مہاراشٹر: ہر بار کا رونا تو بے کار کا رونا ہے

ازدواجی زندگی میں تنازعات کی ابتدا عام طور پر مال و دولت کی تقسیم یا استعمال کو لے کرہوتی ہے پھر اس کے بعد وہ انا یا ناک کا مسئلہ بن جاتی ہے اور جذبات سے کھلواڑ شروع ہوجاتا ہے ۔ اس جوتم پیزار کا تعلق سوجھ بوجھ سے نہیں ہوتا لیکن جب دونوں فریق ٹھنڈے دماغ سے اپنے یا بچوں کے مستقبل پر غور کرتے ہیں تو عقل ٹھکانے آجاتی ہے ۔ شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان یہی ہورہاہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے پر دباو بناتے رہے لیکن جب دونوں نے طلاق سے اپنی متوقع اولاد یعنی حصولِ اقتدار پر پڑنے والے نتائج پر سنجیدگی سےغور کیا تو عقل ٹھکانے آگئی ۔ اپنےسخت موقف کو پسِ پشت ڈال کردونوں مصالحت پر آمادہ ہوگئے۔

زن و شو دونوں ملازمت پیشہ ہوں اور آگے چل کربیوی کی تنخواہ شوہر سے زیادہ ہو جائے تو کیا ہوتاہے؟بیوی اپنا رعب دکھانے لگتی ہےایسے میں اگر شوہر کی پرانی اکڑ باقی رہے تو جھگڑا کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتا ہے ۔میاں بیوی کی کم ظرفی اور غیر تجربہ کاری ان کی لڑائی کو چوراہے پر لے آتی ہے اور اس سےسارا محلہ محظوظ ہوتا ہے فی الحال یہی ہورہا ہے۔؁۲۰۰۹ کے انتخابات سے پہلے ہر بار ودھان سبھا میں شیوسینا کی نشستیں زیادہ ہوتی تھیں اور وہ قوام کے منصب پر فائض ہوا کرتی تھی لیکن پچھلی مرتبہ سینا کو ۴۴ جبکہ بی جے پی کم نشستوں پرانتخاب لڑنے کے باوجود ۴۶ سیٹوں پر کامیابی ملی۔ پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی نے شیوسینا کے ۱۸ کے بالمقابل ۲۲ حلقوں میں کامیابی درج کرائی اس لئے بجا طور پر اس کے دماغ میں قوامیت کا بھوت سوار ہوگیا۔

سینا اوربی جےپی کے درمیان یہ لڑائی نئی نہیں ہےلیکن اس سے پہلے اڈوانی اور ٹھاکرےمل کر بیٹھتے تھے واجپائی جی مداخلت کرتے تھے اور معاملہ سلجھ جایا کرتا تھا ۔ اس بار شیوسینا کے اند ر ناتجربہ کار ادھو ٹھاکرے اور ان کا بیٹاادتیہ ٹھاکرے آگے آگے ہیں ۔ ان کے مدمقابل نریندر مودی اوران کا چیلا امیت شاہ ہیں۔ دونوں فریقوں کی ناتجربہ کاری ، کم ظرفی اور قوت فیصلہ کا فقدان تقریباً دو ہفتوں تک ذرائع ابلاغ میں نت نئے گل کھلا رہاہے اور عوام کے تفریح ِ طبع کا سامان کر رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ الیکشن میں بھی انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے ۔

شیوسینا اور بی جے پی کی شنا سائی ۲۵ نہیں ۳۰ سال پرانی ہے ۔ ؁۱۹۸۴میں پہلی مرتبہ ان فسطائی جماعتوں کا وصال ہوااور دونوں نے مل کر انتخاب لڑا۔ یہ نہایت منحوس آغاز تھا کیونکہ اس قومی انتخاب میں شیوسینا تو کجا بی جے پی کا بھی مکمل صفایہ ہوگیا ۔ راجیوگاندھی نامی نوزائیدہ سیاستداں ایک سونامی بن کر ہندوستان کے سیاسی افق پر نمودار ہوئے اور اپنی ماں اندرا گاندھی کی ہمدردی کے سبب۴۰۰ سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوگئے۔ بی جے پی کے واجپائی اور اڈوانی دونوں شکست فاش سے دوچار ہوگئے ۔ پارلیمان میں ان کی موجودگی دو ارکان پر سمٹ گئی ۔ اس کے بعد ؁۱۹۸۵کے اندر مہاراشٹر کےریاستی انتخاب میں بی جے پی نے بے وفائی کی اورشیوسینا کا دامن جھٹک کر کانگریس پارٹی کے باغی رہنما شرد پوار کی آغوش میں چلی گئی ۔

کانگریس کوجب احساس ہوا کہ شرد پوارتو کماؤ پوت ہے اور پوار کو لگا کہ ان بھانت بھانت کے حامیوں کے نخرے اٹھانے سے بہتر ہے اپنے گھر لوٹ جایا جائے تووہ ؁۱۹۸۶ میں میکے لوٹ آئے ۔ ہرجائی بی جے پی اپنی بیوگی کا غم غلط کرنے کیلئے پھرسے ؁۱۹۸۹ کے اندر سینا کی بانہوں میں سمٹ آئی لیکن پھر ؁۱۹۹۲ میں ان دونوں نے ایک دوسرے خلاف ممبئی میونسپلٹی کا الیکشن لڑا اور کانگریس کے ۱۱۲ کے مقابلے ۶۹ و ۱۴ یعنی جملہ ۸۴ نشستیں جیت سکے۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان پھر من مٹاؤ ہو گیا لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر انتخاب سے قبل یہ دونوں جماعتیں کھلے عام ایک دوسرے سے لڑتی اور پھر یکجا ہوجاتی ہیں۔ اس لئے ان کی’’ تو تو میں میں‘‘ پر کسی کو تعجب نہیں ہوتا۔مراٹھی میں اسے’’بنوا بنوی‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے بقول ندا فاضلی ؎

اچھا سا کوئی موسم ، تنہا سا کوئی عالم ہر روز کا رونا تو بے کار کا رونا ہے

بی جے پی مہاراشٹر کے اندر اس بار خود اپنے دام میں بری طرح پھنس گئی تھی ۔ اس نے پہلے تو پارلیمانی انتخاب میں راج ٹھاکرے کے ساتھ مفاہمت کی انہیں خرید کر اپنے خلاف امیدوار کھڑا کرنے سے روکا مگر شیوسینا کے خلاف الیکشن لڑوایا ۔ راج ٹھاکرے نے سینا کے ووٹ کاٹے اور اس کے نتیجہ میں بی جے پی کو سینا سے ۴ نشستیں زیادہ مل گئیں۔ وزارت سازی کے دوران بھی یہ ہوا کہ قومی جمہوری محاذ کی سب سے بڑی جماعت شیوسینا کو صرف ایک اور وہ بھی کم اہمیت کا حامل قلمدان دیا گیا تاکہ اس میں اضافہ کا لالچ دے کرریاستی انتخاب کے موقع پر سینا سے سودے بازی کی جائے ۔

ریاستی انتخاب سے قبل سب سے پہلے بی جے پی نے دیگر چار حلیف جماعتوں کو پچکار کر اپنے سے قریب کیا اور ان کے ذریعہ سے شیوسینا پر دباؤ ڈالنے کی مذموم کوشش کی۔ اس کے بعد ذرائع ابلاغ میں آئے دن یکساں تعداد میں نشستوں کا مطالبہ ہونے لگا۔ سچ تو یہ ہے کہ الحاق کو ختم کرنے کے اشارے پہلے بی جے پی کی طرف سے آئے۔ شیوسینا پر مودی کو انتخابی کامیابی کا کریڈٹ نہ دینے پر غم وغصے کا اظہار کیا گیا۔ امیت شاہ نے مقامی رہنماؤں کو شہ دے کر چھوٹ دے دی اور چابک و گاجر کا کھیل کھیلنے لگے ۔ ادھو ٹھاکرے نے جب دیکھا کہ پانی سر سے اوپر ہورہاہے تو بی جے پی کا وار اسی پر پلٹ دیا اور میڈیا میں جاکر آخری دھمکی دے دی ۔

ادھو ٹھاکرے نے رنگ شاردہ ہال کے اندر پہلی مرتبہ جب اپنے والد بالا صاحب ٹھاکرے کے تیور دکھلائے اور بی جے پی کو احسانات یاد دلا کر لتاڑہ تو اس کے ہوش ٹھکانے آگئے ۔ ویسے اتر پردیش ، گجرات اور راجستھا ن کے ضمنی انتخاب میں ہاتھ آنے والی شکست نے بھی بی جے پی کا دماغ درست کیا۔ وزیراعظم کے الحاق قائم رکھنے کی تلقین کے بعد شاہ نے ناک گھس کر ادھو کو فون کیا۔ اس کے باوجود جب ادھو نے لچک نہیں دکھائی تو بی جے پی نے بالکل بھکاری کی مانند مطالبہ کرڈالا کہ کم از کم ان ۳۳ نشستوں میں سے گیارہ ہمیں دے دو جن پر گزشتہ ۲۵ سالوں میں ہر بار تمہاری ضمانت ضبط ہوتی رہی ہے۔ ادھو نے کہا نہیں اگر چاہو تو الحاق میں شامل دیگر جماعتوں کے پیٹ پر لات مارکر ان کی دس نشستیں لے لو ۔ اس طرح گویا شیوسینا نے حامی جماعتوں کو بی جے پی

کا دشمن بنا دیا ۔ بی جے پی نے دیگر جماعتوں کی حق تلفی کرکے گھٹنے ٹیک دئیے اور ادھو ٹھاکرے کو منا لیا۔

مہاراشٹر کے اندر بی جے پی اور سینا کے ساتھ سوابھیمان شیتکری سنگھٹن، ریپبلکن (آٹھولے)راشٹریہ سماج پارٹی ،شیو سنگرام سنگٹھن الحاق میں شامل ہے۔کل تک جن کی خوشامد کی جارہی تھی اب انہیں بلی کا بکرہ بنایا جارہا ہے۔ سوابھیمانی رہنما راجو شیٹی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قربانی دینے کی ہماری روایت ہےاگر ہماری نشستیں کھا کر تمہارا پیٹ بھرتا ہے تو ایسی تجویز لاو۔ رام داس اٹھاولے نے راشٹروادی کے متبادل کا اعلان تک کردیا۔ راشٹریہ سماج کے مہادیو جانکر نے سوابھیمان کے ساتھ مل کر انتخاب لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا بالآخر جب ان جماعتوں کو صرف ۷ کی پیشکش کی گئی تو میٹنگ سے اٹھ کر چلی گئیں اور مل جل کر بی جے پی سینا کے خلاف انتخاب لڑنے کا اشارہ دے دیالیکن یہ صرف گیڈر بھپکی ہے۔ سینا بی جے پی اب ان کے محتاج نہیں ہیں اور اقتدار کے بعد وزارت لا لالچ ان ابن الوقتوں کے غم و غصے کو ہوا کرسکتا ہے۔ اگر کانگریس انہیں اپنے ساتھ لینے میں کامیاب ہو جاتی تو اس کا بڑا فائدہ ہوتا لیکن ایسی کشادہ دلی کی توقع اقتدار میں رہتے ممکن نہیں ۔ جب ہار جائیں گے تو دماغ اپنے آپ درست ہوجائے گا۔

اس میں شک نہیں کہ سینا اور بی جے پی کےمیل ملاپ سے شیوسینا نے اپنے بل بوتے پر اقتدار میں آنے کا ایک نادر موقع گنوا دیا ہے۔ شیوسینا گزشتہ کئی سالوں سے کمزور ہوتی جارہی ہے ۔ اس کی نہ صرف نشتیں بلکہ ووٹ کا تناسب بھی گھٹ رہاہے لیکن اس بار بازی الٹنے کا سنہرا موقع ادھو کے ہاتھ آیا تھا اگر بال ٹھاکرےحیات ہوتے تو بی جے پی کی پیشکش کو اس کے منہ پر دے مارتے۔ اگر ادھو کی جگہ نریندر مودی ہوتے تو اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کرعلاقائی عصبیت کے سہارے بڑے آرام سے انتخاب جیت جاتے۔

ادھو کو کرنا یہ تھا کہ نریندر مودی کی احسان فراموشی کا خوب چرچا کیا جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ گجرات فساد کے بعد جس وقت بی جے پی نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کی تیاری کررہی تھی بالا صاحب ٹھاکرے نے اسے بچایا اور وزیراعظم بن جانے کے بعدمودی نے سینا سے دغابازی کی ۔ اس کے سبب مسلمان ضرور ناراض ہوتے لیکن وہ تو یوں بھی شیوسینا کو ووٹ نہیں دیتے ۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ نریندر مودی اپنی شبیہ سدھارنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ساری دنیا کو یہ یاددلانا کہ ؁۲۰۰۲ میں گجرات کے اندر ہونے والے فسادات کا اصل مجرم مودی ہے۔ بی جے پی خوداسےسزا دینے جارہی تھی ایک بہترین سیاسی حربہ تھا جس میں احسانمندی کے ساتھ مخالفت ممکن تھی۔ اٹل جی سے شیوسینا کا وزارت نہ طلب کرنےکو جذبۂ قربانی کے طور پر پیش کیا جاسکتا تھا۔

ادھو کے پاس سب سے بڑا ہتھیار علاقائی عظمت و وقارکی بحالی کا تھاجو دھرتی پتر سینا کامقصد وجود ہے۔ اس کے اٹھاتے ہی راج ٹھاکرے کی سیاست کا اپنے آپ خاتمہ ہو جاتا ہے۔ وہ مہاراشٹر کی عوام سے کہہ سکتے تھے کہ مودی اور شاہ نے گجراتی سرمایہ داروں کے کہنے پر شیوسینا سے الحاق ختم کیا ہے۔ دولت کا غرور میں وہ سرمایہ کے بل بوتے پر مہاراشٹرکے اندر گجراتی وزیر اعلیٰ مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔ شیوسینا اگر ذرائع

ابلاغ کی مدد سے یہ مشہور کردیتی کہ بی جے پی کرٹ سومیا کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتی ہے تو سارےصوبے میں آگ لگ جاتی اور بی جے پی سمیت مودی اور شاہ کا بینڈ بج جاتا ۔

بی جے پی پر اولین مراٹھی خاتون پرتبھا تائی پاٹل کو صدر جمہوریہ بننے سے روکنےکاالزام لگا کران کو صدر بنانے میں سینا کی حمایت کو بھنایا جاسکتا تھا۔ شیوسینا یہ بھی کہہ سکتی تھی کہ نریندر مودی چین کے مقابلے اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے میں میں ناکام ہوگئے ہیں اس لئے وہ ملک کے مفاد میں مرکزی حکومت سے الگ ہو رہی ہے ۔ اس طرح مرکزی وزیر استعفیٰ دے دیتے جو ایک بڑی خبر بنتی اور مودی سرکار کو پہلا جھٹکا لگتا ۔ ادھو ٹھاکرے نے رنگ شاردا کی تقریر میں بی جے پی کا حوالہ دیتے ہوئے شیواجی اور افضل خان کا واقعہ یاددلایا اور کہا کہ ہم کسی کی قدوقامت سے ڈرنے والے لوگ نہیں ہے۔ یہ اشارہ صاف نریندر مودی کی جانب تھا جنہیں افضل خان کی تشبیہ دی گئی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ شیوسینا کے پاس اس بار بی جے پی مخالفت کرنے کیلئے بہت کچھ تھا ۔

اس کے برعکس بی جے پی فی الحال گوپی ناتھ منڈے جیسے مقبول و ہر دلعزیز پسماندہ ذات کےرہنما سے محروم ہے ۔ قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ گوپی ناتھ منڈے کی بیٹی پنکجہ منڈے کے ذریعہ سنگھرش یاترا نکلوائی گئی اورمعمر رہنما ونود تاوڑے نے یہاں تک کہہ دیا کہ سیاست کے میدان میں نو وارد پنکجا کے اندر وزیر اعلیٰ بننے کی تما م صلاحیتیں موجود ہیں۔ بی جے پی کے پاس موجود دونوں معروف چہرے نتن گڈکری اوردیویندر فردنویس براہمن ہیں جن کے خلاف مراٹھا اور دیگر پسماندہ طبقات کے اندر شدید نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔

بی جے پی کے مودیتوا کےمقابلے علاقائیت کی بنیادپر اگر شیوسینا انتخاب لڑتی تو اسے لازماً کامیابی ملتی اوراگر اکثریت میں کوئی کسر باقی بھی رہ جاتی تو راشٹروادی کو راضی کیا جاسکتا تھا۔ لیکن ادھو ٹھاکرے کے اندرخودااعتمادی کا فقدان ان کے پاوں کی زنجیر بن گیا ۔ آئندہ انتخاب میں یہ موقع ان کے ہاتھ نہیں آئیگا اور بی جے پی کا میٹھا زہر سینا کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھا جائیگا۔ ادھو ٹھاکرے کو اس موقع پراس مینڈک کی کہانی یاد کرنی چاہئے جو ایسے برتن میں گر گیا جس کے اندر پانی کا درجہ حرارت لگا تار بڑھتا جارہا تھا اور وہ اس بات کا فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ باہر کود جائے یا اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لے ۔ وقت گزرتا رہا اور وہ کسی طرح اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرتا رہا یہاں تک کہ پانی ابلنا لگا۔ اب مینڈک کیلئے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا اور ابلتے ہوئے پانی میں مینڈک کا سوپ بن گیا ۔ کاش کے سوشیل میڈیا میں گردش کرنے والی اس کہانی کو کوئی ادھو ٹھاکرے کو بھیجتا اور وہ اس سے عبرت پکڑتے۔

جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے نہ تو شیوسینا کے فائدے سے ان کا کوئی نقصان ہے اور نہ شیوسینا کے نقصان سے ان کا کوئی فائدہ ہے اس لئے کہ شیوسینا اول درجہ کی فسطائی کی جماعت ہے ۔ اس کے عزائم و ارادے بی جے پی سے اگر زیادہ نہیں ہیں تو کم خطرناک بھی نہیں ہیں۔ یہ سوچنا چونکہ ادھو ٹھاکرے کے دادا پربودھنکارٹھاکرے سیکولر تھے اس لئے اس کے اندر سیکولرزم کے جراثیم موجود ہیں ایک خام خیالی ہے۔ پربودھنکار کا سیکولرزم ان کے اپنے بیٹے بالاصاحب ٹھاکرے پربھی اثر انداز نہ ہو سکا جو پہلے علاقائی عصبیت اور پھر ہندوتوا کی گود میں چلے گئے۔ ادھو ٹھاکرے نے بالاصاحب کی گود میں تربیت حاصل کی ہے ۔

اس بات کو بھلایا نہیں جاسکتا کہ مسلم رہنماوں سے چکنی چپڑی باتیں کرنے والے ادھو ٹھاکرےماہِ رمضان کے اندر ایک مسلمان روزے دار کے ساتھ بدسلوکی کرنے والےاپنے رکن پارلیمان کی سرنش نہ کرسکے اور ۲۲ ستمبر کے دن سینا کے ترجمان روزنامہ سامنا کا اداریہ بھی سینا کے ذہن کا عکاس ہے۔ بی جے پی سے لڑائی کے باوجود مسلمانوں سے متعلق وزیراعظم کے حالیہ بیان کی تعریف کرتے ہوئے مسلمانوں کے حوالے سے جو زہر اگلا گیا ہے وہ چونکانے والا ہے ۔پربودھنکار کے زمانے سے صحافت کرنے والا ٹھاکرے خاندان اچھی طرح جانتا ہے کہ سیاسی جماعت کےاخبار کا اداریہ اس کی پالیسی اور پروگرام کا ترجمان ہوتا ہے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1234656 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.