عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ان دس دنوں میں کیے ہوے اعمال اللہ کو سب سے محبوب ہیں. پوچھا گیا کہ جہاد سے بھی نہیں؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:اور جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں مگر وہ جو اپنا مال اور جان لے کر جاۓ اور کچھ بھی واپس نہ لاۓ."

(صحیح بخاری، جلد 2 صفحہ 456)

اسی طرح اس عشرے میں روزے، الحمد للہ اور سبحان اللہ بکثرت کہنا، حج وعمرہ اور قربانی کرنا چاہیے

سیدہ امہ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:جب عشرہ (ذی الحجہ) شروع ہو جاۓ اور تم میں سے کسی ایک کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال اور جلد میں کچھ بھی نہ کاٹے.

(صحیح مسلم)

دوسری روایت میں ناخن نہ کاٹنے کا بھی ذکر ہے.
(مسلم حدیث 1977)

ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں، مفہوم: جو شخص بھی قربانی کرنا چاہتا ہو تو اس پر فرض ہےکہ وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد، قربانی کرنے تک وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے، نہ تو ٹنڈ کرایے اور نہ ہی بال چھوٹے کراۓ، اور جو شخص قربانی نہیں کرنا چاہتا اس کے لیے یہ لازم نہیں"

(حوالہ: المحلی جلد 6 صفحہ 3)

اسی طرح ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں، مفہوم: "جب یہ ثابت ہوگیا تو پھر ناخن اور بال نہیں کاٹے جائینگے، اور اگر کوئ ایسا کرے تو اسے توبہ استغفار کرنا ھوگی، بالاجماع اس پر کوئ فدیہ نہیں، چاہے یہ فعل عمدا کرے یا بھول کر."

(حوالہ: المغنی جلد 9 صفحہ 346)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مفہوم:ہمیں حکم دیا تصبیح (سبحان اللہ) تحمید (الحمد للہ) اور تکبیر (اللہ اکبر) کا بکثرت اہتمام کریں. سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:"اللہ کی نظر میں ان سے بڑا دن اور کوئ نہیں جن میں صالح اعمال اللہ کو زیادہ محبوب ہوں، تو ان دنوں میں بہت زیادہ تحلیل (لا الہ الا اللہ) تکبیر اور تحمید کا ورد کرو"

(حوالہ: مسند احمد جلد 7 صفحہ 224، احمدشاکر نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا)

قربانی کے کچھ مسائل احادیث کے روشنی میں:

چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں مفہوم:وہ جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو، وہ بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو، وہ لنگڑا جسکا لنگڑاپن ظاہر ہو اور بہت زیادہ کمزور جانور جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو

(حوالہ: سنن ابوداؤد، رقم 2802، اس حدیث کی سند کو امام ترمذی، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام ابن الجارود، امام حاکم اور ذہبی رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں صحیح کہا)

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے. مشہور تابعی امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا، مفہوم:ایسا جانور جس کا آدھا سینگ یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو.

(حوالہ: سنن النسائ جلد 7 صفحہ 216، 217 رقم 4381، وسندہ حسن وصحیحہ الترمذی)

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:آنکھ اور کان دیکھیں

(حوالہ: سنن النسائ جلد 7 صفحہ 217، یہ روایت صحیح ہے)

کیا قربانی کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری ہے؟ (یعنی اتنے نصاب کا مالک ہونا جس پر زکوۃ فرض ہو؟) جی نہیں، یہ قطعا ضروری نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من کان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا)

مفہوم:"جو شخص باوجود وسعت کے قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ كے قریب بھی نہ آۓ"

(حوالہ:صحیح الجامع صغیر، سنن ابن ماجہ جلد 3 صفحہ 107 حدیث نمبر 3123 طبع مکتبہ اسلامیہ، مسند احمد جلد 2 صفحہ 321، یہ روایت حسن (اچھی) سند کے ساتھ ہے)

باوجود اسکے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی زندگی تنگ دستی و غربت میں گزری اور آپ کبھی صاحب نصاب نہ ہوۓ،آپ نے کبھی سفرو حضر (مقیم ہونا) میں قربانی نہیں چھوڑی، اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا تعلق زکوۃ کی فرضیت سے نہیں، بلکہ وسعت یا استطاعت سے مراد یہ ہے کہ آپ کے پاس عید قربان کے وقت اتنی وسعت ہے کہ آب قربانی کا جانور خرید سکیں، واللہ اعلم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، مفہوم:کہ قربانی کا گوشت، کھالیں اور جھولیں لوگوں میں تقسیم کردیں اور قصاب کو اس میں سے (بطور اجرت) کچھ بھی نہ دیں

(حوالہ: صحیح بخاری 1717)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے مفہوم:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سفید و سیاھ اور سینگوں والے مینڈہے اپنے ہاتھ سے ذبح فرماۓ، آپ نے تسمیہ وتکبیر (بسم اللہ واللہ اکبر) کہی اور اپنا پاؤں ان کی گردنوں پر رکھا

(حوالہ: صحیح مسلم 1966 صحیح بخاری 5564)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مفہوم:ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ والے سال سات (آدمیوں) کی طرف سے (ایک) اونٹ اور سات کی طرف سے (ایک) گاۓ ذبح کی.

(حوالہ: صحیح مسلم رقم الحدیث 1318)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مفہوم:ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ اضحی (عید قربان) آگئ تو ھم نے (ایک) گاۓ میں 7 (آدمی) اور (ایک) اونٹ میں 10 (آدمی) شریک کۓ.

(حوالہ: سنن الترمذی 1501، و قال "حسن غریب" الخ وسند حسن)

اس سے ثابت ہوا کہ گاۓ کی قربانی میں سات حصوں (افراد) تک ہی شامل کریں گے مگر اونٹ کی قربانی میں سات سے دس حصے (افراد) تک شامل کرنا دونوں جائز ہے، واللہ اعلم.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قربانی کرنے والے کو چاہیے کہ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے

(حوالہ: صحیح بخاری الاضحی۔5564)

مگر کسی اور سے، یا قصاب سے (اجرت پر) ذبح کروانا جائز ہے جیسے اگلے میسج میں ان شاء اللہ آگے آۓ گا.

عطار بن یسار رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں آپ لوگ قربانیاں کس طرح کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک آدمی اپنی طرف سے اور اپنے سارے اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کیا کرتا تھا، وہ خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے، بعد میں لوگ قربانی کرنے میں فخر و مباہات کرنے لگے اور وہ صورت پیدا ہو گئ ہے جو (اب) تم دیکھ رہے ہو

(حوالہ: سنن الترمذی رقم: 1505، مؤطا امام مالک جلد 2 صفحہ 486، السنن الکبری للبیہقی جلد 9 صفحہ 268،سنن ابن ماجہ جلد 3 صفحہ 115 رقم 3147 طبع مکتبہ اسلامیہ، وسندہ صحیح)

اس روایت سے ثابت ہوا کہ ایک خاندان اور ایک خاندان کے تمام اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری یا بکرہ کفایت کرے گا چاہے وہ کتنے ہی ہوں، واللہ اعلم


 
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 414990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.