جمہوریت کیا ہے ؟

جمہوریت کی تعریف : لفظ جمہوریت یونانی زبان Demoاور kratesسے عبارت ہے جن کے معنی اعلیٰ الترتیب لوگ اور حکومت ہیں آ سان لفظوں میں جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت ۔ جمہوری ں نظام ایک ایسے نظام ِ سیاست کو کہتے ہیں جس کے تحت لوگ بالواستہ یا بلا واستہ سیاسی معاملات میں شرکت کر سکے ۔ ایک جمہوری ریاست میں ایسے ادارے موجود ہوتے ہیں جن کے زریعے رائے عامہ کا اظہار ہو سکتا ہے ۔ اس طرح ملکی نظم و نسق رائے عامہ کی خواہشات کے مطابق چلا یاجا تا ہے عوامی نمائندہ حکومت عوامی مفادات کے لئے سر گرم عمل رہتی ہے ۔ اور تمام افراد کو یکسا ں مواقع فراہم کرتی ہے ۔ تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے ۔ نظریاتی اعتبار سے ایک جمہوری ریاست میں کسی مخصوص طبقہ کو سیاسی معما ملات پر اجا رادی حاصل نہیں ہوتی بلکہ تمام شہریوں کو مساوی سیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔

معروف علم سیاست پروفیسر سیلے کے نزدیک ’’ جمہوری حکومت ایسی حکومت کو کہا جاتا ہے جس میں ہر شحص کو حکومتی معاملات میں شرکت حاصل ہو ـ‘‘ ۔ لارڈ برائس کے خیال میں جمہوری حکومت وہ ہے ’’جس میں حکومت کرنے کا قانونی طور پر کسی مخصوص طبقہ یا طبقات کو حاصل نہیں بلکہ یہ حق تمام افراد ِ معاشرہ کو اجتماعی طور پر حاصل ہے ‘‘ صدر لنکن نے جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ’’ جمہوریت عوام کے زریعے عوامی مفادات کے لئے عوام میں حکو مت کو کہتے ہیں ـ‘‘

ارسطو جمہوریت کو دستوری Polityکی گمراہ کن شکل قرار دیتے ہیں لیکن فی زمانہ جمہوریت کی اصطلاح کو اس مفہوم میں سمجھا جاتا ہے جس مفہوم میں ارسطو نے جمہوریت کی معیاری شکل یعنی Polity کا زکر کیا تھا ۔

جمہوریت کے تصور کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے یہ بات زہن نشین رہنی چاہئے کہ جمہوریت صرف ایک سیاسی تصور نہیں ہے بلکہ فکر، معاشی اور معاشرتی پہلوؤں سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے ۔ اگر جمہوریت کو محض اس کے سیاسی مفہوم یعنی طرز حکومت ہی سمجھا جائے تو یہ نظام اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے ۔سیاسی مفکرین کے نزدیک جمہوریت ایک مکمل فلسفہ زندگی ہے جو افراد کے نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی ، ثقافتی اور معاشی روابطکو نئے سرے سے استوار کرتا ہے ۔ افراد کا جمہوریت سے لگاؤ محض اس کے سیاسی تصور کی بنا پر نہیں بلکہ وہ اس طرز زندگی کی شیدائی ہیں جو جمہوریت مہیا کرتی ہے ۔ اس لیے جمہوریت کی کامیا بی کے لئے اس کے پورے معاشی اور معاشرتی پروگرام کے نفاذپر زور دیا جاتا ہے ۔چنانچہ معاشی مسا وات، شہر یوں میں جذبہ،اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور میانہ روی جیسی خصوصیات کو جمہوریت کے لیے لازم گردانا جاتا ہے ۔ بلاشبہ سیاسی آ زادی جمہوریت کی اساس قرار پائی ہے ۔ لیکن سیاسی آ زادی کو بر قرار رکھنے کے لیے ایسے بے شمار لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے جن کا ہم زکر کریں گے۔

واضع رہے کہ انتخا بات کے زریعے منتخب شدہ حکومت کا طرز ِ عمل غیر جمہوری بھی ہو سکتا ہے جبکہ صورتحال اس کے بر عکس بھی ممکن ہے۔لہذ ا جمہوریت کو محض حکمرانوں کے انتخابات کے محدود معنی میں سمجھنا درست نہیں ۔ بلکہ یہ تو ایک طریق کار ، مزاج اور مخصوص طرز ِ عمل کا نام ہے ۔ عین ممکن ہے کہ ایک غیر منتخب شدہ حکومت کا طرز ِ عمل جمہوری طریق کار اور مزاج سے قریب تر ہو۔

درحقیقت ہمارے موجودہ سیاست دان سیاست کی جان و پہچان اور حقائق سے بہت دور ہیں ۔ یہ لوگ صرف کاروبار کے لئے سیاست کر رہے ہیں ۔ جمہوریت جمہوریت اور جمہوریت دن رات یہ نعرہ لگا جا رہا ہے ۔ حکومت کہتی ہے ہم جمہوریت بچا رہے ہیں ، اپوزیشن حکو مت سے اتفاق کرتی ہے ، اتحادی جماعتیں بھی حکومت ساتھ اپنی نشستوں کو ہی بچانے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔ ہاشمی کی تو بات ہی الگ ہے کبھی اس بغل میں تو کبھی اُ س بغل میں کھڑا ہو کر اپنی قربانیاں یاد دلاتے ہیں۔ مولانا صاحب ! ایک عالم دین ہو کر غیر شرعی پالیسوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ عمران و قادری نے چند ہزار ایسے کارکنان جو انٹر ٹینمنٹ کے شوق رکھتے ہیں کو لے کر اسلام آ باد میں ڈیرہ ڈال دیا ہے ۔ سیاست دانوں سمیت تجزیہ نگار و دانشوروں میں بحث بحث اور بحث ہی ہو رہی ہے۔ یہ لوگ جانتے ہی نہیں ہیں کہ حکمرانی کیا چیز ہے ؟ اصل جمہوریت کیا چیز ہے ؟ موجودہ جمہوریت سے کیا فوائد و نقصانات سامنے آ رہے ہیں ؟؟ نہیں بس کاروبار سمجھ کر جمہوریت کو چلا ئے جا رہے ہیں۔

جمہوری حکومت میں رواداری ، مسا وات ،بنیادی حقوق کی فراہمی، سیاسی جماعتوں میں اتفاق ، معاشی مساوات ، احساس زمہ داری ،دستور کا احترام ، عوامی مفادات کو ترجیح ، ثقافتی و مذہبی نظام حیات کا احترام کرنا اور مسائل کی فوری حل و قانون سازی کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن افسوس ہے آ ج پاکستان میں سینٹ ، نیشنل اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں میں ارکنان اور وزراء و مشیر حضرات جمہوری لفظ کے معنی ٰ تک نہیں جانتے ہیں ۔ صرف جمہوریت کے نام تو لے رہے ہیں ۔ نام لینا آ سان ہے اس کا مفہوم کو سمجھنا اور اس پر عمل پیراں ہونا انتہائی مشکل عمل ہے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی سوائے باتوں کے جمہوریت کے بارے میں لا علم ہیں ۔ سفید دھاڑی اور زندگی جمہوریت کے پیچھے گزارا ہے مگر افسوس اُسے اصل جمہوریت کا کوئی علم ہی نہیں ہے اگر علم ہوتا تو آ ج ملک میں افر ا تفری ہے نواز شریف اپنے خا ندان سمیت حکومت کر رہا ہے ۔ اس قبل زرداری نے اپنے خاندان سمیت حکومت کی ہے کسی نے عوام کو کوئی زرا مٹی برابر بھی تسلی بخش اچھا کام کر کے نہیں دکھایا ہے ۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کمپرو مائز اور میثا ق ِ جمہوریت جیسے نا پاک مہاہدے کر کے ایک دوسرے کی پشت پنائی کرتے پھر رہے ہیں ، یہ لوگ ایک دوسرے کے لیے 70 قسم کے عالی شان کھانے دسترخوان پر رکھتے ہیں مگر دوسری جانب عوام ایک روٹی کے نوالے کے لیے اپنی ایمان، جان ، جسم اور نظریات کو بیچ کر روٹی کا نوالہ لینے پر مجبور ہیں اور حالات ملک میں مکمل افر تفری پھیل چکی ہے مگر ہاشمی صاحب بجائے احتجاج کر کے عوام کی حقوق کی بات کرنے کے عمران خان کے سینے پر چھرا کھونپ کر جمہوریت کا حامی کہلانے کا لالچ لیے بھاگ گئے ۔

مولانا فضل الر حمن تو ایک عالم دین ہے اُس کی باتوں سے مجھے افسو س ہوتا ہے اُ ن لوگوں پر جو جمعیت علما ء اسلام ف گروپ میں ہے یز ید نما حاکم کا ساتھ دے رہے ہیں بلکہ ساتھ دیتے رہے ہیں ۔ جے یو آ ئی ف گروپ میں علما ء کرام ، مفتی حضرات کی تعداد بہت زیادہ ہے اس گروپ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص خدا کو حاضر نا ضر تصور کرتے ہوئے فیصلہ کرے کہ کیا یز ید نما حکمرانوں کا ساتھ دینا جائز ہے ؟ کیا شراب نوش ، فحاش خیا لات رکھنے والے ارکان اسمبلی کے ساتھ قانون سازی شرعی حساب سے درست ہے؟ کیا موجودہ حالات اور زرداری کے دور ِ حکومت میں ان دونو ں غیر اسلامی کردار رکھنے والوں کا ساتھ جائز ہے؟ نہیں بالکل بھی نہیں ان میں یزید میں فرق بہت کم ہے وہ کل کا یزید تھا یہ آ ج کے یزید ہیں ۔

بحرحال ! قارئین حضرات پاکستان میں موجودہ نظام سیاست اور اصل سیاست میں بہت فرق ہے ۔ سیاست اسلام میں بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن یہاں کے جاہل اور جعلی ڈگریاں رکھنے والے سیاست کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ سیاست میں جھوٹ نہیں بولا جاتا مگر یہاں ہر بات جھوٹ بو لی جاتی ہے ۔دھوکہ اور فریب ان کی رگوں میں دوڑ رہی ہے ۔ موجودہ سیاسی نظام میں تبدیلی کی سخت ضرورت ہے ورنہ نواز شریف گروپ کے بعد زرداری گروپ اقتدار سنبھالیں گے۔ ملک میں افر تفری میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جائے گا ۔ ہم بوڑھے ہونگے اور ہماری نئی نسل ہمیں گالیاں ضرور دیں گے ۔ اس ملک کو دنیا کے نقشے میں سب سے بد ترین ملک بنا یا گیا ہے ۔ سیاست دانوں کو علم سیاست سیکھنا چا ہئے بجائے جعلی ڈگریوں کے اصل ڈ گر یاں حاصل کریں تاکہ احساس ہو کے بے روزگاروں کے پاس اصل ڈگریاں بھی ہیں اور بے روزگار بھی تو درد و تکلیف ہوتا ہے کہ نہیں ۔

ASIF YASIN LANGOVE
About the Author: ASIF YASIN LANGOVE Read More Articles by ASIF YASIN LANGOVE: 49 Articles with 45612 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.