندہ بنانے کے پروگرام پر توجہ دینی چاہیئے۔وزیرستان کے بچوں کے لئے کیمپوں میں ہی سکول شروع ہونے چاہیئے۔جب اساتذہ اور طلباء دونوں نقل مکانی کر آئے ہیں تو کیمپوں میں ہی تعلیم کا سلسلہ شروع کیاجاسکتا ہے۔بنوں اور قریبی اضلاع کے سکولوں سے بھی مدد لی سکتی ہے۔طالب علم ہی پاکستان کا مستقبل ہیں۔انکی تعلیم ہر صورت میں جاری رہنا ضروری ہے۔سیلاب زدہ علاقوں سے بھی سکولوں کی عمارتوں کے گرنے کی خبریں آچکی ہیں۔ایسے بچوں کو بھی قریبی سکولوں میں تعلیم کی سہولت ملنی چاہیئے۔مرکزی حکومت کو اپنے بجٹ میں تبدیلیاں کرکے دوردراز علاقوں میں بچوں کی تعلیم پر توجہ دینی چاہیئے۔ہائی ویز کے میگاپراجیکٹ کی بجائے حکومت کو تعلیم کے پروجیکٹ بناکر لوگوں کو روزگار کے قابل بنانا چاہیئے۔تکنیکی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔میٹرک پاس بچے کو کوئی نہ کوئی ہنر بھی ساتھ ہی سکھانا ضروری ہے۔اگر وہ آئندہ کالج میں نہ بھی جانا چاہے تو اپنا کوئی نہ کوئی روزگار شروع کرلے۔لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ اس وقت ہوگا جب گھر کے ایک کی بجائے زیادہ افراد روزگار پر ہونگے۔اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم صرف صوبوں کی ذمہ داری رہ گئی ہے۔صوبے اس شعبے میں کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دے رہے۔ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی کے حالات پیدا ہونے کے بعد مرکز کو بھی اپنی توجہ تعلیم کی طرف منعطف کرنا ضروری ہے۔موجودہ حکومت کے ابھی صرف15۔ماہ ہی گزرے ہیں۔باقی ماندہ پونے چار سالوں میں تعلیم کے لئے بڑا کچھ کیا جاسکتا ہے۔روایتی سرکاری سکولوں کی حالت بہتر بنانے کے ساتھ تعلیم بالغان کے پروگرام شروع کرنا ضروری ہے۔سالہاسال سے ہماری خواندگی کی شرح 58فیصد ہی پر رکی ہوئی ہے۔اگر جناب نواز شریف ور وزراء اعلیٰ باقی ماندہ عرصے میں جدوجہد کریں تواسے70فیصد کے قریب لے جایا جاسکتا ہے۔پاکستانیوں کی اصل خدمت انکو خواندہ بنانا ہے۔آخری پروگرام جس پر مرکز اور صوبوں کوتوجہ دینی چاہیئے وہ صحت کا شعبہ ہے۔سرکاری ہسپتال شہروں میں بھی بہت کم ہیں۔انکی تعداد کا بڑھنا ضروری ہے۔لاہور جیسے بڑے شہر میں ابھی کم ازکم20بڑے ہسپتالوں کی اشد ضرورت ہے۔ایسی ہی صورت حال باقی ماندہ بڑے شہروں کی ہے۔مرکز اپنے ترقیاتی فنڈز کارخ ہسپتال بنانے کی طرف موڑ دے۔پونے چار سال میں صحت کے شعبے میں کافی کام ہوسکتا ہے۔دیہاتوں کے رورل ہیلتھ سنٹرز بھی عملے اور ادویات سے خالی ہوتے ہیں۔یہاں عملہ کی حاضری یقینی بنائی جائے اور ادویات اور سازو سامان مہیا کیاجائے۔شہباز شریف جیسے منتظم سکولوں اور ہسپتالوں کی چیکنگ ماثر انداز سے کرسکتے ہیں۔دور دراز ہسپتالوں اور سکولوں کے دورے تمام وزراء اعلیٰ کوکرنے چاہیئے۔یہ لوگ شہروں کے ٹھنڈے دفاتر میں ہی وقت نہ گزاریں۔اگر ہفتے میں2دن دور دراز دیہاتوں میں جاکر چیکنگ کا نظام بنایا جائے تو عملہ حاضر ہونا شروع ہوجائے گا۔جناب وزیراعظم کو بھی دور درازدیہاتوں اور ٹاؤنز کے اچانک دورے کرنے چاہیئے۔ ایسے ہی پٹوار خانوں اور تھانوں کے بھی دورے اور چیکنگ ہونا ضروری ہے۔بجلی کے فالتو بل بھیجنے کانوٹس لے لیاگیا ہے۔کوشش کریں کہ ہر شخص کو فی یونٹ رعائیت ملے۔اس کے لئے رقم کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دوسرے غیر ضروری شعبوں کی گرانٹ پر کٹ لگایا جائے۔جناب وزیراعظم صاحب آپ کے خلاف ایک منظم مہم شروع ہوچکی ہے۔اس کا واحد حل یہ ہے کہ آپ لوگوں کودرپیش مشکلات کا ادراک کریں اور لوگوں کو سہولیات فراہم کریں۔صرف یہ ایک حل ہے کہ لوگ دھرنا لیڈروں کی طرف توجہ دینا چھوڑ دیں گے۔جب لوگوں کو خوراک سستی اور وافر ملے گی۔جب لوگوں کو مکانات کی تعمیر کے لئے رقومات میسر آئیں گی۔تعلیمی انقلاب کے لئے جگہ جگہ معیاری سکول کھلے ہونگے اور وہاں تعلیم کا عمل توجہ سے جاری ہوگا ۔جب لوگوں کو صحت کے مسائل کے لئے مہنگے پرائیویٹ ہسپتالوں میں نہیں جانا پڑے گا۔بلکہ شہروں اور دیہاتوں میں سرکاری ہسپتالوں میں معیاری سہولیات ملیں گی۔تو لوگ آخرکیوں دھرنا لیڈروں کی الزامات سے پر تقریریں سنیں گے۔بجلی سستی کرنا اگرچہ مشکل ہے۔لیکن لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرنے کے لئے کم ازکم ایک سال تک تو بجلی کے بلوں میں رعایت دے دی جائے۔کم بل آنے پر دھرنا لیڈر بھی اپنے ذمہ واجب الادا رقومات جمع کرانا شروع کردیں گے۔مرکز اور صوبے ایسے اقدامات کریں کہ لوگوں کو اپنی زندگیوں میں واضح سہولیات نظر آئیں۔جناب وزیراعظم کچھ دیکر ہی کچھ پایاجاسکتا ہے۔آئندہ کا لائحہ عمل مکمل طور پر تبدیل کرنا ضروری ہے۔
Prof.Ch.Jamil
About the Author: Prof.Ch.Jamil Read More Articles by Prof.Ch.Jamil: 18 Articles with 10866 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.