علم دہشت گردی کا مؤثر علاج - ایک تقریر

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہِ الکریم عما بعد۔ بلا شبہ علم دہشت گردی کا مؤثر علاج ہے لیکن اگر عنوانِ سخن اس طرح ہوتا کہ " علم اور انصاف دہشت گردی کا مؤثر علاج" تو زیادہ معنی خیز اور حقیقت پسندی کا آئینہ دار ہوتا کیونکہ جاہل کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر کے اسے صراطِ مستقیم پر لایا جا سکتا ہے مگر بے انصافی کی آگ میں جلتے ہوئے انسان کو انتقام سے باز رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ آج کی دہشت گردی بے انصافی اور غیروں کی جنگ میں اپنی فوج اور اپنی عوام کو جھونک دینے کی وجہ سے ہے۔ صدرِ ذی وقار! جس طرح بیماری کی درست تشخیص سے علاج آسان ہو جاتا ہے اسی طرح دہشت گردی کے درست اسباب کا تعین کرنے اور ان کی بنیاد پر علاج کرنے سے دہشت گردی کا علاج بھی ممکن ہے۔ جنابِ عالی! دہشت گردی ہے کیا؟ اس کی تعریف کیا ہے؟ ابھی تک دنیا اس لفظ کی تعریف کرنے سے عاری ہے۔ اس کی متفقہ تعریف کیوں نہیں ہو سکی؟ اس لیے کہ دہشت گردی کی تعریف کا تعین دنیا کی طاغوتی طاقتیں اپنی مرضی سے کرتی ہیں۔ کسی مسلمان سے غلطی سرزد ہو جائے تو وہ دہشت گردی کے زمرے میں آ جاتی ہے اور اگر سامراجی طاقتیں اس سے ہزار گنا بڑی غلطی بھی کر جائیں تو وہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ٹھہرتی ہیں۔ اس بے انصافی اور دوہرے معیار کے رد عمل کو دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے۔ مگر افسوس اس امر کا ہے کہ ہمارا رویہ اس کھوجی کی طرح کا ہے جو چوروں سے ملا ہوا ہو اور چوری کے نشانات کے کھوج کو درست سمت میں لے جانے کی بجائے کسی دوسری طرف لے جائے اور بالآخر چوری کا سامان گم ہوجائے۔ ہمارے اسی رویے نے غیروں کی کاسہ لیسی کے عوض دہشت گردی یا بے انصافی کے اس ردِ عمل کے اصل اسباب کو اپنی ہی عوام سے چھپانے کی کوشش کی ہے اور کر رہی ہے۔ اسی لیے وطنِ عزیز پاکستان میں اور پوری دنیا میں یہ رد عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ علم کی دولت سے مسلّح ہو کر ہم سامراجیوں کی عالمی دہشت گردی کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں اور اپنے چند نادانوں کے قلوب و اذہان میں علم کا نور بھر کے انہیں منحرف راستوں کا مسافر بننے سے بھی بچا سکتے ہیں۔ مگر ہمیں کوئی پڑھنے دے تو پھر کوئی بات بنے نا۔

ہمارا نظامِ تعلیم تو غریب اور متوسط طبقے کے تمام لوگوں پر تعلیم کے تمام راستے بند کر رہا ہے۔ جنابِ صدر سچ سننے کی ہمت اور تاب ہے تو سن لیجئے۔ پاکستان میں پہلی جماعت میں داخل ہونے والے بچوں کی کل تعداد کا 15 فیصد پہلی جماعت سے ہی سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ جماعت پنجم پاس کرنے سے پہلے پچاس فیصد بچے سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ میٹرک تک صرف دس فیصد پہنچتے ہیں اور ایک فیصد سے بھی کم بے اے کا امتحان کے لیے داخلہ بھیجنے کے اہل ہوتے ہیں۔ ان بھیانک اعدادو شمار کے ہوتے ہوئے علم کے حصول کی بات کرنا دیوانے کی بڑ نہیں تو اور کیا ہے۔ ٹھنڈے کمروں کا بنا ہوا نصاب اور سامراجی بھیک کے عوض بننے والی تعلیمی پالیسیوں سے ہم علم حاصل کریں گے اور ان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ جنابِ صدر ! صدر شرم سے سر جھک جاتا ہے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستان کا دنیا میں تعلیم میں 121 واں نمبر ہے۔ ذرا میرے سوال کا جواب دیجئے کہ سکول سے بھاگ جانے والوں کی اتنی بڑی تعداد کہاں جائے گی؟کچھ منشیات کی عادی بنے گی، کچھ دہشت گرد، کچھ چور ڈاکو اور کچھ بدمعاش۔ آپ کے پاس اگر اس کا جواب نہیں ہے تو میرے پاس ہے۔ ہاں میرے پاس۔ سُن لیں، صرف ظاہری کانوں سے نہیں دل کے کانوں سے۔ چلچلاتی دھوپ میں جلنے والوں کے لیے نصاب اے سی کمروں میں بیٹھ کر بنانے کی بجائے اپنے زمینی، جغرافیائی، تہذیبی ،ثقافتی، زبان و لسان اور ابلاغی اصولوں کی مرکزیت میں بنا دیجئے۔ نصاب اور نظامِ تعلیم بچوں کی قومی زبان اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق ڈھال دیجئے۔ طبقات میں بٹا ہوا نظامِ تعلیم ختم کر دیجئے۔ پھر کیا ہوگا؟ پہلی جماعت میں داخل ہونے والا بچہ بلا روک ٹوک یونیورسٹی تک پہنچ جائے گا۔ پوری قوم پڑھ لکھ جائے گی۔ تحقیق و تخلیق کے بند راستے کھل جائیں گے۔اپنی لائیبریریاں اپنی قومی زبان میں لکھی ہوئی کتابوں سے بھر جائیں گی۔ تاریک یورپ اگر مسلمانوں کے علوم کو اپنی زبانوں میں منتقل کر کے اور اپنے تعلیمی اداروں میں رائج کر کے ترقی کی بلند و بالا عمارت تعمیر کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ ہر زندہ قوم نے یہی راستہ اپنایا ہے۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ علم کا حصول اس انداز سے نہیں ہوگا تو قوم جہلِ مرکّب میں لپٹتی چلی جائے گی اور دہشت گردی اور زیادہ رفتار کے ساتھ پنپے گی۔

آئیے علم کے ذریعے دہشت گردی کا علاج کرنے والوں کو تصویر کا ایک اور ڈراؤنا اور خطرناک رخ دکھاتا ہوں۔ محرومیوں اور نانصافیوں کی تصویر۔ جس ملک کے ایک بڑے صوبے میں پچاسی ہزار سکول بغیر چار دیواری کے ہوں۔ ستر ہزار میں پینے کا پانی نہ ہو اور اٹھارہ ہزار سکولوں میں سر ڈھانپنے کے لیے چھت نہ ہو ، ہزاروں میں پڑھانے کے لیے اساتذہ نہ ہو اور وہاں طلباء کو تقریر کے لیے یہ موضوع دیا جائے کہ " علم دہشت گردی کا مؤثر علاج" تو پھر کیوں نہ رونے کو جی چاہے یا پھر پاگلوں کی طرح ہنسنے کو۔ مجھے بتائیے جہاں ایک طرف چوراسی ہزار سکولوں کے لیے دو ارب اور چوبیس کروڑ روپے رکھے جائیں گے اور اسی صوبے میں 104 محل نما دانش سکولوں کے لیے 52 ارب روپے۔ مجھے بتائیں انصاف کے تقاضے کہاں منہ چھپاتے پھر رہے ہیں؟ مجھے جواب دیجئے! طبقاتی تفریق کے یہ منصوبے دہشت گردی کو بڑھائیں گے یا کم کریں گے؟ میری باتوں کا جواب دے دیں تو اچھا ہے ورنہ ہو سکتا ہے تمہاری اس خاموشی سے تنگ آ کر میں بھی دہشت گرد بن جاؤں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تم مجھے یکساں نظامِ تعلیم دے دو جو میری تہذیب و ثقافت اور میری قومی زبان کی مرکزیت میں ہو تو نہ میں سکول چھوڑ کر بھاگوں گا اور نہ میرے جیسے دوسرے طلباء۔ مجھ سے نا انصافی بند کر دو میں پاکستان کو اور اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دوں گا۔ اگر نہیں تو میں چلا دہشت گرد بننے۔ کوئی روک سکتا ہے تو روک لے۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 168545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.