ڈائیلاگ

 کسی بھی معاشرے میں یہ ممکن نہیں کہ تمام انسان ایک ہی سوچ، فکر، مذہب، عقیدے اور مسلک کے حامل ہوں، کیونکہ انسانی معاشرہ اس گل دستے کی مانندہے، جس کی سجاوٹ و خوبصورتی کے لیے مختلف رنگ و اقسام کے پھولوں کا ہونا ضروری ہے۔ معاشرے میں انسانی مزاج اور سوچ کا یہ تنوع فطری اور طبعی ہے، جو معاشرے کی خوبصورتی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ شاید اسی لیے یہ اختلاف اور تنوع اسلامی روایت کا شروع سے ہی حصہ رہا۔ میثاق مدینہ کے مشمولات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کئی مختلف قبائل کے اس میثاق میں شامل ہونے کا مقصد مختلف نظریات اور کلچر رکھنے والے طبقات پر مشتمل ایک متنوع معاشرہ تشکیل دینا تھا۔ یہ آفاقی حقیقت ہے کہ ہر دور اور ہر خطے میں مختلف نظریات اور مذاہب کے افراد کا مل جل کر رہنا معاشرے کی تکمیل کا حصہ ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان ہمیشہ سے اپنے مذہبی نظریات کے متعلق انتہائی حساس واقع ہوا ہے۔ اب ایک طرف باہم مل جل کر رہنا فطری و طبعی امر ٹھہرا، جبکہ دوسری جانب انسان کا اپنے مذہبی نظریات پر کمپرومائز کرنا بھی ناممکن ہے۔ ایسے میں انسان کے سامنے دو راستے ہیں: ایک راستہ ہے تصادم اور ٹکراؤ کا، یعنی ہر شخص اپنی مذہبی سوچ کو غالب کرنے کے لیے تصادم اور تشدد کی راہ کا چناﺅ کرے، لیکن اس صورت کو اختیار کرنے سے ایک تو زور زبردستی کسی پر اپنی مذہبی سوچ کو مسلط کر دینا ناممکن ہے، جبکہ اس صورت میں امن اور انسانیت جس طرح تباہ ہوگی، وہ بھی سب پر ظاہر ہے، لہٰذا اس کی اجازت کسی بھی مذہب سے نہیں مل سکتی، جبکہ دوسرا راستہ ہے مفاہمت، ڈائیلاگ اور مکالمے کا۔ مکالمے و ڈائیلاگ کا مطلب ہے کہ مختلف خیالات و نظریات کے لوگ پر امن بقائے باہم ”جیو اور جینے دو“ کے فارمولے پر آپس میں معاملات طے کرتے ہوئے اپنے مذہبی معاملات کو سلجھائیں، اپنے نظریات کو تھامے رکھیں، جبکہ دوسروں کے نظریات کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کر تصادم کی صورت پیدا نہ کریں۔ یقینا ہرذی شعور انسان تصادم اور ٹکراو ¿ کی بجائے مکالمے اور ڈائیلاگ کو ترجیح دے گا۔

دین اسلام نے امن و سلامتی، برداشت و رواداری پر عمل کرتے ہوئے تصادم و ٹکراﺅ سے گریز کرنے کی تلقین کی ہے۔ اسلام کا مزاج یہ معلوم ہوتا ہے کہ تصادم و ٹکراﺅ سے بچتے ہوئے مکالمے کی پالیسی اپنائی جائے، کیونکہ اسلام قیامت تک کے انسانوں کی رہنمائی کے لیے آیا ہے اور حالات و واقعات میں جدت و تبدیلی آنے کی وجہ سے جدید اور مختلف فیہ مسائل میں اہل علم قیامت تک انسانوں کی رہنمائی اپنے اپنے انداز میں کرتے رہیں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ تمام اہل علم عوام الناس کی رہنمائی کسی ایک ہی طریقے پر کریں، یقینا ان کے طریقہ کار اور دلائل میں فرق ہوگا، کیونکہ قرآن و حدیث نے بہت سے مسائل کو صراحت کے ساتھ ذکر نہ کر کے اہل علم کے سپرد کردیا ہے۔ قرون اولیٰ میں مختلف علماءو فقہاءپیش آمدہ مسائل کو اپنے اپنے فہم کے مطابق مختلف طریقوں سے سلجھاتے آئے ہیں، لیکن کبھی تصادم اور ٹکراﺅ، سب و شتم اور استہزا و توہین کی نوبت نہیں آئی۔ عہد رسالت میں مسلمانوں کے لشکر کو بنو قریظہ پہنچ کر عصر کی نماز ادا کرنے کی ہدایت کی گئی، لیکن صحابہ کرامؓ نے اپنے اپنے فہم اور اپنی اپنی تشریح کے مطابق الگ الگ عمل کیا، جس پر نہ تو صحابہؓ کے درمیان کسی قسم کا تنازع پیدا ہوا اور نہ ہی اطلاع ملنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ڈانٹا یا ناراضی کا اظہار کیا، بلکہ دونوں کی توثیق فرمائی۔ صحابہؓ کے دور میں بھی یہی صورت حال رہی کہ مختلف صحابہؓ نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق مختلف فتاویٰ دیے اور مختلف علاقوں میں جا کر جس طرح سے دین سکھایا، وہی طریقے ان علاقوں میں رواج پذیر ہوگئے، اس طرح سے دین پر عمل کرنے کی متعدد صورتیں وجود میں آئیں، لیکن یہ مختلف فتاویٰ اور متنوع عمل کبھی بھی تنازعات کا باعث نہیں بنے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں دین پر عمل کی مختلف صورتیں ختم کر کے سب لوگوں کو ایک ہی طریقے پر جمع کرنے کی تجویز پیش کی گئی تو انہوں نے نہ صرف اس تجویز کو مسترد کردیا، بلکہ اپنی قلم رو میں آنے والے تمام علاقوں میں ایک حکم نامہ بھجوایا، جس کا لب لباب دین پر عمل کی ان تمام صورتوں کو تسلیم کرنا تھا۔ انہوں نے حضرت ابو بکر ؓ کے پوتے قاسم بن محمد ؒ سے یہ بھی فرمایا کہ اگر بڑی سے بڑی دولت پیش کی جائے، تب بھی میں اس بات کی تمنا نہیں کروں گا کہ صحابہؓ کے درمیان یہ اختلاف نہ ہوتا، اس لیے کہ اگر یہ اختلاف نہ ہوتا تو امت کے لیے وسعت و آسانی پیدا نہ ہوتی۔

جب امام مالکؒ سے خلیفہ وقت نے ان کی کتاب”موطا “ کو نافذ کر کے تمام لوگوں کو اس پر عمل کا پابند بنانے کی درخواست کی تو انہوں نے خلیفہ کو اس ارادے پر عمل سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ”لوگوں تک دین کے بارے میں مختلف باتیں پہنچی ہیں، مختلف علاقوں کے لوگوں تک جس جس انداز سے دین پہنچا، وہاں کے لوگوں نے اسے اختیار کر لیا ہے اور اپنی عملی زندگی کو اس میں ڈھال لیا ہے، اب اس چیز کو وہ درست سمجھ کر اختیار کر چکے ہیں، انہیں اس سے روکنا بہت سنگین ہوگا، اس لیے لوگ جس حال میں ہیں، ان کو اسی پر رہنے دیا جائے۔“ حاصل یہ کہ اختلاف کو گوارا کرنا اور اس کو اس کا صحیح درجہ دینا مسلمانوں کی علمی روایت کا حصہ رہا ہے، بلکہ جلیل القدر تابعی یحییٰ بن سعید انصاریؒ فرماتے ہیں: ”اہل علم وسعت اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، اس لیے اہل افتا ہمیشہ اختلاف رائے کرتے رہیں گے، چنانچہ بعض اوقات ایک ہی چیز کو ایک عالم اور مفتی حلال قرار دیتا ہے اور دوسرا حرام قرار دیتا ہے، اس لیے نہ تو پہلا دوسرے کو برا کہتا ہے اور نہ ہی دوسرا پہلے کو۔“ یہی وجہ ہے اس دور میں اختلاف رائے کو نہ تو کبھی منافرت اور لڑائی جھگڑے کا باعث بننے دیا جاتا تھا اور نہ ہی کسی کو اپنی رائے قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ فروعی، عملی، نظریاتی اور اصولی اختلافات کے باوجود اہل علم کے درمیان پرامن بقائے باہم، برداشت اور ایک دوسرے کے احترام کا ماحول قائم تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارا طرز عمل مجموعی طور پر اس سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اختلاف کو خلاف اور نزاع کا ذریعہ نہ بنایا جائے، تاکہ معاشرے میں سکون اور امن کا ماحول پیدا ہو۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631674 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.