مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی سے پہلی اور آخری ملاقات

یوں تومولانا مودودی سے میر پہلا تعارف اس وقت ہوا تھا جب میری عمر دس گیارہ سال تھی ہم لیاقت آباد کے جس محلے میں رہتے تھے وہاں پڑوس میں جماعت اسلامی کے ایک فعال رکن جناب نعمت اﷲ کلیم مرحوم رہتے تھے چونکہ بالکل پڑوس میں گھر تھا اس لیے گھر کی خواتین کا بھی آپس میں ملنا جلنا تھا ان کے بچوں کے ساتھ بھی ہماری دوستی تھی ۔ایک دفعہ ان کے گھر کی خواتین کے ساتھ والدہ اور نانی مجھے ساتھ لے کر ایک پروگرام میں شریک ہوئیں جہا ں مولانا مودوی کی اس تقریر کی کیسٹ سنانے کا اہتمام تھا جو انھوں نے لاہور میں 1963کے اجتماع عام میں کی تھی جس میں اس وقت کی حکومت پنجاب کی ایما پر حملہ کیا گیا تھا اور ایک کارکن خدا بخش شہید ہوئے تھے ۔ جس گھر میں یہ پروگرام تھا وہاں ایک کمرے میں مرد حضرات اور دوسرے کمرے میں خواتین شریک تھیں درمیانی دروازے پر ٹیپ ریکارڈ رکھا ہوا تھا مجھے اس تقریر کے الفاظ اور نکات تو یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ دوران تقریر فائرنگ کی آواز آئی تھی تھوڑی دیر کے لیے تقریر کا سلسلہ رک گیا کچھ آپس میں بات چیت کرنے کی صدا سنائی دی اب محسوس ہوتا ہے کہ اس اجتماع میں کتنا نظم وضبط تھا کہ کوئی ذرا سی بھی چیخ یا چلاہٹ نہیں ہوئی ورنہ کسی اور کا پروگرام ہوتا تو بھگدڑ مچ جاتی اس کے بعد کچھ دیر تقرے جاری رہی جو جلد ہی ختم ہو گئی ۔

پھر 1970کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی سے تعلق قائم ہوا 1971میں باقاعدہ تنظیم سے وابستگی کے بعد مولانا کی کتابوں نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا مطالعہ کتب کے ذریعے مولانا سے عقیدت و محبت کا ایسا رشتہ قائم ہوا کہ میں کبھی کبھی مولانا کو خواب میں دیکھا کرتا تھا ایک خواب مجھے ابھی تک یاد ہے کہ میں ایک کلاس میں بیٹھا ہوں اور شاید اکیلا ہوں سامنے بلیک بورڈ ہے اور مولانا مجھے حساب کا مضمون پڑھا رہے ہیں اور وہ جمع کا سوال بورڈ پر لکھ کر سمجھا رہے ہیں ،یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اسی دن صبح میں اخبار کا مطالعہ کررہا تھا تو کسی صاحب کا کوئی اخباری بیان یا شاید کوئی مضمون تھا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ مولانا مودودی نے آج کے دور میں اسلام کو ریاضی کی طرح یعنی دو اور دو چار کی طرح سمجھایا ہے ۔مجھے مولانا سے ملنے اور ان کی تقریر سننے کا بہت شوق تھا اﷲ تعالیٰ نے میری یہ دونوں خواہشیں پوری کر دیں ۔یہ شاید 1975کی بات ہے مولانا مودودی اپنا علاج کرانے کے بعد امریکا سے واپس آرہے تھے تو جس دن انھیں آنا تھا اسی دن شام کو جماعت نے فاروقی مسجد سعود آباد میں بعد عشا ان کے درس کا پروگرام رکھا مغرب کے بعد ہی سے یہ مسجد کھچاکھچ بھر گئی تھی شرکاء اتنا مل مل کر بیٹھے تھے نماز عشاء کی ادائیگی میں مشکل ہوتی کہ اتنے میں اسٹیج سے اعلان کیا گیا کہ جگہ کی کمی کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی پیٹھ پرسجدہ کر لیں چنانچہ میں نے اپنے آگے والے کی پیٹھ پر اور میرے پیچھے والے نے میری پیٹھ پر سجدہ کیا اس پروگرام میں مولانا نے درس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا وہ جگہ ہے جہاں انسان کی تمام خواہشیں پوری نہیں ہوتیں اگر کوئی ایک خواہش پوری ہو جائے تو دس اور خواہشیں سامنے آجاتی ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی پوری عمر کھپا دیتا ہے اور ساری زندگی وہ خواہشوں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے ،جب کہ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی ہر خواہش پوری ہوگی۔
دوسرے دن مولانا کا کراچی یونیورسٹی میں نو منتخب یونین کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنا تھا جہاں اسلامی جمعیت طلبا نے شفی نقی جامعی کی قیادت میں بھر پور کامیابی حاصل کی تھی پورا پنڈال جامعہ کراچی کے طلبا و طالبات سے بھرا ہوا تھا مجھے بھی اور دوسرے لوگوں کی طرح کھڑے ہو کر پروگرام سننا پڑا ۔اس زمانے میں تعلیمی اداروں میں اتنا پر سکون ماحول تھا کہ یونیورسٹی کا طالب علم نہ ہونے کے باوجود کوئی بھی کسی بھی پروگرام میں شریک ہو سکتا تھا یہ تو جب ضیاء الحق کے دور میں طلبا کی جمہوری آزادیوں کو سلب کیا گیا اور طلبا تنظیموں پر پابندی لگی تو اس کے نتیجے میں کالجوں اور جامعات میں وہ اقلیتی طلبا تنظیمیں جنھیں کبھی طلبا کی طرف سے انتخابات میں پذیرائی نہیں ملی انھوں اپنی بات منوانے کے لیے تشدد اور ہتھیار کا سہارا لیا خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ،اس دن پروگرام میں شفی نقی جامعی نے اتنی بھر پور اور شاندار تقریر کی ہم نے بعد میں ان کی تقریر کے کیسٹ جماعت کے ذیلی حلقوں کے اجتماعات میں سنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا اس میں مولانا کی تقریر بھی شامل تھی شفی نقی نے اپنی تقریر میں کئی بار یہ جملہ استعمال کیا کہ میرے پاس الفاظ کی کمی ہے اور یہ کہ میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پا رہا ہوں پھر بھی انھوں نے انتہائی معرکتہ لآرا اور یاد گار خطاب کیا تھا جواب میں مولانا نے حمد و ثنا کے بعد اپنی تقریر کا آغاز اس جملے سے کیا کہ میرے پاس الفاظ کی کمی نہیں بلکہ وقت کی کمی ہے پھر انھوں نے طلبا و طالبات کے سامنے یہ سوال رکھا کہ مغرب میں عریانی فحاشی کی خباثتوں کے باوجود یہ قومیں دنیا میں اب تک قیادت کے منصب پر کیوں سرفراز ہیں ۔ مختصر الفاظ میں مولانا محترم نے اس کے اسباب اور وجوہات پر گفتگو کی کہ اس معاشرے میں انصاف ہے فلاحی ریاست کا تصور زندہ و تابندہ نظر آتا ہے سب سے اہم بات یہ کہ تحقیق ،جستجو اور نت نئی ایجادات میں یہ قومیں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں بہت پرانی بات ہو گئی اس لیے بیشتر نکات ذہن سے اوجھل ہو گئے لیکن اتنا یاد ہے کہ مولانا نے بہت موثر اور مدلل گفتگو کی تھی ۔

ان دو پروگراموں کے بعد مولانا سے ذاتی طور پر ملنے کی آارزو دن بدن شدید ہوتی جارہی تھی ،پھر یہ ہوا کہ لاہور سے ایک رشتہ دار آئے جو ریلوے میں ہونے کی وجہ سے اکثر کراچی اپنے رشتہ داروں سے ملنے آتے رہتے تھے اس دفعہ وہ اپنے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ لے کر آئے جو 9نومبر 1978کو ہونا تھی گھر والوں نے اس تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا اور قرعہ فال میرے نام نکلا کے میں اپنے خاندان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس پروگرام میں شرکت کروں مجھے اس کی دہری خوشی ہوئی اب مولانا سے ملنے کا بھی موقع مل جائے گا سات نومبر کو ہم روانہ ہوئے آٹھ کو پہنچے جب کہ نو نومبر کی صبح بارات جانا تھی اس زمانے میں زیادہ تر شادیاں دن میں ہوتی تھیں ہمارے یہ رشتہ دار مغلپورہ کے سرکاری مکانات میں رہتے تھے ۔9 نومبر کی صبح سب لوگ بارات کی تیاری کررہے تھے میں نے سوچا کے ابھی تو سب لوگ تیار ہورہے ہیں ہم جا کر مولانا مودودی سے مل آتے ہیں چونکہ کراچی سے باہر یہ میرا پہلا سفر تھا ،میں اپنے میزبانوں سے کچھ بتائے بغیر اچھرہ جانے کے لیے رکشہ میں بیٹھ گیا میرا خیال تھا کہ ہم ایک گھنٹے میں بارات کی روانگی تک لوٹ آئیں گے لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا یہ رکشہ تقریباَ بیس سے پچیس منٹ تک چلتا رہا مجھے لگتا ہے کہ اس نے نیا بندہ سمجھ کر راستہ خود ہی طویل کرلیا ہو اس زمانے میں لاہور میں رکشے میٹر کے مطابق کرایہ وصول کرتے تھے جو کرایہ بنا وہ بھی میرے اندازے سے بہت زیادہ تھا بہر حال اس نے ہمیں اچھرہ روڈپر اتار دیا قریب ہی ایک پھل والے سے پوچھا کہ مولانا مودودی کا مکان کس گلی میں اس نے قریب ہی گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ادھر چلے جاؤ اب تو اچھرہ کا علاقہ ایک بھر پور بازار بن گیا ہے اس زمانے اکا دکا دکانیں تھیں اس گلی میں داخل ہو کر میں 5-Aزیلدار پارک اچھرہ پہنچ گیا کہ یہ الفاظ ہم کتابوں میں دیکھتے تھے ۔

گیٹ سے داخل ہونے کے بعد سیدھے ہاتھ پر ترجمان القران کا دفتر تھا وہاں مولانا کے سکریٹری جناب عاصم نعمانی صاحب کے پاس گیا سلام دعا کے بعد اپنا تعارف کرایا اور ان سے شکوہ کیا کہ میں نے آپ کو کراچی سے دو خط لکھے تھے کہ میں ایک شادی میں شرکت کے لیے لاہور آرہا ہوں مولانا سے ملاقات کا کوئی پروگرام طے کر دیں آپ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔عاصم صاحب نے کہا ان دنوں مولانا بہت بیمار تھے بلکہ اب تک ہیں اس لیے میں آپ کے لیے وقت نہ لے سکا اور اسی لیے جواب نہیں دیا اب آپ آہی گئے ہیں تو میں مولانا کے پاس جاتا ہوں گو کہ ابھی بھی ان کی طبعیت خراب ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ چونکہ کراچی سے آئیں ہیں اس لیے شاید ملاقات کے لیے بلالیں تھوڑی دیر میں میرا بلاوا آگیا میں سامنے والے کمرے میں جو مولانا کے مطالعے کا کمرہ تھا داخل ہوا مولانا صوفہ نما کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ساتھ ایک اسٹینڈ پر لیمپ لگا ہوا تھا جس کی روشنی ان کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے اخبار پر پڑ رہی تھی یہ فارن کا کوئی انگلش اخبار تھا سلام کے بعد مولانا سے ہاتھ ملایا ایسا معلوم ہوا کہ بہت ملائم روئی جیسی کوئی شے ہاتھ میں آگئی ہو ،قریب ہی نشست پر بیٹھ گیا مولانا کے چہرے سے بیماری اور اس کی نقاہت کے آثار واضح ہو رہے تھے مولانا نے نام پوچھا اور کہا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں دل تو چاہتا تھا کہ بہت ساری باتیں کروں لیکن میں نے محسوس کیا کہ مولانا کی طبعیت اس لائق نہیں ہے کہ زیادہ دیر بیٹھا جائے میں نے پوچھا کہ مولانا آپ کی طبعیت کیسی ہے مولانا نے کہا کہ طبعیت کا کیا بتائیں اب تو کچھ بولنے کا بھی جی نہیں چاہتا چونکہ میری دلی آرزو پوری ہو چکی تھی کہ ایک جید عالم دین وقت کے مجدد کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا اور ان کے لیے دل سے دعائیں نکل رہی تھیں میں فوراَ اٹھا اور مولانا سے رخصتی مصافہ کر کے باہر آگیا عاصم صاحب کا شکریہ ادا کر کے واپس اپنے میزبان کے یہاں پہنچا تو بارات جاچکی تھی میزبان ایک صاحب کو گھر چھوڑ گئے تھے کہ جاوید آئیں تو انھیں یہاں لے آئیں بارات قریب ہی گئی تھی ہم پیدل وہاں پہنچ گئے میزبان قدرے غصے میں تھے مگر انتہائی ٹھنڈے لہجے میں بولے کہ آپ کہاں چلے گئے تھے ہم سب پریشان ہو رہے تھے آپ پہلی بار کراچی سے آئیں ہیں پتا نہیں کہاں چلے گئے میں نے بتایا کہ میں مولانا مودودی سے ملنے گیا تھا پوچھا ملاقات ہو گئی میں نے جواب دیا جی ہاں ہو گئی ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 39958 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.