بلا اور سیاست

تُو بلے باز ہی رہتا تو اچھا تھا

۱۹۹۲کو گزرے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب ہر سر فخر سے تنا ہوا نظر آتا تھا ہر زبان ایک ہی نام کا ورد کرتے تھکتی نہ تھی مائیں فخر سے اپنے بچوں کا نام اس کے نام کی مناسبت سے رکھتیں کہ شاید یہ نام رکھنے سے ہمارے بیٹے کو بھی ایسی ہی شہرت نصیب ہو ۔پاکستان تاریخ میں دو نام ایسے ہیں جن کو بہت شہرت نصیب ہوئی اور اُن ناموں کوشہرت کی ضامن سمجھا جاتا رہا ایک نام تھا ذوالفقار اور دوسرا تھا عمران اگر سروے کیا جاتا تو تقریباً ۳۵ فیصد ذوالفقار اور بھٹو ہے اور اتنے ہی کا نام عمران ہے جن لوگوں کا نام ذوالفقار نہیں بھی تھا پھر بھی بھٹو ان کا تخلص ضرور تھا ۔ عمران خان بھی اُن خوش نصیبوں میں ایک ہے جس کا نام تقریباً ہر دوسرے گھر میں رکھا اور پکارا جاتا رہا ہے لوگ اس نام کے اتنے دیوانے تھے کہ اپنی لڑکیوں کو بھی عمران کہتے تھے ۔اس کی ایک مثال میرے اپنے ہی گاؤں کی ہےکہ ایک گھر میں ایک لڑکی فوت ہوگئی محلے کی مسجد میں اعلان ہوا کہ فلاں شخص کی بیٹی فوت ہوگئی ہے جس کی نماز جنازہ اس وقت ہو گی ۔ لوگ اس گھر جانے لگے ایک بینک منیجر جو کسی دوسرے شہر سے تھے وہ بھی ازراہ ہمدردی اس گھر گئے ،ان نے وہاں مرحومہ کی بہنوں کو اور دیگر رشتہ داروں کو روتے سنا جو مرنے والی کا نام ًعمران ً لے کر رو رہی تھیں ، اب جب کہ بینک مینجر صاحب بے اعلان میں لڑکی کا نام سنا تھا تو کچھ کنفیوژن کا شکار ہو گے، پھر سوچا شاید میں نے بیٹے کی جگہ بیٹی سنا ہو ۔جب جنازہ گاہ میں جنازہ پہنچا مولوی صاحب نے مرحومہ کی زندگی اور بیٹی ہونے کی صفات پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی صفیں درست کرنے کو کہا تو بینک مینجر صاحب نے ساتھ والے ایک ادمی سے پوچھا میں نیت کس کی باندھوں لڑکے کی یا لڑکی کی؟ تو ساتھ والے نے کہا مرحومہ لڑکی تھی تب انہوں نے کہا اچھا تو یہاں عمران لڑکیوں کے نام بھی ہوتے ہیں !۔ مثال بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ عمران کتنا فیمس تھا ایک دوست سے عمران کے متلعق پوچھا گیا تو کہنے لگے عمران خان نیازی اور عطااللہ خان نیازی کی سرگزشت ایک جیسی ہی ہے میں نے پوچھا وہ کیسے کہنے لگے جب تک عطاءاللہ اپنے درد میں گاتا رہا تب تک اُسے ہر کوئی سُنتا رہا جب اُس نے اپنے درد کو کمرشل بنا لیا تب ہر کسی نے منہ پھیرلیا یہی بات عمران خان کی ہے کہ جب تک وہ مخلص ہوکر چلتا رہا تب تک ہردلعزیز رہا جب اُس نے اپنی ہمدردیوں کو کیش کرنا شروع کر لیا تب قدر کی نگاہوں سے اترنا شروع ہوگیا۔ میں نے عرض کی اس کی کوئی مثال ، فرمانے لگے غریبی کا وقت تھا آج جیسی روپے کی فروانی نہ تھی لیکن جب اس(عمران خان )نے کینسر ہسپتال کے لیے چندہ مہم چلائی تو ہر کسی نے دل کھول کر حصہ لیا یہاں تک کہ بچیوں نے کانوں کے جھمکے اور ہاتھوں کے گہنے اتار اتار کر دیے سکولی لڑکے لڑکیاں سکول کی فیس بھی چندہ بکس میں ڈال دیتے کبھی کبھی یوُں بھی ہوا کسی بچے کو پیسے دے کر سبزی کے لیے بازار بھیجا تو اُس نے وہ پیسے بھی کینسر ہسپتال کے چندے میں ڈال دیے گھر والے سبزی دیکھتے رہے وہ ثواب کما کر گھر آگیا ۔ آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک لمبی سی سانس چھوڑتے ہوئے، یار وہ دن بھی یاد ہے جب اس نے مخلص ہو کر ڈرون حملوں کے خلاف اپنے قدم آٹھائے بوڑھے جوان اور بچے لبیک کہتے کاروان میں شامل ہوگے ،گھروں میں بیھٹی خواتین دامن پیھلاے کامیابی کی دعاہیں کرتی رہیں۔۔۔۔۔، میں نے اُن کے اچانک وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان کے کارناموں کو سمٹنے کے لیے کہا یہ تو ساری باتیں قابلِ ستایش ہیں پھرآپ کو عطاءاللہ کہا سے یاد آیا ۔ کہنے لگے قابلِ ستایش باتیں تھیں وہ قابلِ ستایش تھا لیکن اب وہ وہ نہیں رہا اُس میں ہوس آگیا ہے اُس کی باتوں میں مخلص پن کی خوشبو نہیں رہی اُس کے قول جھوٹے لگنے لگے اُس کی ہمدردیاں سیاست کی نیا میں سوار ہوگئ ، وہ اس حد تک ہوس کے بحر میں چلا گیا کہ اُس نے یہ بھی نہ سوچا کہ وطن کی بیٹیاں چاردیواری کی زینت ہوتی ہیں میں ان کو اپنے مقصد کے لیے کیوں شاہراؤں پر ینھچ رہا ہوں ، برستی بارش میں بیھگے لباس کب تلک پردہ مہیا کریں گے جو لباس خود لباس نہیں رہا وہ جسم نازک کی کیا حفاظت کرے گا ، پوری دنیا کی نظریں اُس مملکت خدا داد پر ہیں جس کا نعرہ ً پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ً اب ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے ہمارا منشور ہمارا کلمہ شرمندہ ہو رہا ہے۔ جن لوگوں کو یہ گمان تھا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے انہوں نے جب سڑکوں پر ناچتی پاکستانی لڑکیاں دیکھی تو ششدر رہ گے اور سوچ میں لگ گے کہ اگر یہ قلعہ اسلام کی حالت ہے تو بیرونی فصیل کی حالت کیا ہوگی۔ ،،،،،،،،،،،ایک وقفہ سانس لیتے ہوئے کہنے لگے واہ او پٹھاناں،،،،،،،،، توُ کی کر دتا(تُو نے کیا کر دیا)۔ میں نے اُن کو ایموشنل ہوتے دیکھا تو عرض کیا ، دیکھیے اس میں سارا قصور خان صاحب کا نہیں ہے کچھ ہمارا بھی ہے ، انگلی کو لبوں پر رکھتے ہوے پوچھنے لگے وہ کیا ؟ میں نے کہا یہ ساری لڑکیوں کو بلانے عمران خان کسی گھر نہیں آیا اور نہ ہی کسی کو اُس نے پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ دھرنا دو۔ لڑکیاں ہماری تھیں اگر ہم اُن پر کنٹرول کرتے تو وہ یوُں بیھگے بدن کے ساتھ آپکو شاہراؤں پر دکھائی نہ دیتی لیکن ہم شروع سے ہی اپنی توپ کا دہانہ دوسروں کی طرف موڑ دیتے ہیں جب کہ دوسرے اُس میں کم اور ہم خود اس میں زیادہ انوالو ہوتے ہیں ۔ کہنے لگے بات تو تم بھی ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن وہ ہمارا جذبات سے کھیلا اس نے ہماری ہمدردیوں کے ساتھ انصاف نہ کرتے ہوے اپنی جماعت کا نام تحریک انصاف رکھ دیا ، جب کہ سرا سرا غلط ہے ۔ میں نے کہا دیکھیے ہمیں اب صبر کرنا ہے اور کرنا چاہیے جب تک دھرنا ختم نہیں ہوتا ۔ ہوں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا اب کیا ہوا کہنے لگے ایک شعر یاد آیا تھا میں نے کہا چلو وہ بھی سنا دو ،کہنے لگے تو بلے باز ہی رہتا تو اچھا تھا ۔ کتنے زخم دیے توُ نے کپتان ہو کر-
 
Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 56018 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.