جمہوریت کے ستون حصہ اول

دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں جمہوریت کے چار بنیادی ستون مانے جاتے ہیں جن پر جمہوریت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ جمہوریت کے وہ بنیادی چار ستون درج ذیل ہیں ۔ The 4 pillars of Democracy are
Legislature Parliament & State Assemblies, etc مقننہ ( پارلیمنٹ )
Executive Government انتظامیہ ( حکومت )
Judiciary (Supreme Court, High Court & Other Judicial centers) عدلیہ
Media (Newspaper, Internet, Blogs & whatever which expresses people’s aspirations) میڈیا

مندرجہ بالا چار ادارے اگر کسی ملک اور معاشرے میں کام سرانجام دے رہے ہوں تو یقینی طور پر اس ملک و معاشرے کو جمہوری کہا جائے گا - ہمارے ہاں جمہوریت کی ڈگڈگی بجانے والوں کی کثرت پائی جاتی ہے ، اور وہ دلائل دیتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت پائی جاتی ہے ۔ دوسری جانب وہ لوگ بھی موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت سرے سے موجود ہی نہیں ، جمہوریت کوئی چڑیا یا گڑیا تو ہے نہیں جسے مجسم صورت میں دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکے کہ وہ موجود ہے یا نہیں ، اسکی موجودگی کا فیصلہ اسکی علامات اور اسکے بنیادی اداروں کی کارکردگی سے ہی لگایا جاسکتا ہے ۔ اگر تو پاکستان میں اوپر بیان کردہ چار ادارے اپنا کام باخوبی سرانجام دے رہے ہیں تو جمہوریت کے وجود سے کوئی باشعور انکار نہیں کرسکتا - تاہم اگر مندرجہ بالا چار ادارے اپنا اپنا کام نہیں کررہے تو پھر پاکستان میں رآئج نظام کو جمہوریت کے علاوہ سب کچھ کہہ سکتے ہیں مگر جمہوریت نہیں کہہ سکتے - اگر کوئی نیم دانشور اور مالشئیے اینکرز اسے جمہوریت کہتے ہیں تو ان سے درخواست ہے کہ اپنے سر میں پچھنے لگوا کر گندہ خون نکلوائیں ۔ اب آپ کے سامنے جمہوریت کے چار بنیادی ستونوں کو ون بائے ون مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔ (١) مقننہ ( پارلیمنٹ ) کسی بھی جمہوریت میں پارلیمنٹ کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے ، عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں ، ان نمائندوں کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ یہ عوام کی نمائندگی کرتے ہوے انکے فائدے اور حقوق کے لئیے مناسب قانون سازی کریں ۔ پچھلے ساڑھے چھ سال کی پارلیمانی تاریخ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو آپ پر یہ ظاہر ہوگا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے جگاڑیوں نے صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئیے ہی قانون سازی اور ترامیم کیں ۔ عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لئیے کوئی قانون سازی نہ کی گئی جبکہ تیسری بار وزیرآعظم بننے کی ترمیم رآتوں رآت لا کر اتفاق رآئے سے منظور بھی کرا لی ۔ اپنے استحقاق کا تو رونا روتے جگاڑی نظر آتے ہیں مگر عوام کے حقوق کی بات کرتے ہوے انکو دندل پڑجاتی ہے ۔ یہ دنیا کی واحد پارلیمنٹ ہے جس میں بیٹھے عوام کے نمائندوں کا عوام سے فاصلہ ہزاروں میل کا ہے ۔ اور یہ اعزاز بھی اس پارلیمنٹ کو حاصل ہے کہ اس میں ایک کسان کی نمائندگی ایک جاگیردار کرتا ہے، ایک مزدور کی نمائندگی ایک مل و فیکٹری مالک کرتا ہے ، ایک ڈاکٹر ، انجنئیر کی نمائندگی ڈاکو ، چور اور گلو بٹ کرتا ہے ۔ دنیا کے نقشہ پر واحد پارلیمنٹ ہے جسکا لیڈر آف ہاؤس اور لیڈر آف اپوزیشن دونوں ہی نیب زدہ ہیں اور دونوں کے سینوں پر کرپشن کا تمغہ سجا ہے ۔ ایسی معزز پارلیمنٹ عوام کے لئیے کیسے قانون سازی کرسکتی ہے۔ ؟ لیکن حکمرآنوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز نیم دانشوروں کو اگر محسوس ہو کہ پارلیمنٹ اپنا کام باخوبی کررہی ہے تو میری اصلاح فرما دیں ۔

(٢) جمہوریت کا دوسرا اہم ستون حکومت ( انتظامیہ ) ہوا کرتی ہے ، پارلیمنٹ کی طرح اس ستون کی چولیں بھی ہلی ہوئی ہیں ۔ ہر چند سال بعد سیلاب آکر انتظامیہ کے بدشکل تھوبڑے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کرتا ہے ۔ کسی بھی صوبائی انتظامیہ کا سربرا اس صوبے کا وزیرآعلی ہوتا ہے۔ لاہور میں پولیس نے بندے مار دیے چیف ایگزیکٹو کو خبر تک نہ ہوئی اور جب خبر ہوئی تو ایک کمیشن بنایا جسکی رپورٹ ابھی تک دبائے بیٹھے ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ اپنی گڈ گورننس سے جانی و پہچانی جاتی ہے، پاکستان میں حکومتوں کی گڈ گورننس پر دفتروں کے دفتر لکھے جاسکتے ہیں ۔ دہائیوں سے حکومت میں ہونے کے باوجود ایک ڈھنگ کی ٹیم نہیں بناسکے، جتنی ٹیم قابل ہوگی اتنی گورننس بہتر ہوگی مگر جگاڑیوں کی اقرباء پروری نے گڈگورننس کو ایک خواب بنا دیا ہے، انھیں عہدے دیتے وقت اپنے خاندان سے باہر کوئی نظر نہیں آتا ، اور انکی رٹ آف گورنمٹ کا حال یہ ہے کہ انکی رٹ گلی کے آوارہ کتے پر نہیں ، اسکی وجہ ہر محکمے میں من پسند خوشآمدیوں کی تقرری ہے، جتنا بڑا خوشآمدی و چمچہ اتنا بڑا عہدہ ۔ گڈ گورننس اور میگا انفراسٹرکچر پراجیکٹس کے نام پر دھندہ کیا جارہا ہے ۔ جب انتظامیہ کی باگ ڈور کمیشن ایجنٹس اور بیوپاریوں کے ہاتھوں میں آجائے تو گڈگورننس ہو ہی نہیں سکتی ، کیونکہ پھر انکے پیش نظر ذاتی کاروباری مفاد ہوتے ہیں پھر جگاڑی ذاتی مفاد کی خاطر پٹواری اور تھانیدار کا استمعال بے دریغ کرتے ہیں ، پھر یہ تھانہ کلچر بدلنا ہی نہیں چاہتے۔ جس ملک کے انتظامی و ریاستی ادارے چند خاندانوں کی لونڈی بن جائیں وہاں عام لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں، پھر نہ کسی کا مال محفوظ نہ جان محفوظ ۔ قصہ مختصر دوسرا ستون بھی ٹھیک کام نہیں کررہا مگر اسکے باوجود جگاڑی بضد ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہے اور انکا ساتھ مالشئیے اینکرز بھی دے رہے ہیں ۔ آج جمہوریت کے دو ستونوں کا ذکر کیا، باقی دو کا ذکر آئندہ کروں گا ۔ جس میں میڈیا اور عدلیہ شامل ہے اور آخر میں یہ نقطہ واضح کروں گا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جسکے چاروں ستون کرپشن کی دیمک چاٹ چکی ہے ؟

Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 172418 views System analyst, writer. .. View More